اشیائے ضروریہ اور ہماری تشویشِ غیر ضروریہ

میرا کالم مجتبیٰ حسین
پچھلے ہفتہ ہمیں اپنے کالم کے لئے کوئی مناسب موضوع نہ ملا تو ہم نے یوں ہی منہ کا مزہ بدلنے کی خاطر اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اضافہ کے خلاف حسب استطاعت کچھ لکھ دیا ۔ بعد میں یاد آیا کہ اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ کا مسئلہ ہمارے لئے کوئی نیا مسئلہ نہیں ہے ۔ بلکہ یہ کہا جائے تو بیجا نہ ہوگا کہ یہ مسئلہ تو ہمارا جنم جنم کا ساتھی ہے ۔ بہت عرصہ پہلے ہم نے کسی مضمون میں لکھا تھا کہ ہم Daily wage basis پر زندہ رہتے ہیں ۔ یعنی ہم یومیہ بنیاد پر کمائی کرتے ہیں اور اس کمائی کی مدد سے ہر روز زندہ رہنے کے لئے چیزیں وغیرہ خرید کر اسے خرچ کردیتے ہیں بلکہ کبھی کبھی تو ایسا بھی ہوتا تھا کہ ادھر دوپہر کا کھانا کھا کر اچھی طرح ڈکار بھی نہیں لے پاتے تھے کہ رات کے کھانے کی فکر دامن گیر ہوجاتی تھی اور ہم پھر سے زندگی کی دوڑ میں شامل ہوجاتے تھے ۔ اس کا فائدہ یہ ہوا کہ ہمیں محنت کرنے کی عادت پڑگئی اور محنت کے تجربہ کی وجہ سے ہماری اجرت میں کم کم ہی سہی اضافہ ہوتا چلاگیا ۔ قیمتوں میں بھاری اضافہ کے باوجود آج بفضل تعالی ہم اس حد تک مطمئن زندگی گزارنے کے قابل ہوگئے ہیں کہ روز کی روٹی کی فکر روز نہیں کرتے بلکہ ایک ہفتہ خوش اسلوبی کے ساتھ گزر جائے تو اس کے بعد کے ہفتہ کی فکر لاحق ہونے لگتی ہے ۔ گویا اب ہم Daily wage basis پر نہیں بلکہ Weekly wage basis پر زندہ رہنے لگے ہیں اور یہ ہفتہ واری سکون اور اطمینان بھی کسے میسر آتا ہے ۔

یہ الگ بات ہے کہ آج کی پاگل دنیا میں آدمی سامان سو برس کے جمع کرنا چاہتا ہے اور اسے پل کی خبر نہیں ہوتی ۔ اشیاء اور ان کی قیمتوں کا حال جتنا ہم جانتے ہیں اتنا شاید ہی کوئی اور جان سکے ۔ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ ہم نے اپنی زندگی کا بڑا حصہ اس صدی میں گزارا ہے جس میں اس دھرتی نے دو عظیم جنگوں کی اذیت اور کرب کو جھیلا بلکہ جب ہمارے شعور نے آنکھیں کھولیں تو دوسری جنگ عظیم اپنے عروج پر تھی ۔ پھر ملک کی تقسیم کے نتیجہ میں برپا ہونے والے فسادات کے گھناؤنے پن کو نہ صرف محسوس کیا بلکہ اسے برداشت بھی کیا ۔ آج کی مصروف زندگی میں کشاکش روزگار نے ہمیں مہلت ہی نہ دی کہ کبھی پیچھے مڑکر کردیکھ لیتے کہ ہم نے اپنا سفر کہاں سے شروع کیا تھا ۔ ہم نے اپنی ابتدائی زندگی چھوٹے قصبوں اور شہروں میں گذاری ۔ چھ سال کی عمر میں زندگی میں پہلی بار بجلی کے بلب کودیکھا ۔ کم و بیش اسی عرصہ میں عجیب الخلقت گراموفون اور قدآدم ریڈیو سیٹ کو دیکھا ۔ گراموفون پر پہلا جو گیت سنا وہ تھا ’’تری گٹھری میں لاگا چور مسافر جاگ ذرا‘‘ ۔ گراموفون ریکارڈ میں ایک جگہ کچھ خرابی پیدا ہوگئی تھی جس کی وجہ سے سوئی ہمیشہ ’’لاگا چور‘‘ پر اٹک جاتی تھی اور جب تک سوئی کو اس جگہ سے ہٹایا نہیں جاتا تھا تب تک گانے والا ’’لاگا چور ، لاگاچور‘‘ کی گردان کرتا رہ جاتا تھا ۔ آج ہم سوچتے ہیں تو احساس ہوتا ہے کہ گراموفون ریکارڈ میں یہ خرابی علامتی اعتبار سے نہایت واجبی اور جائز تھی کیونکہ ساری بیسویں صدی میں ہم جیسے مسافر کی گٹھری ہمیشہ چوروں کی دسترس میں رہی ۔

