اس فتح میں چھپا ہے تیری شکست کا راز۔ میم افضل

کانگریس کے نو منتخبہ صدر راہول گاندھی اپنی اگنی پریکشا سے کندن بن کر نکلے ہیں
گجرات میں بی جے پی ہار تے ہارتے جیب گئی ‘ مگر اہم بات یہ ہے کہ چند فیصد لوگوں کو چھوڑ دیں تو ملک کا کوئی بھی شہری بی جے پی کی اس فتح کو دل سے قبول نہیں کرپارہاہے۔ووٹوں کی گنتی کے روز جو کچھ ہوا وہ یقیناًبڑا عجیب تھا۔

وہ کانگریس میں ایک سو سیٹوں پر مسلسل آگے چل رہی تھی وہ 80پر آگئی اور جو بی جے پی 80پر تھی وہ 99پر جاپہنچی۔ جہاں تک الکٹرانک میڈیاکاتعلق ہے ووٹنگ کے بعد اس نے جوکچھ دیکھایا بتایا ‘ دوسرے مرحلہ کی ووٹنگ کے بعدایکزٹ پول کے نام پر ہر بار کی طرح بی جے پی کو کامیابی کی دہلیز پر نہ صرف کھڑا کردیا بلکہ یہ پیشگوئی بھی کم دلچسپ نہیں کہ زیادہ تر چینلوں نے اسکے سیٹوں کی تعداد 140تک پہنچادی تھی۔

یہ پہلی بار نہیں مودی سرکار کے اقتدار میںآنے کے بعد سے الیکٹرانک میڈیاکا ایک بڑا حلقہ یہی کھیل کھیلتا رہا ہے۔ اب یہ ای وی ایم کا کمال ہو یا پھر گجرات کے عوام کا فیصلہ بی جے پی وہاں ایک بار پھر اقتدار حاصل کرنے میں کامیاب رہی ۔

ہارجیت الیکشن کاحصہ ہے۔ میدان میں کئی لوگ ہوتے ہیں مگر ان میں سے کوئی ایک ہی جیت تا ہے‘ لیکن گجرات کا یہ الیکشن جس طرح جیتا گیا اس نے کچھ ایسے سوال کھڑا کردئے ہیں جن کا اگر جلد کوئی جواب نہ ڈھونڈا گیاتو پھر یہ سمجھ لیا جاناچاہئے کہ ملک کا جمہوری نظام خطرے میں ہے۔ وزیراعظم اور ان کے وزراء ہی نہیں بلکہ بی جے پی کا ہر چھوٹا بڑالیڈر یہ دعوی کررہا ہے کہ کانگریس کے 60سالہ دور اقتدار میں ملک میں کوئی ترقی نہیں ہوئی اس کے برعکس مودی نے وزیراعظم بنتے ہی محض تین برس کی مدت میں ملک کیترقی کو ان کی بلندیوں پر پہنچادیا ہے کہ اس کاشمار دنیاکے چند بڑے ممالک میں ہونے لگا ہے۔ اس زعم میں نوٹ بندی کی گئی اور جی ایس ٹی نافذ کیاگیا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ گجرات کے اس الیکشن میں وزیراعظم نے اپنی سرکاری حصولیابوں کا نہ تو ذکر کیا اور نہی یہ بتانے کی کوشش کی کہ نوٹ بندی سے ملک کوکیافائدہ ہوا او رجی ایس ٹی نافذ کرنے سے کیافوائد حاصل ہورہے ہیں ۔

انہو ں نے اس بات کا بھی ذکر نہیں کیاان کی سرکار نے روزگار کے کتنے مواقع پیدا کئے او رگجرات کے کتنے نوجوانوں کو اب تک روزگار ملا ہے۔ اس کی جگہ مودی جی نے ہندوتوا کا آزمورہ فارمولہ استعمال کیا۔ گجرات کے عوام میں بی جے پی کی بد حکمرانی کو لے کر جو غصہ تھا جو مایوسی تھی اسے انہو ں نے مذہبی شد ت پسندی کو ہوا دے کر کم کرنے کی کوشش کی ۔ اس لئے مندر مسجد کا معاملہ اٹھایاگیا۔ راہول گاندھی کے ہندو ہونے کا ثبوت طلب کیاگیا۔ پاکستان کی مداخلت کا ذکر کرکے احمد پٹیل کے وزیراعلی بننے کی بات تشہیر کی گئی اور اسکوشش میں ایک نیک انسان( ڈاکٹر من موہن سنگھ) کی ذات پر کیچڑاچھالنے کی کوشش ہوئی۔یہ سب کسی او رنے نہیں اس شخص نے کیا جو ملک کا وزیراعظم بھی ہے۔

اس سے زیادہ افسوس کی بات یہ ہے کہ پوری الیکشن کے دوران الیکشن کمیشن جیسا خود مختار ادارہ خاموش تماشائی بنا رہا۔یہی نہیں سرکاری مشنری کا کھل کر غلط استعمال ہوا۔ وزیراعظم کے ساتھ گیارہ ریاستوں کے چیف منسٹرتیس سے زائد مرکزی وزراء تین سو سے زیادہ ممبران پارلیمنٹ او رآر ایس ایس کے ہزاروں کارکنان ایک ایسے نوجوان کے پیچھے لگے ہوئے تھے جوگجرات کے ہی دوسرے تین نوجوانوں کے ساتھ مودی کے اس گجرات ماڈل کی قلعی کھول رہاتھا‘ جس کے سہارے بی جے پی سابق کاپارلیمانی الیکشن جیتنے میں کامیاب ہوئی تھی۔

