اصلِ کائنات صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی جلوہ گری

علامہ احمد سعید کاظمی

جب یہ بات واضح ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم بلااستثناء تمام عالمین کے لئے رحمت ہیں اور عالم ماسواء اللہ کو کہتے ہیں تو یہ بات بخوبی روشن ہو گئی کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہر فرد عالم کے لئے رحمت ہیں اور حضورﷺ کے رحمت ہونے کے معنی یہ ہیں کہ مرتبۂ ایجاد میں تمام عالم کا موجود ہونا بواسطہ وجود سید الموجوداتﷺ کے ہے اور حضورﷺ اصل ایجاد ہیں۔ کل موجودات، نعمت وجود میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دامنِ رحمت سے وابستہ ہیں۔ ظاہر ہے کہ جو ذات کسی کے وجود کا سبب اور واسطہ ہو، وہ یقیناً اس کے لئے رحمت ہے۔ رحمت کی حاجت ہوتی ہے اور جس چیز کی حاجت ہو وہ محتاج سے پہلے ہوتی ہے۔ چوں کہ تمام عالمین اپنے وجود میں حضورﷺ کے محتاج ہیں، اس لئے سب سے پہلے حضورﷺ کا وجود ضروری ہوگا۔ نیز یہ کہ جب حضور علیہ الصلوۃ والسلام عالمین کے وجود کا سبب اور ان کے موجود ہونے کا واسطہ ہیں تو اس وجہ سے بھی حضورﷺ کا عالمین سے پہلے موجود و مخلوق ہونا ضروری ہے، کیونکہ سبب اور واسطہ ہمیشہ پہلے ہوا کرتا ہے۔ علاوہ ازیں اسی آیت سے حضورﷺ کا اصل کائنات ہونا بھی ثابت ہے، جیسا کہ صاحب تفسیر عرائس البیان نے جلد۲ صفحہ ۵۲ اور صاحب تفسیر روح المعانی نے صفحہ ۹۶ یا ۱۷ پر اسی آیت کے ذیل میں نہایت تفصیل سے اس مضمون کو بیان فرمایا ہے۔ سب جانتے ہیں کہ اصل کا وجود فرع سے پہلے ہوتا ہے، اس لئے ذاتِ پاک مصطفیﷺ کی خلقت اصل کائنات ہونے کی حیثیت سے کل موجودات اور عالمین سے پہلے ہے۔ الحمد للہ! خوب واضح ہو گیا کہ خلقتِ محمدی صلی اللہ علیہ وسلم تمام موجودات عالم سے پہلے ہے۔

بعض لوگ سوال کرتے ہیں کہ جب ساری مخلوق حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے نور سے موجود ہوئی تو ناپاک، خبیث اور قبیح اشیاء کی برائی اور قباحت (معاذ اللہ!) حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی طرف منسوب ہوگی، جو حضورﷺ کی شدید توہین ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم آفتاب وجود ہیں اور کل مخلوقات حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے آفتاب وجود سے فیضان وجود حاصل کر رہی ہے۔ جس طرح اس ظاہری آفتاب کی شعاعیں تمام کرۂ ارضی میں جمادات و نباتات اور کل معدنیات جملہ موالید اور جواہر اجسام کے حقائق لطیفہ اور خواص و اوصاف مختلفہ کا اضافہ کر رہی ہیں اور کسی اچھی بری خاصیت کا اثر شعاعوں پر نہیں پڑتا، نہ کسی چیز کے اوصاف و اثرات سورج کے لئے قباحت یا نقصان کے موجب ہوسکتے ہیں۔ واضح رہے کہ زہریلی چیزوں کا زہر اور مہلک اشیاء کی یہ تاثیرات معدنیات و نباتات وغیرہ کے الوان طعوم و روائح، کھٹا میٹھا مزا، اچھی بُری بو سب کچھ سورج کی شعاعوں سے برآمد ہوتی ہے، لیکن ان میں سے کسی چیز کی کوئی صفت سورج کے لئے عار کا موجب نہیں، کیونکہ یہ تمام حقائق آفتاب اور اس کی شعاعوں میں انتہائی لطافت کے ساتھ پائے جاتے ہیں اور اس لطافت کے مرتبہ میں کوئی اثر بُرا نہیں کہا جاسکتا، البتہ جب وہ لطیف اثرات اور حقائق سورج اور اس کی شعاعوں سے نکل کر اس عالم اجسام میں پہنچتے اور رفتہ رفتہ ظہور پزیر ہوتے ہیں تو ان میں بعض ایسے اوصاف و خواص پائے جاتے ہیں، جن کی بناء پر انھیں قبیح، ناپاک اور بُرا کہا جاتا ہے۔ ظاہر ہے کہ ان برائیوں کا کوئی اثر سورج یا اس کی شعاعوں پر نہیں پڑ سکتا۔ اسی طرح عالم اجسام میں کثیف اور نجس چیزوں کا کوئی اثر حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی ذات پاک پر نہیں پڑسکتا۔

