محمد مبشر الدین خرم
ڈونالڈ جان ٹرمپ نے 45ویں امریکی صدر کی حیثیت سے اپنے عہدے کا حلف لے لیا۔ امریکہ جسے دنیاکی قدیم ترین جمہوریت کہا جاتا ہے اس حلف برداری تقریب کے دوران جمہوریت کا جنازہ نکالا جاتا رہا اور واشنگٹن میں ٹرمپ کے خلاف مظاہرہ کرنے والے مظاہرین پر پولیس نے نہ صرف کالی مرچ کے اسپرے کرتے ہوئے انہیں منتشر کیا بلکہ انہیں پر امن مظاہرے سے روکنے کیلئے طاقت کا بھی استعمال کیا گیا۔ 45ویں امریکی صدر کی حیثیت سے حلف لینے کے بعد ڈونالڈ ٹرمپ نے جو تقریر کی اسے دیکھتے ہوئے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان کا نظریہ امریکی سلامتی و ترقی سے زیادہ امریکہ کے زوال اور عدم استحکام کا سبب بنے گا۔ انہوں نے اپنے خطاب کے دوران امریکی عوام سے ایسے وعدے کئے جیسے ہندستانی سیاستداں کیا کرتے ہیں۔دنیا کے قدیم ترین جمہوری ملک کے سربراہ کی تقریر دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے سربراہ کی تقریر سے کچھ مختلف نہیں رہی لیکن انہوں نے جب یہ کہا کہ”Buy American’Hire American”تو مجمع نے پرجوش انداز میں ان کا خیر مقدم کیالیکن شائد وہ بھی ہمارے حکمراں طبقہ کی طرح خوابوں کی دنیا میں زندگی گذارتے ہیں اسی لئے انہوں نے بار بار اپنی تقریر کے دوران عوام کو بڑے خواب دیکھنے کی تاکید کی اور سب سے اہم بات یہ کہ ڈونالڈ ٹرمپ نے اپنی تقریر میں کرۂ ارض سے ’اسلامی شدت پسند دہشت گردی‘ کے خاتمہ کا اعلان کیا ان کی جانب سے اسلامی دہشت گردی کے لفظ کا استعمال ان کی نفرت اور ذہنیت کی عکاسی کرتا ہے۔ 20جنوری 2017کو امریکہ کی تاریخ کا اہم دن قرار دیتے ہوئے کہا کہ ملک میں اقتدار عوام کے حوالے کرنے کی یہ تقریب ہے اور اب اقتدار صرف قصر ابیض تک محدود نہیں رہے گا بلکہ اقتدار عوام کے ہاتھوں میں ہوگا۔ جس وقت وہ یہ الفاظ کہہ رہے تھے اسی وقت چند میل کے فاصلہ پر جمہوریت کے محافظ پولیس اہلکار مظاہرین کو منتشر کرنے کیلئے تشدد کی ایک نئی داستاں رقم کررہے تھے۔
امریکہ کی تاریخ میں ڈونالڈ ٹرمپ پہلے ایسے صدر نہیں ہیں جنہوں نے اسلام اور مسلمانوں سے نفرت کا اظہار کیا لیکن دنیا موجودہ دور میں جن حالات سے گذر رہی ہے ایسے ماحول میں ٹرمپ کا اظہار نفرت اور اسلام کو دہشت گردی سے جوڑ نے کی کوشش امریکہ کے حق میں بہتر نہیں ہے بلکہ ان کا یہ کہنا ملک میں انتشار کی کیفیت پھیلانے کی کوشش کے مترادف ہے۔دہشت گردی کا کوئی مذہب نہیں ہوتا یا دہشت گرد کا انسانیت سے کوئی تعلق نہیں کا درس دینے والے امریکہ کے نئے صدر اسلامی دہشت گردی کے متعلق اپنی صدارت کی افتتاحی تقریب میں جب یہ کہیں تو وہ درحقیقت ان لوگوں کو دعوت دے رہے ہیں جو امریکہ کے دشمن تصور کئے جاتے ہیں۔ ڈونالڈ ٹرمپ کی صدارتی مہم کے دوران ان کے نفرت انگیز بیانات اور ان کی حرکات سے ہی ایسا محسوس ہونے لگا تھا کہ وہ ملک کے مستقبل سے کھلواڑ کے مرتکب ہو رہے ہیں لیکن وہ ایک سیاستداں سے زیادہ تاجر کی حیثیت سے دنیا کی تاریخ جانتے ہیں اور ان کے کاروبار دنیا کے مختلف ممالک میں پھیلے ہوئے ہیں تو انہیں اس بات کا اندازہ بخوبی ہو گا کہ دہشت گرد پیدا کون کر رہے ہیں؟ اگر وہ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ امریکہ اب کسی اور ملک کے معاملات میں مداخلت نہیں کرے گا یا کسی اور ملک کے قدرتی وسائل پر نظر بد نہیں ڈالے گا تو شائد وہ درست ہیں کہ ایسے اعمال سے دوری اختیار کرنے سے ردعمل ظاہر ہونا بند ہو جائے گا۔امریکہ کی دیگر ممالک میں مداخلت بیجا کے سبب ہی امریکہ ان لوگوں کے نشانہ پر پہنچتا ہے جن کا دعوی ہے کہ وہ حق پر ہیں اور مظلوم پر ہونے والے مظالم کا بدلہ لے رہے ہیں اور بسا اوقات تو امریکہ نے خود کو مظلوم ثابت کرنے کے لئے اپنے شہریوں کو نشانہ بنایا ہے۔
ڈونالڈ ٹرمپ کو اقتدار حوالے کرنے کی تقریب میں دنیا بھر میں دہشت مچاتے ہوئے بے قصوروں کے قتل کے مرتکب امریکی صدور بھی موجود تھے جو ان کی اس تقریر پر تالیاں بجارہے تھے۔ تقریب کیلئے کی گئی تیاریوں اور اس کے متعلق دی جانے والی اطلاعات کے لاکھوں لوگ اس تقریب میں شرکت کرنے والے ہیں غلط ثابت ہوئی کیونکہ کئی ٹی وی چیانلس پر مجمع کی صورتحال کا صاف مشاہدہ کروایا جا رہا تھا لیکن اس تقریب کے متعلق دنیا کے گوشہ گوشہ میں عوام متفکر تھے اور کروڑہا لوگوں نے ڈونالڈ ٹرمپ کی تقریر کا مشاہدہ کیا اور مختلف بین الاقوامی چیانل کی جانب سے اس پورے تماشے کو فیس بک لائیو کے ذریعہ بھی پیش کیا گیا لیکن صرف ’دی گارجین ‘ نے صحافتی دیانتداری کا ثبوت پیش کرتے ہوئے تقریب کے ساتھ ساتھ مظاہرین کے ساتھ پولیس کی جھڑپوں کو بھی پیش کیا جس میں گارجین کا ایک کیمرہ مین بھی زخمی ہوا۔امریکی دہشت گردی کی داستاں کوئی نئی نہیں ہے بلکہ ہر بار امریکہ نے دہشت گردی کو ہوا دینے کے اقدامات کے ذریعہ اپنے مفادات کی تکمیل کی ۔ عراق‘ کویت‘ شام‘ مصر‘ صومالیہ‘ سوڈان‘ لیبیا ‘ لبنان ‘ ایران کے علاوہ کئی ممالک کو اپنی حرص و ہوس کا نشانہ بنایا گیا۔ڈونالڈ ٹرمپ کے دور حکومت سے یہ توقع نہیں کی جاسکتی کہ وہ جنگ بندی کو ممکن بنائیں گے بلکہ ان کا خلاف روایت حلف برداری سے ایک یوم قبل یادگار شہیداں پر پہنچ کر امریکی افواج کو خراج پیش کرنا اس بات کا اشارہ دیتا ہے کہ وہ امریکی افواج میں نیا حوصلہ پیدا کرنا چاہتے ہیں۔
