اس نفرت کی سیاست سے ملک کو شدید نقصان پہنچے گا

مجید صدیقی

بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے بعد سے سنگھ پریوار کے قائدین روز نئے شوشے اور روز نئی دل آزار حرکتوں سے ملک کی اقلیتوں خصوصاً مسلمانوں میں خوف و ہراس کی فضا پیدا کرہے ہیں لیکن نریندر مودی حکومت ان کے خلاف کوئی کارروائی کرنے سے گریز کررہی ہے ۔
حال ہی میں منگلور میں مدھیہ پردیش سے تعلق رکھنے والی وی ایچ پی لیڈر سادھوی بالیکا سرسوتی نے یکم مارچ کو اپنی اشتعال انگیز تقریر میں کہا کہ ’’وہ لوگ جو ہندوستان میں رہتے اور کھاتے ہیں اور پاکستان کی تعریف کرتے ہیں انھیں جوتوں سے مار کر پاکستان بھیج دینا چاہئے‘‘ ۔ حالانکہ دیکھا جائے تو سنگھ پریوار کے بیشتر قائدین پاکستان کی تعریف کے راگ الاپتے رہتے ہیں جیسے ایل کے اڈوانی نے پاکستان کے دورہ کے موقع پر جناح اور پاکستان کی تعریف کی تھی ۔ مودی نے اپنی تقریب حلف برداری کے موقع پر وزیراعظم پاکستان نواز شریف کو نئی دہلی مدعو کیا تھا ۔ جسونت سنگھ سابق وزیر خارجہ نے بھی پاکستان کا دورہ کرکے ایک کتاب لکھی تھی جس میں انھوں نے وہاں کے حالات درج کئے تھے اور وہاں کی حکومت کی تعریف کی تھی ۔

ہندوستانی مسلمانوں نے تقسیم ہند اور دوران آزادی اپنی غیر متزلزل مرضی ظاہر کی تھی کہ وہ ہندوستان میں ہی پیدا ہوئے ہیں اور ہندوستان ہی میں رہیں گے اور انکی ساری وفاداریاں مادر وطن ہندوستان کے لئے ہوں گی ۔ اس کے علاوہ جب بھی ضرورت پڑی چاہے وہ بیرونی سرحد پار حملے ہوں جیسے پاکستان سے دو مرتبہ جنگ ، چین سے ایک وقت جنگ میں مسلمانوں نے اپنے ہندو بھائیوں کے شانہ بشانہ ملک کی حفاظت کی خاطر اپنی جانیں قربان کی ہیں یا پھر اندرون ملک سیلاب ، طوفان ، ہنگامی حالات یا پھر کوئی آفات سماوی ہو مسلمانان ہند کبھی بھی کسی سے بھی پیچھے نہیں رہے جس کی ہزاروں مثالیں ہیں ۔ پاکستان سے 1971 کی جنگ میں حوالدار عبدالحمید نے جس بے جگری سے لڑ کر پاکستانیوں کے کئی پیشن ٹینک تباہ کئے اور آخر میں خود بھی اپنی جان مادر وطن کے لئے نچھاور کردی ۔ اس طرح کی بیسیوں مثالیں ہمارے سامنے ہیں ۔ ابھی 2014 میں ہمارے شہر حیدرآباد کے پرانے شہر سے نوجوان فوجی فیروز خان نے ملک کی خاطر سرحد پر جام شہادت نوش کیا ہے جو کہ ہند پاک سرحد پر سرحدی فائرنگ کے نتیجہ میں کام میں آگئے تھے ۔ ویسے ہمیں مسلمانوں کی وفاداری اور وطن پرستی کا کسی سے سرٹیفیکٹ لینے کی ضرورت نہیں ہے ، لیکن اس موقع پر ہم نے دو ایک مثالیں پیش کی ہیں ۔خود ہمارے وزیراعظم نریندر مودی نے اپنے ایک انٹرویو میں امریکہ کے دورہ پر جانے سے قبل کہا تھا کہ ہندوستان کا مسلمان کہیں نہیں جائے گا اور نہ کسی دہشت پسند تحریک میں شریک ہوگا ، وہ یہیں پیدا ہوا ہے اور یہاں مرے گا‘‘ ۔ یہ بات انھوں نے تب کہی جب ان سے پوچھا گیا تھا کہ کیا ہندوستان کے مسلمان داعش یا آئی ایس آئی ایس جیسی تنظیم میں شریک ہوں گے ۔ایک موقع پر صدر جمہوریہ ہند جناب پرنب مکرجی نے کہا تھا کہ ’’بھارت کے مسلمانوں کی ملک سے وفاداری شکوک سے بالاتر ہے اور کوئی بھی ان کی وطن پرستی پر انگلی نہیں اٹھاسکتا۔

