اس ملک میں قاتل کو بچانے کا چلن ہے

ووٹ حاصل کرنے کیلئے سیاسی جماعتیں کسی بھی حد تک جاسکتی ہیں اور موقع کی نزاکت کے لحاظ سے موقف بھی تبدیل ہوجاتا ہے ۔ اب تو وقت کے ساتھ ساتھ انتخابی مہم کے انداز بھی بدل چکے ہیں۔ دہلی ، راجستھان اور مدھیہ پردیش میں کانٹے کی ٹکر نے کانگریس اور بی جے پی کو ہلاکر رکھ دیا ہے ۔ رائے دہندوں کی تائید کیلئے دونوں پارٹیاں ہر طریقے کے حربے استعمال کر رہی ہیں۔ سیکولرازم کے نام پر ووٹ حاصل کرنے کا دعویٰ کرنے والی کانگریس پارٹی کے قدم بھی ڈگمگانے لگے ہیں۔ بی جے پی نے ابتداء میں نریندر مودی کے چہرے کو صاف ستھرا اور بے داغ دکھانے کی کوشش کی لیکن رائے دہی کی تاریخ قریب آتے ہی مودی بھرپور طریقے سے ہندوتوا کے رنگ میں واپس ہوچکے ہیں۔ اب دونوں جماعتوں کی مہم صرف انتخابات والی ریاستوں تک محدود نہیں رہی بلکہ دوسری ریاستوں سے بھی مہم چلائی جارہی ہے۔ دونوں جماعتوں نے انتخابی ضابطہ اخلاق سے بچنے کیلئے مہم کے نئے انداز اختیار کئے ہیں۔ بی جے پی نے ہندوؤں کے ووٹ حاصل کرنے اترپردیش کے مظفر نگر فسادات کے ملزم ارکان اسمبلی کو آگرہ کی ریالی میں تہنیت پیش کی۔ نریندر مودی کی ریالی میں فسادات کے ذمہ دار ارکان اسمبلی کو تہنیت پیش کرتے ہوئے بی جے پی نے دراصل یہ پیام دیا ہے کہ وہ ملک میں نفرت اور فرقہ وارانہ سیاست پر ابھی بھی کاربند ہے۔ دوسری طرف سماج وادی پارٹی نے بھی اسی دن بریلی میں منعقدہ پارٹی ریالی میں فسادات کے الزامات کا سامنا کرنے والے مسلم رہنما مولانا توقیر رضا کو تہنیت پیش کی۔ ایک ہی دن اترپردیش کے دو علاقوں میں دو جماعتوں کی جانب سے فسادات کے ملزمین کو تہنیت پیش کرنا مذہبی سیاست کا کھیل نہیں تو اور کیا ہے۔ بی جے پی کے جواب میں سماج وادی پارٹی نے شاید مسلمانوں کو خوش کرنے کیلئے مولانا توقیر رضا کو اپنے اسٹیج پر تہنیت پیش کی۔ اس طرح بی جے پی ہندو ووٹ بینک اور سماج وادی پارٹی مسلم ووٹ بینک کی سیاست کر رہی ہے۔ اس صورتحال میں کانگریس پارٹی کس طرح خاموش رہ سکتی تھی۔ اس نے پنڈت جواہر لال نہرو اور اندرا گاندھی کے یوم پیدائش کو بھی انتخابی مہم کیلئے استعمال کیا ہے۔ جب اس پر بھی اطمینان نہیں ہوا تو ماسٹر بلاسٹر سچن تنڈولکر کو بھارت رتن کا اعزاز دیتے ہوئے ان کی مقبولیت سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی۔ دلچسپ بات تو یہ ہے کہ سچن تنڈولکر راجیہ سبھا میں یو پی اے حکومت کے نامزد کردہ رکن ہیں اور اپنے ہی نامزد کردہ رکن کو حکومت نے بھارت رتن کے لئے منتخب کرلیا ۔ سابق میں بھی سچن تنڈولکر کا نام اس اعزاز کیلئے پیش کیا گیا تھا لیکن وزارت داخلہ نے یہ کہتے ہوئے اس تجویز کو مسترد کردیا کہ بھارت رتن ایوارڈ کیلئے کھیل کے زمرہ کو شامل نہیں کیا جاسکتا۔ انتخابی فائدہ کیلئے کانگریس نے نہ صرف کھیل کو بھارت رتن کے زمرہ میں شامل کیا بلکہ انتخابی مہم کے دوران ہی اعزاز کا اعلان کردیا گیا۔ یو پی اے حکومت نے اسی طرح اکتفا نہیں کیا بلکہ مرکزی وزیر داخلہ سشیل کمار شنڈے نے ریاستوں کے پولیس سربراہوں کا اجلاس طلب کر کے دہشت گردی کے واقعات کیلئے انڈین مجاہدین کو ذمہ دار قرار دیا۔ وزیر داخلہ کا یہ بیان اکثریتی طبقہ کے ووٹس کو کانگریس کی طرف موڑنے کی ایک کوشش سمجھا جارہا ہے۔ سیاسی مبصرین نے بھی انتخابی مہم کے دوران وزیر داخلہ کے دیئے گئے اس بیان کو درپردہ انتخابی مہم سے تعبیر کیا ۔ آگرہ میں نریندر مودی کی ریالی میں مظفر نگر فسادات کے ملزمین بی جے پی ارکان اسمبلی سریش رانا اور سنگیت سوم کو آخر کس کارنامہ پر تہنیت پیش کی گئی؟ ان دونوں کو ہندوؤں کے مسیحا اور قابل فخر قائدین قرار دیتے ہوئے پوسٹرس لگائے گئے تھے۔ ظاہر ہے کہ ایک ہی فطرت کے حامل افراد آسانی سے گھل مل جاتے ہیں۔ گجرات فسادات کے ماسٹر مائینڈ نریندر مودی اور مظفر نگر فسادات کے ماسٹر مائینڈ ایک ہی اسٹیج پر تھے۔ ملزمین کی تہنیت کے ذریعہ آخر بی جے پی اترپردیش کے عوام کو کیا پیام دینا چاہتی ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ اترپردیش میں بھی گجرات کے تجربہ کو دہرانے کی تیاری کی جارہی ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ پارٹی نے گجرات فسادات میں اہم رول ادا کرنے والے امیت شاہ کو اترپردیش میں پارٹی کا انچارج مقرر کیا ہے۔ کسی بھی تنازعہ سے بچنے کیلئے ارکان اسمبلی کی تہنیت کے موقع پر نریندر مودی اور راج ناتھ سنگھ اسٹیج پر موجود نہیں تھے۔ اس ریالی میں مودی نے اگرچہ مظفر نگر فسادات کا حوالہ نہیں دیا ، تاہم ہندو ووٹ کی سیاست کرتے ہوئے کانگریس پر 25 فیصد اقلیتوں کی دلجوئی اور 75 فیصد ہندوؤں کو ناراض کرنے کا الزام عائد کیا ۔ یہی نریندر مودی نے بہار کی ریالی میں ہندو، مسلم اتحاد کی بات کہی اور گجرات میں مسلمانوں کی ترقی کے دعوے کئے تھے۔ اترپردیش میں اپنے قدم جمانے کیلئے بی جے پی کے ناپاک منصوبوں کا بتدریج انکشاف ہورہا ہے۔ کسی بھی ریاست میں انتخابات کے دوران الیکشن کمیشن کو دیگر ریاستوں میں بھی کچھ نہ کچھ ضابطہ اخلاق نافذ کرنا چاہئے کیونکہ دوسری ریاستوں سے بھی رائے دہندوں پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی جا سکتی ہے۔ الیکشن کمیشن نے خونی پنجہ سے متعلق مودی کی وضاحت کو خارج کرتے ہوئے انہیں آئندہ احتیاط کی ہدایت دی ہے۔ اس سے قبل مظفر نگر کے متاثرین کے آئی ایس آئی کے روابط کے بارے میں راہول گاندھی کے بیان پر بھی کمیشن نے ناراضگی کا ا ظہار کیا تھا ۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ الیکشن کمیشن اگر جواب سے مطمئن نہ ہو تو وہ وارننگ کے بجائے کارروائی کرے۔ صرف وارننگ دینے سے قائدین پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ دہلی ، راجستھان اور مدھیہ پردیش کے بارے میں الیکٹرانک میڈیا نے بی جے پی کے حق میں اوپنین پول کے نتائج پیش کرنے شروع کردیئے ہیں۔ نریندر مودی کو صرف اسی لئے وزارت عظمی کا امیدوار بنایا گیا کیونکہ وہ ہندوتوا کا چہرہ ہیں۔ انہیں قابلیت اور اہلیت کی بنیاد پر نہیں بلکہ گجرات ماڈل کے اسکرپٹ رائٹر کی صورت میں آگے کردیا گیا۔ جہاں تک مودی کی قابلیت کا سوال ہے ، اس کا مظاہرہ تو ان کی تقاریر سے خود ہورہا ہے۔ ہندوستان کی تاریخ تو چھوڑیئے ، جو شخص بابائے قوم گاندھی جی کے نام سے واقف نہ ہو ، وہ بھی وزارت عظمی کا خواب دیکھ رہا ہے۔ یہ ملک کی بدقسمتی نہیں تو کیا ہے کہ گاندھی کے گجرات سے گہرے تعلق کے باوجود مودی ان کا صحیح نام ادا نہیں کرسکے جبکہ پرائمری سیکشن کا ایک طالب علم بھی گاندھی جی کا پورا نام جانتا ہے۔