ٹرمپ قصر ابیض تک پہنچنے میں تو کامیاب ہو گئے ہیں لیکن اب انہیں اس بات کا اندازہ ہوگا کہ امریکی معیشت کو تباہ ہونے سے بچانے میں غیر امریکی شہریو ںکا کتنا اہم کردار ہے۔ انہوں نے "Buy American’ Hire American”کا نعرہ تو دے دیا لیکن انہیں شائد یہ نہیں معلوم کہ امریکہ میں موجود غیر ملکی طلبہ سے ہی امریکہ کو 32.8بلین ڈالر کی آمدنی ہے جو صرف امریکہ میں موجود طلبہ برادری خرچ کرتی ہے۔ امریکی ماہرین تعلیم کی تنظیم NAFSAکی رپورٹ کے مطابق امریکہ میں جملہ 10لاکھ43ہزار839غیر ملکی طلبہ تعلیم حاصل کررہے ہیں جس میں صرف 4لاکھ 812ایسے طلبہ ہیں جو ملازمت کا حق رکھتے ہوئے اس کا استعمال کر رہے ہیں لیکن جملہ طلبہ کی جانب سے امریکہ میں جو خرچ کیا جا رہا ہے وہ ایک خطیر رقم ہے۔ ٹرمپ کا "Buy American’ Hire American” کے نعرے سے دنیا کے دیگر ممالک جیسے ہندستان‘ چین‘ فلپائن‘ انڈونیشیاء وغیرہ کو کچھ نقصان ہو سکتا ہے اور کچھ نوجوانوں کی ملازمتیں خطرہ میں پڑ سکتی ہیں لیکن وہ سیلیکان ویلی میں اپنی صلاحیتوں کے جوہر منوانے والے ان ماہرین آئی ٹی کو کوئی گزند نہیں پہنچا پائیں گے کیونکہ ان کے بغیر امریکی آئی ٹی کمپنیوں کا مستقبل خطرے میں پڑ سکتا ہے تو وہ کمپنیاں انہیں چھوڑنے کے بجائے ملک چھوڑنے کے متعلق غور کرسکتی ہیںجو کہ امریکی معیشت کو تباہی کی دعوت دینا ہے۔ڈونالڈ جان ٹرمپ امریکی رئیل اسٹیٹ میں ایک کامیاب تاجر سمجھے جاتے ہیں لیکن ان کی حرکات سے ایسا نہیں لگتا کہ وہ تجارت کے میدان میں اپنی صلاحیتوں کی بناء پر کامیاب ہیںکیونکہ دولت مند کو اچھے مشیر دستیاب ہونا کوئی بڑی بات نہیں ہے۔
امریکہ میں تعلیم حاصل کر رہے بین الاقوامی طلبہ میں سب سے بڑی تعداد چینی طلبہ کی ہے جو کہ امریکہ میں تعلیم حاصل کررہے جملہ غیر ملکی طلبہ کا 31.5فیصد ہیں اور دوسری بڑی تعداد ہندستانی طلبہ کی ہے جو 15.9فیصد ہیں۔ امریکہ میں تعلیم حاصل کرنے والے جملہ طلبہ میں 1لاکھ 65ہزار 918ہندستانی طلبہ ہیں اور 3لاکھ 28ہزار 547چینی طلبہ ہیں۔ اسی طرح اوپن ڈورس کی 2016کی رپورٹ کے مطابق سعودی عرب سے تعلق رکھنے والے طلبہ کی تیسری بڑی تعداد ہے جو کہ مجموعی تعداد کا 5.9فیصد ہیں جن کی تعداد 61ہزار 287ہوتی ہے۔امریکہ میں چینی ساختہ اشیاء کی فروخت کے باضابطہ China Bazarہیں اگر Buy Americanپر عمل کیا گیا تو امریکہ کو چینی طلبہ سے ہاتھ دھونا پڑے گا اور اگرHire American پر عمل کرتے ہوئے سیلیکان ویلی میں خدمات انجام دے رہے آئی ٹی ماہرین کو سبکدوش کیا گیا تو ہندستانی طلبہ سے بھی محروم ہونا پڑے گا۔اسی طرح اگر اسلامی دہشت گردی کا تصور بھی برقرار رہا تو ممکن ہے تیسری بڑی طلبہ کی تعداد جو سعودی باشندوں کی ہے وہ بھی کنارہ کشی اختیار کرلے گی۔امریکی صدر ان حقائق کو جانتے ہوئے بھی ان اقدامات کے متعلق فیصلے کرتے ہیں تو وہ اپنے ملک کے عوام کے مفادات کے تحفظ کیلئے نہیں بلکہ اپنے ملک کے مفادات کو نقصان پہنچانے کیلئے کام کررہے ہیں۔
