اشیاء اور انسانوں کے دام

میرا کالم             مجتبیٰ حسین
جب سے پرسار بھارتی بورڈ بنا ہے تب سے دوردرشن کی خبروں میں بعض اوقات کسی موضوع پر لوگوں کے انٹرویو یا ان کے تبصرے بھی پیش کئے جانے لگے ہیں مثلاً کسی دن موسم بہت خراب ہو تو ماہرین موسمیات میں سے کسی کو بلا کر اس سے موسم کی خرابی کی وجہ پوچھی جاتی ہے ۔ عام آدمی کی رائے بھی پوچھی جاتی ہے کہ وہ اس موسم میں کیسا محسوس کررہا ہے ۔ پچھلے ہفتہ اشیاء کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے بارے میں ایسا ہی ایک ردعمل پیش کیا گیا تھا ۔ ماہرین معاشیات تو وہ ہوتے ہیں جن کی دلچسپی عوام کی معیشت میں کم اور ملک کی معیشت میں زیادہ ہوتی ہے ۔ اشیاء کی قیمتیں بڑھتی بھی ہیں تو سمجھتے ہیں کہ اس سے ملک کی معیشت مستحکم ہورہی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ہم نے آج تک اپنی گھریلو معیشت کو بہتر بنانے کے لئے کبھی کسی ماہر معاشیات سے مشورہ طلب نہیں کیا حالانکہ ملک کے بعض مقتدر ماہرین معاشیات سے ہماری شناسائی ہے ۔ چنانچہ اس مباحثہ میں بھی ماہرین معاشیات نے یوں اظہار خیال کیا جیسے اشیاء کی قیمتوں کا بڑھنا ایک فال نیک ہے بلکہ ایک صاحب نے تو دیگر ممالک میں اشیاء کی رائج الوقت قیمتوں کا تقابل اپنے ہاں کی قیمتوں سے کرتے ہوئے تاجروں کو بہکانے کی کوشش کی کہ میاں اپنی اشیاء کی قیمتیں کچھ اور بڑھالو ۔ دیکھو دنیا میں کیا ہورہا ہے اور تم کیا کررہے ہو ۔ ملک کے ماہرین معاشیات سے تو خیر ہمیں کوئی امید نہیں ہے کہ وہ عوام کی مشکلات کو کبھی سمجھ پائیں گے ۔ التبہ اس مباحثہ میں جن عام آدمیوں کی رائے پوچھی گئی انہوں نے بہت کھری کھری سنائی ۔ ایک عام آدمی کا رویہ تو کچھ ایسا تھا جیسے رائے دینے سے پہلے دوردرشن کے نمائندے سے کہنا یہ چاہتا ہو ’’بھیا! میں رائے تو دونگا لیکن پہلے مجھے کھانا تو کھلادو تاکہ میں رائے دینے کے قابل بن سکوں ۔ خدا کی قسم دو دنوں سے بھوکا ہوں‘‘ ۔ ایک اور عام آدمی کا رویہ کچھ اتنا جارحانہ تھا کہ لگتا تھا وہ رائے دینے کے بجائے دوردرشن کے نمائندہ پر حملہ کرنے کا ارادہ رکھتا ہو ۔ اس کا کہنا تھا کہ اس کے رائے دینے سے اشیاء کی قیمتیں تو کم نہیں ہوں گی ۔ پھر ایسی رائے دینے کا کیا فائدہ ۔ اس عام آدمی کے ردعمل کو دوردرشن کے نمائندے نے دور ہی سے جاننے کی کوشش کی اور صحیح سلامت وہاں سے بھاگ کھڑا ہوا ۔ لیکن سب سے دلچسپ ردعمل ہمیں اس خاتون کا لگا جو ایک موٹر سے باہر نکل رہی تھی کہ اچانک دوردرشن کے نمائندہ نے اسے جاپکڑا ۔ دوردرشن کی ٹیم اور کیمرہ مین کو دیکھ کر خاتون نے پہلے تو اپنے بال ٹھیک کئے ، ہونٹوں پر غالباً لپ اسٹک کا تازہ لیپ بھی لگایا ۔ پھر مسکرانے لگی تو دوردرشن کے نمائندہ نے اس سے ڈرتے ڈرتے پوچھا ’’محترمہ یہ بتایئے کہ اشیاء کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟‘‘ اس پر موصوفہ نے نہایت بے نیازی کے ساتھ جواب دیا ’’میں کیا جانوں کہ ان دنوں چیزوں کے دام کیا ہیں کیونکہ یہ چیزیں تو بازار سے میرا نوکر لے کر آتا ہے ۔ میں نے کبھی یہ جاننے کی کوشش نہیں کی کہ ان کے کیا دام ہیں ۔ ایسی چھوٹی موٹی فضول باتوں میں دخل دینے کے لئے میرے پاس وقت ہی کہاں ہے؟‘‘ ۔ دوردرشن کا نمائندہ اس غیر متوقع جواب سے سٹپٹا گیا اور اس نے فوراً کیمرہ کا سوئچ آف کردیا ۔ مگر اس بات سے ہمیں بڑی کوفت ہوئی ۔ اس لئے کہ یہ خاتون بالکل سچ بات کہہ رہی تھی اور دوردرشن نے اچانک اس کی بات کو دبادیا اور عوام تک ان کی آواز پہنچنے نہیں دی ۔ کم از کم پرسار بھارتی بورڈ کے بننے کے بعد تو دوردرشن پر اس طرح کی کوئی پابندی نہیں عائد نہیں ہونی چاہئے تھی ۔ عوام کو پورا حق ملنا چاہئے کہ وہ اپنی آواز چاہے وہ کیسی ہی کیوں نہ ہو عوام تک پہنچاسکیں ۔ ہمیں اس وقت ایمرجنسی کے دنوں کا ایک واقعہ یاد آیا ۔ ایک نوجوان کسی ہوٹل میں بیٹھ کر دوسرے نوجوان سے ہندوستان کے سیاسی حالات کی برائی کررہا تھا ۔ پولیس کے ایک داروغہ نے یہ بات سن لی تو اسے پکڑ لیا اور تھانے میں لیجا کر یہ کہتے ہوئے اس کی پٹائی شروع کردی کہ ہوٹل میں بیٹھ کر اپنے ملک کی حکومت کی برائی کرتا ہے ۔ شرم کی بات ہے ۔

اس پر نوجوان نے صفائی دینے کی خاطر کہا ’’حضور! آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے میں تو اصل میں امریکہ کی حکومت کی برائی کررہا تھا ۔ اپنے ملک کی حکومت کی نہیں‘‘ ۔ اس پر داروغہ نے اس کے گال پر ایک زوردار طمانچہ رسید کرتے ہوئے کہا ’’پھر جھوٹ بولتا ہے ۔ کیا تو مجھے بیوقوف سمجھتا ہے ، کیا میں نہیں جانتا کہ کون سی حکومت نکمی اور ناکارہ ہے‘‘ ۔ دیکھا جائے تو مذکورہ خاتون نے دوردرشن کے نمائندہ سے جو بات کہی تھی وہ اپنے طور پر سچ تھی ۔ بے چاری کو جب پتہ ہی نہیں کہ بازار میں اشیاء کے کیا بھاؤ ہیں تو وہ اس بارے میں کیا کہتی ۔ مگر دوردرشن کا نمائندہ اس کی یہ سچی بات سننا نہیں چاہتا کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اس معاملہ میں کس کا نکما پن ہے ۔ اس لئے اس نے بات چیت کو بیچ میں ہی روک دیا ۔ آپ اس خاتون کی بات کرتے ہیں بھیّا خود ہماری مثال لیجئے ۔ ہمیں بھی یہ نہیں معلوم کہ بازار میں ان دنوں اشیاء کے کیا دام ہیں ۔ خدا جھوٹ نہ بلوائے تو ہمیں صرف سگریٹ کے داموں کا پتہ ہے ۔ ہم نہیں جانتے پیاز کا کیا بھاؤ ہے ۔ یہی حال مرچ ، مونگ پھلی کے تیل ، مصالحوں اور ادرک لہسن کا ہے ۔ ہمیں کیا پتہ کہ چیزوں کے دام بڑھ رہے ہیں یا گھٹ رہے ہیں ۔ جس کو ہو جان ودل عزیز اس کی گلی میں جائے کیوں ۔ بازار سے اردو شاعر کے مصرعہ کی طرح گزرتے ہیں ؎
بازار سے گزرا ہوں خریدار نہیں ہوں
جب آپ کی جیب میں پیسہ ہی نہ ہو تو خریدار کیسے بن پائیں گے ۔ ہمارا کوئی نوکر تو ہے نہیں کہ وہ بازار سے چیزیں خرید کر لایا کرے اور ہم اپنی فطری شرافت اور بے نیازی کے باعث اس سے چیزوں کے دام نہ پوچھیں ۔ دوردرشن پر اپنے بے نیازانہ ردعمل کا اظہار کرنے والی خاتون نے تو یہ کام اپنے نوکر کو سونپ رکھا ہے کیونکہ اللہ نے اسے یہ توفیق عطا فرمائی ہے جبکہ ہم نے ملک کے ماہرین معاشیات کی حرکتوں کا مقابلہ کرنے کی ذمہ داری اپنی اہلیہ کو سونپ رکھی ہے اور ماشاء اللہ وہ اس فرض سے اس خوش اسلوبی کے ساتھ عہدہ برآ ہورہی ہیں اور دکانداروں سے چیزوں کے دام پر اتنی مدلل بحث کرتی ہیں کہ اکثر دکاندار تو انہیں دیکھ کر دکانیں بند کرنے لگ جاتے ہیں ۔ یوں بھی چیزوں کے بڑھتے ہوئے داموں کا مقابلہ ہر آدمی اپنے اپنے انداز سے کرتا ہے ۔
ہمارے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ چیزوں کے داموں کے بڑھنے کے باوجود اس ملک میں اب بھی بعض لوگ ایسے ہیں (بشمول ہمارے) جنہیں بازار کا حال بالکل نہیں معلوم ۔ وجہ ہر ایک کی جداگانہ ہے ۔ مشکل یہ ہے کہ دوردرشن کے نمائندے داموں کے بارے میں ردعمل کو جاننے کے لئے یا تو ماہرین معاشیات کے پاس جاتے ہیں یا پھر بالکل ہی عام آدمی کا رخ کرتے ہیں ۔ پہلی بار ایک پیٹ بھری خاتون اس کام کے لئے انہیں ملی تھی تو اس کی آواز عوام تک پہنچنے نہ دی ۔ بہرحال ہم نے اپنے قارئین کی سہولت کے لئے اپنے طور پر ایسے ہی بعض افراد کے ردعمل جمع کئے ہیں جن کے چند نمونے ذیل میں پیش کئے جارہے ہیں ۔

’’میں چیزوں کے داموں کے بارے میں کچھ بھی نہیں جانتی ۔ میں نے اس کام کے لئے ایک باورچی رکھ چھوڑا ہے ۔ اس باورچی نے میرے ہاں کام کرنے سے پہلے یہ شرط رکھی تھی کہ اس سے صرف کھانا پکانے کا کام لیا جائے گا تو وہ ماہانہ پانچ سو روپئے تنخواہ لے گا اور اگر بازار سے سودا سلف لانے کی ذمہ داری بھی اس کی ہوگی تو ماہانہ دو سو روپئے میں بھی کام کرنے کو تیار ہے ۔ ایسا ایماندار باورچی جو اتنی کم تنخواہ میں کھانا بھی پکائے اور بازار سے سودا سلف بھی لے آئے آج کے زمانہ میں کہاں ملتا ہے ۔ نتیجہ یہ ہے کہ میں صرف کھانا کھانے سے دلچسپی رکھتی ہوں اور چیزوں کے داموں کے چکر میں نہیں پھنستی‘‘ ۔