وزیراعظم نریندر مودی کا رویہ یہاں سمجھ سے بالاتر نظر آتا ہے ۔ ان تخریب پسند سرگرمیوں اور زہریلی تقاریر کے بیچ ایک طویل خاموشی کے بعد مودی نے ایک عیسائی اجتماع میں دہلی میں کہا کہ ’’میری حکومت کسی بھی تشدد اور مذہبی عدم رواداری کو برداشت نہیں کرے گی‘‘ ۔ انھوں نے مزید کہا کہ ’’کسی بھی مذہبی گروہ یا کسی بھی شخص کو انتشار یا پھوٹ ڈالنے کی اجازت نہیں دی جائے گی اور کسی بھی طبقہ کو تبدیلی مذہب یا گھر واپسی کے نام پر زبردستی مذہب تبدیل کروانے کی اجازت نہیں ہوگی ۔ اگر کوئی شخص یا گروپ فرقہ وارانہ گڑبڑ پیدا کرتا ہوا پایا گیا تو اس کے خلاف قانونی کارروائی بھی کی جائے گی‘‘ ۔
دوسری طرف دہلی انتخابات میں اپنی پوری قوت صرف کردینے ، سارے حربے استعمال کرلینے کے باوجود ایک سخت ہزیمت آمیز شکست نے بی جے پی کے تمام قائدین بشمول وزیراعظم کے ہوش ٹھکانے لگادئے تھے ۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مودی کو پارلیمنٹ میں اس طرح کا بیان دینا پڑا ۔

جو نفرت کی سیاست گجرات سے 2002 کے فسادات کے بعد شروع ہوئی تھی اس کی لہر میں دہلی سے جو لہر اٹھی ہے وہ آہستہ آہستہ پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے رہی ہے ۔ اس نفرت کی سیاست کا سب سے پہلا نشانہ مہاراشٹرا ہے جہاں بی جے پی کے ساتھ اس کی اتحادی شیوسینا کی حکومت ہے جیسے ’’کریلا اور نیم چڑھا‘‘ والی بات ہے ۔ گو کہ یہاں پچھلے 15 سال تک کانگریس اور این سی پی کی حکومت تھی لیکن اب یہ دونوں جماعتیں اپوزیشن میں ہیں اس کی وجہ ہے ان دونوں سیاسی جماعتوں میں نااتفاقی اور غلط فہمیاں اور اتحاد کا فقدان ہے ۔

مہاراشٹرا کی فرنویس حکومت بھی ایک فاسشٹ حکومت کے روپ میں چل رہی ہے جہاں مراٹھوں کو 16% تحفظات دیئے گئے ہیں وہاں مسلمانوں کو تحفظات سے انکار کیا جارہا ہے ۔ پچھلی یو پی اے اور این سی پی سرکار نے مراٹھوں کے ساتھ مسلمانوں کو 5 فیصد تحفظات ملازمتوں میں اور تعلیمی اداروں میں دیئے تھے لیکن سپریم کورٹ نے ان تحفظات کو از سر نو غورکرنے کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کو صرف تعلیم میں 5 فیصد تحفظات برقرار رکھنے کا حکم دیا تھا لیکن حکومت مہاراشٹرا نے نئے قانون کے ذریعہ مراٹھوں کے تحفظات تو برقرار رکھے اور مسلمانوں کیلئے تعلیم کے سلسلہ میں وہ 5 فیصد تحفظات بھی ختم کردئے جو حکومت کے تعصب اور تنگ نظری کی دلالت کرتے ہیں ۔
دوسرا مسئلہ مہاراشٹرا سے شروع ہوا ہے وہ ہے ذبیحہ گاؤ پر امتناع عائد کرنے کا ۔ اس بل کو 19 سال پہلے شیوسینا ۔ بی جے پی حکومت نے صدر جمہوریہ کو روانہ کیا تھا جو 1995 کا بل تھا اس پر اب دستخط ہوئے ہیں اور اس کا نفاذ پورے مہاراشٹرا میں کیا جارہا ہے جسکے نتیجہ میں 3415 قانونی مسالخ اور دکانیں فوری بند کردی گئی ہیں جس سے تقریباً کئی لاکھ افراد روزگار سے جڑے ہوئے تھے وہ بیروزگار ہوگئے ہیں جن کی بازآبادکاری کے لئے کوئی متبادل نہیں ڈھونڈا گیا ہے ۔ ذبیحہ گاؤ کا مسئلہ مذہبی سے زیادہ معاشی مسئلہ ہے جسے مذہبی رنگ دے دیا گیا ہے ۔ ساری دنیا میں بڑے گوشت کی برآمدات میں ہندوستان کا نمبر دوسرا ہے ۔ گذشتہ سال ہندوستان سے 4.3 بلین ڈالر کا گوشت برآمد کیا گیا تھا اور اس سال 200 بلین ڈالر کے اضافے کی توقع کی گئی تھی ۔ ہندوستان سے دنیا کے 65 ملکوں کو گوشت سربراہ کیا جات ہے ۔ دنیا بھر میں ہندوستانی گوشت کے معیار کو پسند کیا جاتا ہے ۔ اب تک زیادہ تر بھینس کا گوشت استعمال کیا جاتا رہا ہے جسے گائے کا گوشت بتلایا جاتا ہے اور زیادہ تر بھینس ہی ذبح کی جاتی ہیں ۔ اس کاروبار میں مسلمان صرف ایک فیصد ہیں باقی دوسرے بڑے طبقہ کے بیوپاری غیر مسلم ہیں ۔ ہر سال 1.53 ملین ٹن گوشت حاصل کیا جاتا ہے ۔