’امریکہ اب دوسروں کی سرحدوں کے بجائے اپنی زمین کی حفاظت کرے گا‘خدا کرے یہ حقیقت ہو اور دیگر ممالک میں موجود امریکی افواج ان کے اپنے ملک کو واپس ہو جائیں لیکن ایسا ہونے کے امکانات نہیں ہیں بلکہ ٹرمپ کا اشارہ میکسیکو کی سرحد پر تھا جسے وہ غیر محفوظ سمجھتے ہیں ۔اس کی بنیادی وجہ امریکی ریاستوں میں بڑھتی ہسپانوی آبادیاں ہیں ۔ امریکہ میں میکسیکو سے تعلق رکھنے والی آبادیوں کی کثرت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ امریکہ میں موجود موبائیل فون کمپنیاں ہسپانوی زبان سے واقف ٹیلی کالرس کو ملازمت فراہم کرنے پر مجبور ہیں اور جس طرح ہندستان کی علحدہ علحدہ ریاستوں میں علاقائی زبان میں ٹیلی کالرس رکھے جاتے ہیں اسی طرح امریکہ میں ہر ریاست میں ہسپانوی زبان بولنے والوں کی کثرت پائی جاتی ہے۔ میکسیکو کے شہریوں کے حقوق کیلئے جدوجہد کرنے والی تنظیموں کا ادعا ہے کہ میکسیکو کے غریب عوام کو امریکی سرحدی ریاست فنیکس (Pheonix)اور Tucsonشہر سے امریکہ میں مزدوری کیلئے طلب کیا جا تا ہے اور مزدوری کے بعد انہیں واپس کرنے کے بجائے بندھوا مزدور بنا لیا جاتا ہے جس کے سبب ان کی آبادیاں بڑھ رہی ہیںاور برسہا برس امریکہ میں بندھوا مزدوری کرنے کے بعد انہیں شہریت فراہم کرتے ہوئے ان کے ساتھ انصاف کیا جانا چاہئے۔ میکسیکو کی سرحد امریکہ میں منشیات کی منتقلی میں اہم کردار ادا کرتی ہے اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا لیکن اس عمل کو روکنا سرحدی محافظوں کی ذمہ داری ہے اور اس میں ان کی ناکامی پڑوسی سے تعلقات کو خراب کرتے ہوئے اس کی پردہ پوشی نہیں کی جانی چاہئے ۔
امریکی صدور کی یہودی نواز پالیسی سے ہر کوئی واقف ہے لیکن 45ویں صدر ان تمام سے آگے بڑھ کر یہودی نواز ثابت ہوں گے کیونکہ ان کے نظریات نہ صرف مخالف مسلم ہیں بلکہ وہ اس معاملہ میں ان تمام کو اپنا دوست بنانے تیار ہیں جو مسلم دشمنی میں ایک دوسرے پر سبقت لیجانے بے چین رہتے ہیں۔امریکی خارجہ پالیسی میں تبدیلی کے آثار نمایاں ہوتے جا رہے ہیں لیکن امریکی دوست ممالک کو توقع ہے کہ امریکی خارجہ پالیسی بالخصوص معاشی تعلقات پر کوئی اثر نہیں ہوگا بلکہ وہ مزید مستحکم ہوں گے لیکن جرمن‘ کناڈا‘ برطانیہ‘ فرانس کے علاوہ دیگر ممالک کو بھی 45ویں صدر امریکہ کے نظریات سے خطرہ محسوس ہونے لگا ہے اور وہ امریکہ سے اپنے تجارتی تعلقات کی دہائی دینے لگے ہیں ان حالات میںامریکی صدر سخت گیر فیصلوں کے ذریعہ Make In Indiaکی طرحBuy American کو فوقیت دیتے ہوئے اس پر عمل کروانے کی کوشش کرتے ہیں تو ان کا یہ خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوگا کیونکہ اپنے دیش میں’ سودیشی‘ کی بات کرنے والے کئی سربراہان مملکت کو ’ودیشی‘ اشیاء کا استعمال کرتے ہوئے دیکھا گیا ہے اور جہاں تک بیرونی شہریوں کے انخلاء کی بات ہے تو خاتون اول کے متعلق امریکی شہری ابھی تک جواب طلب کر رہے ہیںجس کا جواب صدر کے پاس شائد نہیں ہے جنہیں 2006میں امریکی شہریت حاصل ہوئی۔