دوسری طرف میڈیا کا ایک بڑا حلقہ بھی مودی کی حمایت میں میدان میں تھا۔ اب اگر اس کے بعد بھی بی جے پی 100سیٹوں کے نشانے تک نہیں پہنچ سکی او رالیکشن کے معتربیت پر سوال اٹھ رہے ہیں تو کیااسے مودی کی ’فتح‘سے تعبیر کیاجاسکتا ہے؟۔ کانگریس نے اصول پسند پارٹی ہونے کے ناطے گجرات کے عوام کے فیصلے کو تسلیم کرلیا‘ لیکن ہاردک پٹیل کے ساتھ مایاوتی اور اکھیلش یادو جیسے لیڈروں نے بھی اوی وی ایم پر سوا ل اٹھائے ہیں۔

ہاردیک پٹیل کا کہنا ہے کہ کم از کم 23حلقو ں کے نتائج بدلے گئے ہیں۔ گجرات الیکشن کو ایک بڑا گھپلہ تعبیر کرتے ہوئے ہاردیک پٹیل نے اس کے خلاف جنگ لڑنے کا اعلان بھی کیاہے۔دوسرے مرحلے کی ووٹنگ کے بعد کانگریس نے سپریم کورٹ میں عرضی داخل کرکے یہ درخواست کی تھی کہ ای وی ایم میں لگی وی وی پے اے ٹی مشین کی پچیس فیصد پرچیوں کی بھی گنتی کی جائے گی لیکن عدالت نے اس عرضی کومستر د کردیا۔ ایسے میں سوال اٹھتا ہے کہ پھر ان پرچیوں کا مقصد کیاہے اوروی وی پی اے ٹی مشینوں کے لئے کروڑ ہا کیو ں خرچ کئے گئے؟ سورت گجرات کا ایک صنعتی شہر ہے ۔

جی ایس ٹی کے نفاذ سے یہاں کے تمام کاروبار اور مزدور پیشہ لوگ بی جے پی سے ناراض تھے اور اس کا برملا اظہار بھی کررہے تھے۔ ایسے میںیہاں کے اٹھوں سیٹوں پر اگر بی جے پی جیت جاتی ہے تو پھر ای وی ایم کی معتبریت پر سوال اٹھنا فطری ہے۔اس حوالہ سے سوشیل میڈیاپر بھی بہت کچھ آرہا ہے مگر الیکشن کمیشن خاموش ہے۔ کیااس ملک کے جمہوری نظام کے لئے نیک فال کہاجاسکتا ہے؟۔مضحکہ خیز بات تو یہ ہے کہ الیکشن کے نتائج آنے کے بعد مودی جی نے فرمایا کہ یہ ’وکاس‘ کی کامیابی ہے اور ا س کے ذریعہ گجرات کے عوام نے ان کی سرکار کی پالیسیوں کی تائیدکردی ہے اس پر راہل گاندھی کا یہ تبصرہ قابل غور ہے ۔ انہو ں نے کہاکہ سوال کیاکہ اگر یہ’وکاس ‘ کی جیت ہے تو پوری انتخابی مہم کے دوران وزیراعظم نے گجرات میں ترقی او رجی ایس ٹی کی بات کیوں نہیں کی؟۔انہوں نے کہاکہ وزیراعظم اپنا اعتبار کھوچکے ہیں۔سچی بات یہی ہے ۔

انہیں گجرات کا الیکشن کسی بھی صورت میں جتینا تھا کیونکہ وہ اگر ہار جاتے تو اس سے ان کی سیاسی مستقبل پر بھی سوالیہ نشان لگ سکتا تھا۔ آر ایس ایس مودی کی کارکردگی سے خوش نہیں ہے لیکن چونکہ اسے ملک پر اپنا نظریہ تھوپنا ہے اس لئے بھی وہ انہیں تبدیل کرنے کا جوکھم نہیں اٹھاسکتی‘ البتہ یوگی ادتیہ ناتھ کی شکل میں اس نے مودی کا متبادل تیار کرنا شروع کردیا ہے ۔ بڑی بات یہ ہے کہ جس کانگریس کو وہ خاطر میں نہیں لاتے تھے او رکانگریس مکت بھارت کا جو خواب دیکھ رہے تھے اسی کانگریس نے ان کی آبائی ریاست گجرات میں ایسی ٹکردی ک ان کے پیسنے چھوٹ گئے۔انہیں لوگوں سے یہ کہنے پر بھی مجبور ہونا پڑا کہ اگر آپ لوگ ہماراساتھ نہیں دیں گے تو ہم کہاں جائیں گے؟۔ ان کایہ جملہ شکست کی واضح دلیل ہے ۔

جہاں تک راہول گاندھی کی بات ہے وہ اس ’اگنی پریکشا‘ سے کندن بن کر نکلے ہیں۔ ایک نئے تیور کے ساتھ انہو ں نے کانگریس کی کمان سنبھالی ہے۔ سوشیل میڈیاٹوئٹر پر ان نہ صرف ان کے چاہنے والوں کی تعداد میں غیرمعمولی اضافہ ہواہے بلکہ لوگ ان کے اخلاق وکردار کی ستائش بھی کررہے ہیں۔ ان سب کے درمیان انہو ں نے ایک بڑا کارنامہ یہ بھی انجام دی ڈالا ہے کہ مودی کے گڑھ میں جاکر انہو ں نے گجرات کو ماڈل کی قلعی کھول د ی ہے ۔ اب اگلا پارلیمانی الیکشن وہ گجرات کو ماڈل بناکر نہیں لڑسکتے ‘ اس کے لئے انہیں اب کوئی دوسرا ’’ ایشو‘‘ تلاش کرنا ہوگا لیکن یہ کام اتنا آسان نہ ہوگاکیونکہ تب ملک کے عوام ان سے پانچ سالوں کا حساب بھی طلب کریں گے ۔