چاہے یہ چور تاجر بن کر آئے ہوں ، افسر یا سیاستداں بن کر آئے ہوں ۔ پھر یہ گراموفون اور قد آدم ریڈیو بھی کہیں غائب ہوگئے اور ان کی جگہ چھوٹے چھوٹے ٹرانزسٹروں اور ریکارڈ پلیئرس نے لے لی ۔ دوسری جنگ عظیم کی خبریں ہم اسی قدآدم ریڈیو پر سنا کرتے تھے بلکہ ہیروشیما پر پھینکے گئے دنیا کے پہلے ایٹم بم کی خبر بھی ہم نے اسی کی مدد سے سنی ۔ ساٹھ کی دہائی میں ہم پہلی بار لفٹ میں سوار ہوئے اور اپنی خودی کو خود بخود بلند ہوتے دیکھا ۔ اسی دہائی میں نہ صرف ٹیلی ویژن کو پہلی بار محدود پیمانہ پر دیکھا بلکہ انسان کو چاند پر کمندیں پھینکتے ہوئے بھی دیکھا ۔ غرض چھٹی دہائی کے بعد کمپیوٹر ، انٹرنیٹ ، موبائل فون اور خلائی سیاروں وغیرہ کی مدد سے ایک طرف تو دنیا کی رفتار تیز ہوگئی اور دوسری طرف ہماری رفتار ماند پڑگئی بلکہ ہم تو اکیسویں صدی میں لنگڑاتے ہوئے ہی داخل ہوئے ۔ چاہے کچھ بھی ہو جس انسان نے بیسویں صدی کے نصف آخر میں زندگی گزاری ہو اس کے بارے میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس نے اس دھرتی پر کئی صدیوں کی زندگی جی لی ہے ۔ ہمیں تو اس کرہ ارض کی تیز رفتاری سے ڈر ہونے لگا ہے ۔ جس طرح ایک ہوائی جہاز رن وے پر تیزی سے دوڑ کر ایک مرحلہ کے بعد فضا میں ٹیک آف کرجاتا ہے اسی طرح ہمیں یہ ڈر ہونے لگا ہے کہ کہیں اکیسویں صدی کے آتے آتے انسان اس دھرتی کو چھوڑ کر خلا میں کسی اور سیارے کی طرف نکل نہ جائے ۔

اس وقت تک تو خیر ہم نہیں رہیں گے لیکن ہماری اس مشت خاک کا کیا ہوگا جو اس ویران دھرتی پر رہ جائے گی ۔ ہم نے اتنی ساری لمبی تمہید یہ ظاہر کرنے کے لئے باندھی ہے کہ اب اس دھرتی پر خود انسان کی اہمیت کم اور سائنسی آلات اور چیزوں کی اہمیت زیادہ ہوگئی ہے ۔ لہذا اسی تناسب سے انسان اور اشیاء کی قدر و قیمت میں بھی کمی و بیشی واقع ہوتی جارہی ہے ۔ اب انسان خود کام کم کرتا ہے اور مشینیں زیادہ کام کرتی ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ بیسویں صدی میں انسان کی خصلتوں اور عادتوں میں بھی رفتہ رفتہ تبدیلی واقع ہوتی چلی گئی ۔ اسی صدی میں انسان کے ہاتھوں سے صدیوں کے صبر و تحمل اور توکل و قناعت کا دامن چھوٹ گیا ۔ اسی عرصہ میں وہ وسیع المشربی ، انسانی دوستی ، رواداری اور روشن خیالی جیسے انمول جذبوں کی دولت سے محروم ہوگیا اور اس نے تنگ نظری ، حرص وہوس ، ظلم و تشدد اور دہشت گردی کے رویوں کو اپنانا شروع کیا ۔ دیکھتے ہی دیکھتے انسان اتنا بے توقیر ہوگیا کہ خود اس کی قدر و قیمت دو کوڑی کی نہ رہی ۔ ہمارے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ جب انسان نے بہ رضا و رغبت خود اپنی قیمت اس قدر گرالی ہے تو اب اسے بازار میں اشیاء کے بڑھتے داموں کی شکایت کرنے کا کوئی حق نہیں پہنچتا ۔

معاف کیجئے اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ پر اظہار خیال کرنے کی کوشش میں ہم بھٹک کر انسان اور اس کی انسانیت کی ارزانی تک پہنچ گئے ۔ ہمیں وہ دن بھی یاد ہیں جب دوسری جنگ عظیم عروج پر تھی اور بازار میں اجناس کی شدید قلت تھی ۔ ہمیں امریکی امداد کے تحت ایسا چاول کھانے کو ملتا تھا جس میں سے ایک عجیب طرح کی ناخوشگوار بو آتی تھی لیکن اس کے باوجود ہم اسے کھانے پر مجبور تھے کیونکہ پیٹ بڑا بدکار ہے ۔ پولیس ایکشن سے ذرا پہلے جب سابق ریاست حیدرآباد کی ناکہ بندی کردی گئی تھی تو ہم کیروسین آئیل کی ایک ایک بوند کے محتاج ہوگئے تھے ۔ موم بتیاں بھی عنقا ہوگئی تھیں ۔ لہذا ہم اپنی پڑھائی دن میں ہی کرلیا کرتے تھے اور رات کو اپنی روشنی طبع سے کام چلا لیتے تھے ۔ آزادی کے فوری بعد ملک میں راشننگ (جسے اردو میں راتب بندی کہا جاتا تھا) نافذ تھی ۔ راشن کی دوکانوں کے سامنے چیزوں کی خریدی کے لئے اتنی بھیڑ لگی رہتی تھی کہ لوگ اپنے بچوں کو باری باری سے راشن کی قطار میں کھڑا کردیتے تھے چنانچہ راشن کی دکانوں کے آگے رات کے پچھلے پہر ہی سے گاہکوں کی قطاریں لگنی شروع ہوجاتی تھیں ۔

یہاں تک کہ راشن کی دکان کا مالک خود جب مقررہ وقت پر دکان کھولنے کی غرض سے قطار میں آگے بڑھنے کی کوشش کرتا تو لوگ اسے بھی زبردستی پکڑ کر قطار میں سب سے پیچھے کھڑے ہوجانے کی تلقین کرتے تھے ۔ ان دنوں سڑکوں پر آدمی بھی کم ہی چلتے پھرتے دکھائی دیتے تھے کیونکہ آدمی زیادہ تر قطاروں میں کھڑے ہوئے پائے جاتے تھے ۔ عجیب نفسا نفسی کا عالم ہوتا تھا ۔ وہ تو اچھا ہوا کہ اس ملک کو رفیع احمد قدوائی جیسا دور اندیش وزیر اغذیہ مل گیا جنہوں نے بڑی سوجھ بوجھ کے ساتھ اچانک راشننگ کو برخاست کردیا اور ذخیرہ اندوزوں کے ٹھکانوں پر چھاپے مارنے کا سلسلہ شروع کیا ۔ اشیاء کی مصنوعی قلت اچانک ختم ہوگئی اور اشیائے ضروریہ کی تقسیم کا نظام بحال ہوگیا ۔ اگر رفیع احمد قدوائی نے یہ انقلابی قدم نہ اٹھایا ہوتا تو ہمارا ملک ایک لمبے عرصہ تک قطار میں ہی کھڑا رہ جاتا ۔ دوسری طرف ہمارے آج کے وزیر اغذیہ شرد پوار ، شکر کی قیمت میں حیرت انگیز اضافہ کو روکنے کے معاملہ میں جہاں اپنے آپ کو بے بس ظاہر کررہے ہیں وہیں یہ خطرناک اشارہ بھی دے رہے ہیں کہ اب بہت جلد دودھ کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہونے والا ہے ۔ چنانچہ اب لوگ دودھ کی ذخیرہ اندوزی کرنے کی تیاریاں کررہے ہیں ۔ وزیر اغذیہ کو کم از کم ایسی باتیں کرنے سے گریز کرنا چاہئے ۔ اشیائے ضروریہ کی قلت یوں بھی حکومتوں کے لئے بہت خطرناک ہوتی ہے ۔ یہ تو آپ جانتے ہی ہیں کہ جب سشما سوراج دہلی کی چیف منسٹر تھیں تو دہلی میں اچانک پیاز بازار سے غائب ہوگئی تھی اور اس کی قیمت میں حیرت انگیز اضافہ ہوگیا تھا ۔ چنانچہ دہلی میں بی جے پی کی سرکار صرف پیاز کی قلت کی وجہ سے الیکشن ہار گئی تھی ۔ ایک زمانہ میں ہمارے ملک میں ذخیرہ اندوزی کا چلن بہت عام تھا ۔ ہمیں یاد ہے کہ کویت پر عراق کے حملہ کے وقت یہ افواہ اڑ گئی تھی کہ اب ملک میں پٹرول کی سخت قلت ہوجائے گی ۔ اس وقت تک ہم موٹر نشین بن گئے تھے ۔