ایسے وقت جبکہ تین اہم ریاستوں میں انتخابی مہم عروج پر ہیں۔ مرکز نے تمام ریاستوں کے سربراہان پولیس کا اجلاس طلب کیا اور ملک کی داخلی سلامتی کو خطرہ کیلئے انڈین مجاہدین کو ذمہ دار قرار دیا۔ وزیر داخلہ سشیل کمار شنڈے اور انٹلیجنس بیورو کے سربراہ آصف ابراہیم نے ملک میں انڈین مجاہدین کی بڑھتی سرگرمیوں پر تشویش کا اظہار کیا ۔ اس اجلاس کا اہم موضوع انڈین مجاہدین تھا۔ وزیر داخلہ نے کہا کہ جاریہ سال پیش آئے چار دہشت گردانہ حملوں میں تین انڈین مجاہدین نے انجام دی ہیں جن میں حیدرآباد دلسکھ نگر ، بودھ گیا اور پٹنہ کے دھماکے شامل ہیں جبکہ بنگلور میں دھماکے کیلئے الامہ تنظیم ذمہ دار ہے۔ جب سے دہشت گرد سرگرمیوں کے سلسلہ میں انڈین مجاہدین کا نام منظر عام پر آیا ہے تب سے ہی یہ تنظیم ایک معمہ بن چکی ہے ۔ وزیر داخلہ اور آئی بی کے سربراہ عوام کو بتائیں کہ اس تنظیم کا آفس کہاں ہے اور اس کے عہدیدار کون ہیں؟ ملک کے کسی حصے میں مسلم نوجوانوں کی گرفتاری کے ساتھ ہی ان پر انڈین مجاہدین کا لیبل لگادیا جاتا ہے۔ بعض سرکردہ مسلم قائدین نے خود بھی اس تنظیم کے وجود پر سوال کھڑے کئے ہیں۔ کولکتہ سے تعلق رکھنے والے رکن راجیہ سبھا احمد سعید ملیح آبادی نے انڈین مجاہدین کا دفتر بتانے پر انعام کا پیشکش کیا ۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ تنظیم محض سیکوریٹی ایجنسیوں کی اختراع ہے۔ کوئی بھی شخص خود کو انڈین کہتے ہوئے ملک کے خلاف قدم نہیں اٹھاسکتا۔ ظاہر ہے کہ تنظیم کے نام کے ساتھ ہی مسلمانوں کی تصویر ذہن میں ابھرتی ہے۔ حکومت کو اس تنظیم کے وجود کے بارے میں عوام کو اعتماد میں لینا پڑ ے گا۔ کسی کو بھی تنظیم سے وابستہ کردینا انصاف کے تقاضوں کے خلاف ہے۔ اہم سوال تو یہ ہے کہ جب حکومت اور انٹلیجنس ایجنسیاں اس تنظیم کے بارے میں اتنا کچھ جانتی ہیں تو پھر ان کی کارروائیوں کو روکنے میں ناکام کیوں ہیں؟ پولیس ، انٹلیجنس اور سیکوریٹی ایجنسیاں اس تنظیم کے آگے بے بس کیوں ؟ حکومت کی ناکامی کے سبب یہی سمجھا جائے گا کہ مسلمانوں کو نشانہ بنانے ایک فرضی نام کا سہارا لیا گیا ۔ جب ملک کے وزیر داخلہ خود اس طرح کا بیان دیں تو اکثریتی طبقہ میں مسلمانوں کے بارے میں منفی تاثر ضرور پیدا ہوگا۔ وزیر داخلہ اس طرح کے بیانات کے ذریعہ پولیس عہدیداروں اور نچلے کیڈر تک مسلمانوں کے بارے میں کیا رائے قا ئم کرنا چاہتے ہیں۔ حیرت تو اس بات پر ہے کہ وزیر دا خلہ نے انڈین مجاہدین اور ماوسٹوں کا تو ذکر کیا لیکن زعفرانی دہشت گردی کے بارے میں لب کشائی نہیں کی ۔ کیا وہ بھول گئے کہ مکہ مسجد ، اجمیر شریف اور مالیگاؤں بم دھماکوں میں زعفرانی تنظیموں کا ملوث ہونا ثابت ہوچکا ہے ۔ ان واقعات میں پہلے مسلم نوجوانوں کو گرفتار کیا گیا، بعد میں وہ بے قصور ثابت ہوئے۔ ابھینو بھارت اور دیگر تنظیموں کے نام منظر عام پر آئے ۔ کرنل پروہت ، سوامی اسیما نند اور سادھوی پرگیہ سنگھ ٹھاکر کون ہیں؟ کیا ان کا تعلق بھی انڈین مجاہدین سے ہے۔ اس کا حکومت کے پاس کیا جواب ہے۔ ملک کے وزیر داخلہ کی حیثیت سے پی چدمبرم نے زعفرانی دہشت گردی کے وجود کا اعتراف کیا تھا لیکن اب شنڈے نے تذکرہ سے بھی گریز کیا ہے۔ ووٹ اور سیٹ حاصل کرنے کیلئے سیاسی جماعتوں کی مذہبی سیاست پر شاعر نے کیا خوب کہا ہے ؎
مقتول بھی دے آکے گواہی تو ہے بے سود
اس ملک میں قاتل کو بچانے کا چلن ہے