’’آپ چیزوں کے بڑھتے ہوئے داموں کے بارے میں مجھ سے پوچھ رہے ہیں ۔ میں جانتا ہوں کہ چیزوں کے دام ضرور بڑھ رہے ہیں لیکن ایک اچھی بات یہ ہے کہ جہاں چیزوں کے دام بڑھ رہے ہیں وہیں انسان کی قیمت دن بہ دن گھٹتی جارہی ہے ۔ جب تک انسان کی قیمت کم ہوتی رہے گی ۔ تب تک مجھے چیزوں کے داموں کے بڑھنے کی کوئی پرواہ نہیں ہے ۔ بھیّا میں تو ایک تاجر ہوں وہی چیز خریدتا ہوں جو سستی مل جاتی ہے ۔ چنانچہ میں چیزیں نہیں خریدتا ۔ سستے داموں میں بکنے والے انسانوں کو خرید لیتا ہوں چونکہ ٹھیکہ دار ہوں اس لئے اس عہدیدار کو ہی خرید لیتا ہوں جو مجھے ٹھیکے الاٹ کرتا رہتا ہے ۔ پھر اس ٹھیکے سے اتنا کمالیتا ہوں کہ مجھے چیزوں کے بڑھتے ہوئے داموں کی شکایت کرنے کا کوئی حق نہیں پہنچتا ۔ یہ بات یاد رکھئے کہ آپ کو کوئی انسان سستے داموں میں مل جائے تو پھر آپ دنیا کی کوئی بھی مہنگی چیز خرید سکتے ہیں ۔ جب تک اس ملک میں انسانوں کی قیمت گھٹتی رہے گی تب تک مجھے چیزوں کے داموں کے بڑھنے کی کوئی پرواہ نہیں ہے‘‘ ۔

’’اشیاء کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے بارے میں میری رائے جان کر آپ اپنا اور میرا دونوںکا وقت کیوں برباد کررہے ہیں ۔ بھیّا میں تو اپنے کاروبار کے سلسلہ میں زیادہ تر ملک سے باہر ہی رہتا ہوں اور وہاں فائیو اسٹار ہوٹلوں میں قیام کرتا ہوں ۔ مجھے تو یہ بھی نہیں معلوم کہ بیرونی ملکوں میں آلو ، پیاز ، گوبھی ، چاول وغیرہ کے کیا دام ہیں ۔ آپ نے یہ کیسے سوچ لیا کہ میں اپنے ملک میں ان چیزوں کے دام پوچھتا پھروں گا ۔ البتہ میں یہ ضرور جانتا ہوں کہ مختلف ملکوں کی فائیو اسٹار ہوٹلوں میں بیروں کو دی جانے والی ٹپ کی کیا شرحیں ہیں ۔ یوں بھی ٹپ کے معاملہ میں میرا اصول ہے کہ چائے چار ڈالر کی آئے تو چائے لانے والے بیرے کو پانچ ڈالر کی ٹپ دیتا ہوں ۔ جب تک داڑھی سے مونچھیں بڑی نظر نہ آئیں تب تک مجھے مزہ نہیں آتا‘‘ ۔

’’میں ایک سوشل ورکر ہوں ۔ دن بھر قوم کی خدمت میں مصروف رہتی ہوں ۔ صبح ایک کلب میں ہوتی ہوں تو شام کسی اور کلب میں گزارتی ہوں ۔ ابھی کسی جلسہ میں تقریر کررہی ہوتی ہوں تو ایک گھنٹہ بعد کسی آرٹسٹ کی تصویروں کی نمائش میں فیتہ کاٹ رہی ہوتی ہوں ۔ گویا میرے وقت کا ایک ایک لمحہ قوم کی خدمت کے لئے وقف ہوتا ہے ۔ مجھے تو بازار جانے کی فرصت ہی نہیں ملتی ۔ میں کیسے جان سکتی ہوں کہ پیاز کا کیا بھاؤ ہے ۔ ویسے آپ نے پیاز کا دام پوچھا ہے تو یہ بتایئے کہ پیاز پیڑ پر لگتی ہے یا اسے کسی کارخانہ میں بنایا جاتا ہے ۔ آپ یقین نہیں کریں گے ، ایک بار سری نگر میں سیب کا پیڑ دیکھا تو یہ جان کر دنگ رہ گئی کہ سیب درخت پر لگتے ہیں ۔ میں تو یہ سمجھتی تھی کہ سیبوں کا بھی کوئی کارخانہ ہوتا ہے ، تبھی تو یہ اتنے میٹھے ہوتے ہیں ۔ آپ جن چیزوں کے داموں کے بارے میں پوچھ رہے ہیں میں ان کے بارے میں یہ تک نہیں جانتی کہ یہ چیزیں کہاں سے آتی ہیں ، ان کے دام جان کر میں اپنا وقت کیوں برباد کروں جو قوم کی خدمت میں صرف ہوسکتا ہے‘‘ ۔ (ایک پرانی تحریر)