اس کے بعد یہ بات بھی سمجھنے کے قابل ہے کہ سورج کی شعاعیں ناپاک یا گندی چیزوں پر پڑنے سے ناپاک نہیں ہوسکتیں تو انوار محمدی کی شعاعیں عالم موجودات کی برائیوں اور نجاستوں سے معاذ اللہ! کیونکر متاثر ہوسکتی ہیں۔ نیز یہ کہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے نور میں حقائق اشیاء پائی جاتی ہیں اور حقیقت کسی چیز کی نجس اور ناپاک نہیں ہوتی۔ نجاستیں مٹی میں دب کر مٹی ہو جانے کے بعد پاک ہو جاتی ہیں۔ نجاستوں کا جو کھاد کھیتوں میں ڈالا جاتا ہے، اسی کے نجس اجزاء پودوں کی غذا بن کر غلہ، اناج، پھول، پھل، سبزیوں اور ترکاریوں کی صورت میں ہمارے سامنے آجاتے ہیں اور وہی اجزاء غلیظہ غلہ اور پھل بن کر ہماری غذا بن جاتے ہیں، جنھیں پاک سمجھ کر ہم کھاتے ہیں اور کسی قسم کا تردد دل میں نہیں لاتے۔ ثابت ہوا کہ ناپاکی کے اثرات صور و تعینات پر آتے ہیں، جو محض امور اعتباریہ ہیں۔ حقیقتیں ناپاک نہیں ہوا کرتیں، اس لئے کل مخلوق کا نور محمدی صلی اللہ علیہ وسلم سے موجود ہونا کسی اعتراض کا موجب نہیں۔

حدیث جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ میں جو بار بار نور کی تقسیم کا ذکر آیا ہے، اس کے یہ معنی نہیں کہ معاذ اللہ! نور محمدی تقسیم ہوا، بلکہ اللہ تعالیٰ نے جب نور محمدی کو پیدا فرمایا تو اس میں شعاع در شعاع بڑھاتا گیا اور وہی مزید شعاعیں تقسیم ہوتی رہیں۔ اس مضمون کی طرف علامہ زرقانی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اشارہ فرمایا ہے (زرقانی علی المواہب، جلد اول، صفحہ۴۶) رہا یہ شبہ کہ نور محمدی سے روح محمدی مراد ہے، لہذا حضور علیہ الصلوۃ والسلام کا نور ہونا ثابت نہ ہوا، تو اس کا جواب یہ ہے کہ حدیث شریف میں ’’نورنبیک من نورہٖ‘‘ وارد ہے۔ جس طرح ’’نورہٖ‘‘ میں اضافت بیانیہ ہے اور لفظ نور سے اللہ تعالیٰ مراد ہے، اسی طرح ’’نورنبیک‘‘ میں بھی اضافت بیانیہ ہے اور لفظ نور سے ذات پاکِ مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم مراد ہے، لہذا ذاتِ محمدی کو لفظ نور سے تعبیر فرمایا گیا ہے۔ اس مقام پر یہ کہنا کہ صرف روحِ پاک نور ہے، جسم اقدس نور نہیں ہے، تو یہ بے خبری پر مبنی ہے۔ جسم اقدس کی لطافت اور نورانیت پر ہم ان شاء اللہ تعالیٰ بعد میں گفتگو کریں گے، سردست اتنا عرض کردینا کافی سمجھتے ہیں کہ حدیث جابر؄ میں تمام اشیاء سے پہلے جس نور محمدی کی خلقت کا بیان ہے، وہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی ذاتِ پاک کا نور ہے اور وہ اس لطیف حقیقت کو بھی شامل ہے، جسے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے نورانی اور پاکیزہ اجزائے جسمیہ کا جوہرِ لطیف کہا جاسکتا ہے، اس لئے کہ وہ نورِ پاک آدم علیہ السلام کی پشت مبارک میں بطور امانت رکھا گیا ہے۔ علامہ زرقانی فرماتے ہیں: ’’حدیث میں آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جب آدم علیہ السلام کو پیدا کیا تو نورِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی پشت مبارک میں رکھ دیا اور نور پاک ایسا شدید چمک والا تھا کہ باوجود پشت آدم میں ہونے کے پیشانی آدم علیہ السلام میں چمکتا تھا اور آدم علیہ السلام کے باقی انوار پر وہ غالب ہو جاتا تھا‘‘۔ (زرقانی علی المواہب، جلد اول، صفحہ۴۹) (مقالات کاظمی سے اقتباس)