اس افواہ نے ہمارے ارکان خاندان کو اتنا ہراساں اور پریشان کیا کہ وہ پٹرول کی ذخیرہ اندوزی کرنے پر مجبور ہوگئے ۔ ایک دن ہم چلچلاتی دھوپ میں گھر واپس ہوئے تو پیاس سے ہمارا برا حال تھا ۔ جیسے ہی ہم نے اپنی پیاس بجھانے کے لئے ریفریجریٹر کو کھولا تو ہماری اہلیہ نے ہمیں آگاہ کیا کہ ریفریجریٹر میں پانی کی ساری بوتلوں میں پٹرول بھر کر رکھ دیا گیا ہے ۔ لہذا ہم کوکاکولا یا کسی اور مشروب کی مدد سے اپنی پیاس بجھانے کی کوشش کریں ۔ خیر اب ہمارے سماج میں ذخیرہ اندوزی کا ایسا خطرناک رجحان ختم ہوگیا ہے ۔ چیزیں ضرور مل جاتی ہیں ۔ یہ الگ بات ہے کہ ان کی قیمتیں اب آسمان سے باتیں کرنے لگی ہیں ۔ بہت عرصہ پہلے ہمارے ایک دوست نے ہمارے معاشی نظام کے بارے میں کہا تھا کہ ہمارا معاشی نظام اصل میں ’’بدمعاشی نظام‘‘ ہے جس میں ہمارے تاجر سے لے کر ہمارے سیاستدانوں اور حکمرانوں تک کی ’’بدمعاشیاں‘‘ شامل رہتی ہیں اور عام آدمی انہیں چپ چاپ برداشت کرتا رہتا ہے ۔ دوسری طرف ’’افراط زر‘‘ کی کیفیت نے بھی ہمیں پریشان کررکھا ہے ۔ ہمیں یاد ہے کہ 1972ء میں جب ہم حکومت آندھرا پردیش کے محکمہ اطلاعات سے نکل کر دہلی گئے تھے تو اس وقت ہماری تنخواہ آٹھ سو روپئے تھی ۔ دہلی گئے تو ہمیں 2000 روپئے ملنے لگے ۔ یہ ضرور ہے کہ NCERT میں ہمیں تین ترقیاں ضرور ملیں اور ان سارے مراحل سے گزرنے کے بعد آج جو ہم وظیفہ پاتے ہیں اس کی مالیت خود ہماری دہلی کی ابتدائی یافت سے پندرہ گنا زیادہ ہے یعنی تیس ہزار روپے گویا پہلے کام کرکے کم کماتے تھے اور اب کوئی کام نہ کرکے زیادہ کمانے لگے ہیں ۔ وہ تو اچھا ہے کہ اب ہم عمر کی اس منزل میں داخل ہوگئے ہیں جہاں آدمی مایا کے جال سے یا تو خود نکل جاتا ہے یا قدرت اسے نکال دیتی ہے ۔ لہذا ہم جب اشیائے ضروریہ کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہیں تو لوگ اسے ہماری ’’تشویشِ غیر ضروریہ‘‘ سمجھتے ہیں ۔ (ایک پرانی تحریر)