اسکول والوں کی من مانی پر روک لگانا ضروری

دیگر تعلیمی اداروں اور محکمہ تعلیم تلنگانہ کی لاپرواہی تشویشناک!

عرفان جابری
’’ محبت اَب تجارت بن گئی ہے، تجارت اب محبت بن گئی ہے‘‘ یہ 1980ء کے دہے کی ہندی فلم کے مشہور نغمہ کے ابتدائی بول ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس فلمی شعر میں لفظ ’محبت‘ سے ’تعلیم‘ کو تبدیل کرتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ ’’تعلیم اب تجارت بن گئی ہے، تجارت اب تعلیم بن گئی ہے‘‘۔ مجھے اندازہ ہے کہ تعلیم کے مسلسل گھٹتے معیار، تعلیمی اداروں کی تجارتی رَوش اور اس شعبے کی دیگر برائیوں کے تعلق سے گزشتہ برسہابرس بلکہ چند دہے کہیں تو بیجا نہ ہوگا، بہت کچھ لکھا جاچکا ہے۔ میں اس ضمن میں ساری تحریری کاوشوں کو تسلیم کرتا ہوں، ان کو سراہتا ہوں کہ لکھنے والوں نے نہایت اہم و سلگتے موضوع پر قلم اُٹھایا ہے۔ بہ الفاظ دیگر میری زیرنظر تحریر کا موضوع کوئی منفرد یا چونکا دینے والا نہیں ہے۔ تاہم، میرا ماننا ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ مسائل بالخصوص سماجی مسائل پر توجہ مرکوز کرتے رہنا پڑتا ہے؛ ان کا تنقیدی جائزہ لیتے رہنا معقول سعی ہوتی ہے؛ زندگی کے کسی بھی شعبے میں من مانی کرنے والوں کو سماج یونہی آنکھیں موند کر نظرانداز نہیں کرسکتا، اُسے خاطیوں کی گرفت کرتے رہنا پڑتا ہے؛ میں تعلیم جیسے عظیم پیشے کو تجارت بنادینے والوں کو ’سفید پوش مجرمین‘ مانتا ہوں جو بھلے ہی اِس دنیا میں گرفت سے بچ جائیں مگر اُس دنیا میں انھیں ’انصافِ حقیقی‘ سے کون بچائے گا؟
میں آج کل کی اسکولی تعلیم، دیگر تعلیمی اداروں کی حالت اور حکومت تلنگانہ کی تعلیمی شعبے میں قابل گرفت لاپرواہی کے موضوعات پر روشنی ڈالنا چاہتا ہوں۔ چند سطور کیلئے قارئین کرام کو پس منظر ؍ ماضی سے واقف کرانا چاہوں گا کہ میرے بچپن میں متحدہ آندھرا پردیش کے دارالحکومت شہر حیدرآباد میں خانگی تعلیمی اداروں کا ایسا پیچیدہ جال نہیں تھا جیسے آج نوتشکیل شدہ تلنگانہ اسٹیٹ میں دیکھنے میں آرہا ہے۔ تین، چار دہے قبل تک بھی لوگ سرکاری تعلیمی اداروں میں ہی اپنی اولاد کا داخلہ کروانا پسند کرتے تھے کیونکہ وہیں قابل ٹیچرز؍ اساتذہ؍ فیکلٹی دستیاب تھے جو نہ صرف اعلیٰ تعلیم یافتہ ہوتے بلکہ ایجوکیشن کی خاص سندوں کے حامل ہوا کرتے جو معیاری تعلیم کی عملاً ضمانت ہوتے۔ 35 تا 40 سال کی مدت میں اسکولی تعلیم، خانگی اسکولوں کی تعداد، دیگر اعلیٰ تعلیمی اداروں کی فہرست میں اضافہ ہی ہوتا گیا لیکن ’معیار‘ چند اسکولوں، کالجوں و دیگر اداروں کے سواء صرف گھٹتا ہی جارہا ہے۔ اچھے اور بُرے ادارے ہر شعبے میں ہوتے ہیں، اچھے اداروں کی تعداد زیادہ ہو اور بُرے تھوڑے ہوں تو زیادہ تشویش نہیں رہتی جتنی اس کے برعکس صورتحال پر ہوتی ہے۔

