اشتہارات کی اجرائی میں بے قاعدگیاں، عدالتی نوٹسیں

نئی دہلی 31 اگسٹ (سیاست ڈاٹ کام) سپریم کورٹ نے مرکز، 6 ریاستوں کی حکومتوں اور بی جے پی سے جواز طلب کیا ہے جو ایک درخواست کے پیش نظر ہے۔ درخواست میں الزام عائد کیا گیا ہے کہ حکومت نے عوامی اشتہارات کی اجرائی میں سپریم کورٹ کی دی گئی ہدایات اور رہنمایانہ خطوط کی خلاف ورزی کی گئی ہے۔ مرکز اور بی جے پی کے علاوہ سپریم کورٹ نے دیگر 6 ریاستوں اترپردیش، مدھیہ پردیش، راجستھان، جھارکھنڈ، چھتیس گڑھ اور تلنگانہ کو نوٹس دی ہے۔ یہ درخواست عام آدمی پارٹی کے رکن اسمبلی دہلی نے داخل کی ہے۔ تلنگانہ کے ماسواء دیگر پانچ ریاستوں میں بی جے پی کی حکمرانی ہے۔ جسٹس رنجن گوگوئی کی قیادت میں ایک بنچ نے ان سے کہا ہے کہ وہ اپنا جواب 4 ہفتوں میں داخل کریں۔ دہلی کے براری اسمبلی حلقہ سے نمائندگی کرنے والے رکن اسمبلی سنجیو جھا نے یہ درخواست داخل کی ہے۔ درخواست گذار نے الزام عائد کیاکہ مرکز، بی جے پی اور اس کی حکمرانی والی ریاستوں نے عوامی تشہیر مواد کی اجرائی میں بے قاعدگیاں کی ہیں جبکہ سپریم کورٹ نے اشتہارات جاری کرنے کے لئے کچھ ضوابط و اُصول بنائے تھے۔ انھوں نے عدالت سے خواہش کی کہ وہ یہ ہدایت بھی دے کہ اس مسئلہ کا جائزہ لینے کے لئے ایک کمیٹی تشکیل دی جائے۔ مرکز سے یہ پوچھا جانا چاہئے کہ کیوں نہ ان خلاف ورزیوں کی پاداش میں اس کے خلاف کارروائی کی جائے۔ ان کے خلاف مناسب طریقہ سے قدم اُٹھایا جائے۔ 13 مئی 205 ء کو سپریم کورٹ نے عوامی اشتہارات کے مسئلہ پر ایک 3 رکنی کمیٹی تشکیل دیتے ہوئے مرکز کو ہدایت دی تھی کہ وہ اس کمیٹی کے ذریعہ اشتہارات کی جانچ پڑتال کروائے۔ عوامی تشہیر کے مسئلہ کو غیر جانبدارانہ نوعیت کے ہونے کا جائزہ بھی لیا جانا چاہئے۔ تاہم 18 مارچ 2016 ء کو سپریم کورٹ نے اپنے حکم میں ترمیم کی اور کہاکہ مرکزی وزرائ، چیف منسٹروں اور گورنروں اور ریاستی وزراء کی تصاویر سرکاری اشتہارات میں شائع کئے جاسکتے ہیں۔ یہ فیصلہ مرکز اور ریاستوں کی درخواستوں کے بعد سامنے آیا تھا۔ درخواست گذار ریاستوں میں مغربی بنگال اور ٹاملناڈو بھی شامل تھی جہاں انتخابات ہورہے ہیں۔ ان ریاستوں نے سپریم کورٹ کے فیصلہ پر نظرثانی کی خواہش کی تھی اور کہا تھا کہ اشتہارات میں قائدین کی تصاویر کی اشاعت کو یاد رکھا جائے۔
جبکہ صرف صدرجمہوریہ، وزیراعظم اور چیف جسٹس آف انڈیا کی تصاویر شائع کرنے کی اجازت دی جائے اور کہا تھا کہ اس سے بنیادی حقوق اور وفاقی ڈھانچہ پر آنچ آتی ہے۔این جی او کامن کاز کی پیروی کرتے ہوئے ایڈوکیٹ پرشانت بھوشن نے اصل مفاد عامہ کی درخواست داخل کی تھی۔