اس صنعت سے 80 فیصد غیر مسلم افراد جڑے ہیں جو اس پابندی سے روزگار اور مالی مسائل سے دوچار ہوجائینگے اور اس سے جڑی صنعتوں سے لاکھوں افراد بھی بیروزگار ہوجائیں گے اور ایک کثیر زرمبادلہ سے بھی ملک کو ہاتھ دھونا پڑے گا ۔ اس سے جڑی صنعتیں ہیں ، چمڑے کی صنعت ، ہڈیوں کی صنعت اور آنتوں و لیور کی صنعت دواؤں کے لئے ۔ بڑا گوشت سستا ہونے کی وجہ سے یہ غریبوں اور دلتوں کی پروٹین آمیز غذا ہے ۔ آج بھی گوا اور کیرالا میں گھر واپسی کے نام سے وی ایچ پی اپنا ایجنڈہ جاری رکھے ہوئے ہے ۔ آج بھی سادھوی پراچی جس نے اس سے قبل چار بچے پیدا کرنے کی ہندو عورتوں کو صلاح دی تھی اب کی بار حال ہی میں بکواس کررہی ہے کہ ’’ہندو نوجوان تینوں خانس عامر خان ، شاہ رخ خان اور سلمان خان کی فلموں کا بائیکاٹ کریں اور ان کی فلموں کے پوسٹرس پھاڑدیں یا جلادیں کیونکہ ان کی فلمیں دیکھنے کے بعد آج کل کے بچے تشدد اور مار دھاڑ کا تاثر لے رہے ہیں ۔ یہاں یہ بات یاد دلانا ہم ضروری سمجھتے ہیں کہ آج کل کی فلمیں نہ صرف تینوں خانس کی بلکہ انیل دھون ، ریتک روشن ، ابھیشک بچن اور جان ابراہم اور امیتابھ بچن سب کی فلمیں صرف مار دھاڑ ایکشن اور خون خرابے سے بھری پڑی ہیں ۔ نیز آجکل کی فلموں کا رجحان ہی کچھاس قسم کا ہوچلا ہے۔ دوسری بات فلم انڈسٹری جو پہلے ہی سے ایک خطرناک معاشی دوراہے پر کھڑی ہے وہاں ان تینوں خانوں کی فلموں کی وجہ سے کچھ رونق باقی ہے اور اسی وجہ سے ڈائرکٹر، پروڈیوسر ، میوزک ڈائرکٹر سے لیکر عام ورکر تک کا روزگار اس صنعت سے جڑا ہے اور ان تینوں کی فلموں سے ہندوستانی فلموں کی ساکھ باقی ہے اور انڈسٹری زندہ ہے اور کئی لاکھ لوگ اس پر پل رہے ہیں ۔
ہمارے سادھوؤں اور سادھویوں کے لئے پرخلوص مشورہ ہے کہ وہ پہلے اپنی زبان درست کرلیں ورنہ بقول غالب ’’میں بھی منہ میں زبان رکھتا ہوں‘‘ والی بات ہر کوئی کہہ سکتا ہے ۔ دوسرے وہ اپنے گیان مان پوجا پاٹھ میں اپنا زیادہ وقت بتائیں نہ کہ دنیا کے بکھیڑوں میں دخل درمعقولات کریں ۔ یہ کام دوسرے انکے بھائیوں سیاستدانوں کے لئے چھوڑ دیں تو بہتر ہوگا ۔ اب سنگھ پریوار کے قائدین ہندوتوا کے راگ کے ساتھ ساتھ یکساں سیول کوڈ نافذ کرنے کی بات کررہے ہیں اور عدالتیں بھی اس جانب مائل نظر آرہی ہیں ۔ صدر آر ایس ایس موہن بھاگوت نے مدر ٹریسا کو بھی نہیں بخشا جنھیں ہندوستان میں ضرورت مندوں اور بیماروں کی خدمت کرنے پر بھارت رتن ایوارڈ دیا گیا تھا ، ان کے بارے میں کہا ہے کہ ’’وہ خدمت کے جذبے سے غریبوں اور بیماریوں کی مدد نہیں کیا کرتی تھیں بلکہ اس کے پیچھے انکا مقصد غریب دلتوں اور کمزور طبقوں کا مذہب تبدیل کرنا تھا ۔ اس بیان کی تائید سادھوی پراچی بھی کرچکی ہیں ۔
وزیراعظم کے بیانات جو انھوں نے ایک چرچ میں دیئے تھے اور دوسرے موقع پر پارلیمنٹ میں یہ سب باتیں سننے میں تو بہت پراثر اور ایک سیکولر وزیراعظم کی آواز معلوم ہوتی ہیں لیکن ان پر ابھی تک کوئی عمل ندارد ہے جس سے مودی کے قول و فعل میں تضاد ظاہر ہوتا ہے ۔ اب بھی سادھو ، سادھوی ، ایم پی اپنی زبانوں سے وہی فرقہ پرستی کا زہر اگل رہے ہیں جس سے ملک کی فضا مسموم ہورہی ہے لیکن مودی کے یہ بیانات صرف زبانی جمع خرچ کے سوا کچھ نہیں لگتے کیونکہ ملک کے حالات روز بہ روز مائل بہ انحطاط نظر آتے ہیں ۔ سنگھ پریوار کے قائدین مودی کے بیانات کو بالائے طاق رکھ کر پھر وہی اپنی پرانی روش پر قائم ہیں ۔

ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ مودی ان نفرت انگیز بیانات دینے والوں پر لگام کستے اور انکے خلاف قانونی چارہ جوئی کرتے لیکن اب تک مودی نے ان فرقہ پرستوں کے خلاف کوئی بھی اقدام نہیں کیا ہے ۔ ان کے یہ بیانات ساری دنیا کو سمجھانے کے لئے ہے بلکہ خصوصاً صدر امریکہ بارک اوباما کو بتانے کے لئے ہیں ۔
مودی کے ان بیانات کے بعد بھی سادھوی بالیکا سرسوتی کا بیان اور پھر سادھوی پراچی کا تینوں خانس کے بارے میں بیان آرہے ہیں ۔ اب بھی تبدیلی مذہب کے بارے میں وشوا ہندو پریشد قائدین اپنی کارروائی پر نادم نہیں ہیں بلکہ فخر کررہے ہیں ۔
مودی جن اصولوں پر اقتدار پر فائز ہوئے ہیں جیسے ’’سب کا ساتھ سب کا وکاس‘‘ ’’ہم سب کو ساتھ لے کر چلیں گے‘‘’’ملک میں صاف شفاف حکومت اور بدعنوانیوں کا خاتمہ کیا جائے گا‘‘ ’’کالا دھن 100 دن میں باہر سے واپس لایا جائے گا‘‘ ’’ہر ایک کے اچھے دن آنے والے ہیں‘‘ یہ سب باتیں مودی بھول چکے ہیں ۔ اقتدار حاصل کرنے کے بعد انھوں نے سنگھ پریوار کے قائدین کو کھلی چھوٹ دے رکھی ہے ۔ لیکن انھیں جان لینا چاہئے کہ اس نفرت کی سیاست سے ملک کو شدید نقصان پہنچے گا ۔ خود تو سنگھ پریوار کے قائدین اپنی زہریلی تقاریر سے نفرت کا پرچار کرتے ہیں اور اگر کوئی مسلمانوں کی تائید میں کچھ کہتا ہے تو اسے ’’ہیٹ اسپیچ‘‘ کہہ کر برا بھلا کہتے ہیں ۔ یہاں یہ بات کہنا مناسب ہوگا کہ
ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہوجاتے ہیں بدنام
وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا