اصل رازق کون؟

حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں دو بھائی تھے، جن میں سے ایک تو نبی کریم صلی الہ علیہ وسلم کی خدمت میں رہا کرتا تھا (کیونکہ اس کے اہل و عیال نہیں تھے اور وہ حصول معاش کی ذمہ داریوں سے بے فکر ہوکر طاعت و عبادت اور دینی خدمات میں مشغول رہا کرتا تھا، اس وجہ سے اس کے اوقات کا اکثر حصہ بارگاہ رسالت میں حاضر باشی کے ذریعہ حصول علم و معرفت میں صرف ہوتا تھا) اور دوسرا بھائی کوئی کام کرتا تھا (یعنی حصول معاش کے لئے کسی ہنر و پیشہ کے ذریعہ کماتا تھا اور دونوں بھائی ایک ساتھ کھاتے پیتے تھے) چنانچہ کمانے والے بھائی نے اپنے دوسرے بھائی کے بارے میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے شکایت کی (یعنی میرا بھائی نہ تو میرے کام کاج میں ہاتھ بٹاتا ہے اور نہ خود الگ سے کوئی کام کرکے کماتا ہے، اس طرح اس کے کھانے پینے کا خرچ مجھے برداشت کرنا پڑتا ہے)۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے (اس کی یہ شکایت سن کر) فرمایا ’’یہ بھی تو ہوسکتا ہے کہ تمھیں اسی کی برکت سے رزق دیا جاتا ہو‘‘۔ (ترمذی)

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے جواب کا مطلب یہ تھا کہ تم یہی کیوں سمجھتے ہو کہ تمھیں جو رزق ملتا ہے، وہ حقیقت میں تمہارے کمانے کی وجہ سے ملتا ہے، بلکہ ہو سکتا ہے کہ تم اپنے اس بھائی کے ساتھ جو ایثار کا معاملہ کرتے ہو اور اس کی معاشی ضروریات کا بوجھ برداشت کرکے جس طرح اس کو فکر و غم سے دور رکھتے ہو، اسی کی برکت کی وجہ سے تمھیں بھی رزق دیا جاتا ہو۔ پس اس صورت میں شکوہ و شکایت کرنے اور اس پر احسان جتانے کا کوئی موقع نہیں ہے۔ اس حدیث شریف سے معلوم ہوا کہ علم و عمل اور دینی خدمات کی طرف متوجہ رہنے اور زاد عقبی کی تیاری کے لئے دنیاوی مشغولیات کو ترک کرنا جائز ہے۔ نیز اعزا و اقرباء کی خبر گیری اور ان کی کفالت، رزق میں وسعت و برکت کا باعث ہے۔