اس دیرینہ موضوع کو پھر ایک بار چھیڑنے کی وجہ یہی ہے کہ ملک کے چار میٹرو سٹیز کے بعد سب میں نمایاں دو تین شہروں میں شامل حیدرآباد کے تعلق سے میرا اپنا تجربہ ہے کہ یہاں خانگی اسکولوں کا بڑا نٹ ورک تو قائم ہوگیا جس میں ہندو، مسلم، عیسائی اور دیگر کئی برادریوں کے ادارے شامل ہیں لیکن معیاری اسکولوں کی بات ہو تو ہم ان کی تعداد شاید انگلیوں پر گن سکتے ہیں۔ انٹرمیڈیٹ اور دیگر مابعد دسویں جماعت کورسز والے اداروں اور اس کے بعد ڈگری کالجوں کا حال بھی کچھ مختلف نہیں۔ اسکول سے لے کر اعلیٰ تعلیم تک حیدرآباد میں تعلیمی اداروں کی بہتات کے باعث اس شہر کی شہرت سے انکار نہیں؛ گاؤں گاؤں، ضلع ضلع اور پڑوسی ریاستوں سے طلبہ حیدرآباد آکر یہاں قیام کرتے ہوئے تعلیم حاصل کررہے ہیں۔ بے شک! یہ باتیں اپنی جگہ درست ہیں۔ لیکن حقیقی حیدرآبادیوں کو بڑی زک پہنچائی جارہی ہے۔ حکومتوں نے اپنے گھٹیا مفادات کی خاطر سرکاری اسکولوں، کالجوں کا خود ستیاناس کیا۔ چنانچہ مجبوراً عوام کو خانگی تعلیمی اداروں کا رُخ کرنا پڑا، جو سب ابتداء میں تو بس معیار کی ہی بات کرتے ہیں، پھر دھیرے دھیرے اُن میں یکایک ’تاجر‘ کی خصوصیتیں غالب ہونے لگتی ہیں، یہاں تک کہ چند برسوں کی مدت میں وہ ’تعلیم کے تاجر‘ بن جاتے ہیں، جو معیارِ تعلیم کی حس سے محروم ہوتے ہیں، دولت کی حرص و ہوس میں مبتلا رہتے ہیں، اور اس کا شکار غریب اور متوسط طبقے کے والدین بن جاتے ہیں!
زیادہ واضح انداز اختیار کروں تو مجھے ان سوالات کے تشفی بخش جوابات کی تلاش ہے کہ کیوں آج حیدرآباد بالخصوص پرانے شہر میں حکومت گلی گلی غیرمعیاری اسکول قائم کرنے کی اجازت دیتی ہے جو اسکول کیلئے مقررہ حقیقی معیار کی کسوٹی پر دیکھیں تو مذاق معلوم ہوتے ہیں، نہ اندرون اسکول طلبہ کیلئے معقول سہولتیں ہوتی ہیں اور نا کوئی پلے گراؤنڈ رہتا ہے جو قیامِ اسکول کیلئے سرکاری قواعد و شرائط میں بنیادی پہلو ہے۔ رہائشی عمارتوں میں معمولی ردوبدل کے ساتھ اسے اسکول بنایا جارہا ہے۔ بہ الفاظ دیگر رشوت لے کر ارباب مجاز غیرمعیاری اسکولوں کے قیام کا پرمیشن دے رہے ہیں! لگ بھگ تمام خانگی اسکولی ادارے داخلہ کے وقت سب سے پہلے ’ڈونیشن‘ کے نام پر موٹی رقم اینٹھ جاتے ہیں، پھر ہر تعلیمی سال کی شروعات پر اسٹوڈنٹس کی ماہانہ فیس میں من مانی اضافہ کردیتے ہیں، ’ٹرم فیس‘ یا کوئی عنوان سے بٹوری جانے والی رقم الگ ہے۔ چند امیروں کیلئے یہ سب ادائیگیاں کچھ مشکل نہیں ہوتیں، اور وہ غلط نظیر قائم کرجاتے ہیں، جس سے اسکول مینجمنٹ کا حوصلہ اور ان کی ہمت بڑھ جاتی ہے۔ پھر وہ غریبوں اور متوسط طبقے کو خاطر میں لانے تیار نہیں ہوتے۔ کانونٹ اسکولوں کی دیکھا دیکھی تین تین، چھ چھ یا کہیں کہیں پورے سال کی فیس بہ یک وقت وصول کرلینے کا رجحان بڑھتا جارہا ہے۔ کیا ایسے اسکول اپنے اسٹاف کو بھی اسی انداز میں تنخواہ دیتے ہیں … تین تین ماہ کی بہ یک وقت؟ نہیں دیتے، ہرگز نہیں دیتے! اس کا مطلب ہے کہ اسکول مینجمنٹ کے پاس اسٹوڈنٹس کی رقومات بنام فیس محفوظ ہوجاتی ہیں جس کا مہینہ، دو مہینے یا اور زیادہ مدت کیلئے بھی دیگر مقاصد کیلئے استعمال کیا جاسکتا ہے جو شرعاً تو درست نہیں ہوسکتا بلکہ دنیاوی اعتبار سے بھی نہایت غیراخلاقی اور قابل گرفت حرکت ہے!

پرائیویٹ اسکولز میں مزید سنگین مسئلہ ٹیچنگ اسٹاف کی غیرمعیاری قابلیت کا ہے۔ سرکاری تعلیمی اداروں میں قواعد و شرائط کے مطابق درکار قابلیت پر ہی تقرر ہوسکتا ہے۔ تاہم، خانگی اسکولوں نے اس معاملے میں معیار کی دھجیاں اڑا رکھی ہیں۔ کئی اسکول ہیں جہاں کوئی ٹیچر B.Ed. یا D.Ed یا پھر TTC کے حامل نہیں ہوتے۔ 10th یا 12th کامیاب افراد کو ٹیچنگ اسٹاف میں شامل کرلیا جاتا ہے تاکہ انھیں کم سے کم تنخواہوں پر راضی کرلیا جائے۔ غریب اور متوسط طبقہ سے بچوں کو اعلیٰ تعلیم تک لے جانا ہو تو یہ روش بدلنی ہوگی۔ ایک اور پہلو پر مجھے تشویش ہوتی ہے کہ اکثر اسکولز میں تقریباً 95% لیڈی ٹیچرز دیکھنے میں آتے ہیں۔ چند دہے قبل تک ایسا نہیں تھا۔ صنف نازک کی تدریسی قابلیت اور اُن کے اخلاص پر مجھے کوئی شک و شبہ نہیں، لیکن دسویں تک بچوں، بچیوں کیلئے لیڈیز اور جینٹس دونوں ٹیچرز کا مناسب تناسب ہونا ضروری ہے۔ اصل نکتہ یہ ہے کہ اسکول مینجمنٹ کو مختلف داخلی اُمور میں لیڈیز سے نمٹ لینے میں آسانی ہوتی ہے اور مرد حضرات اُن کی من مانی پر ہمیشہ راضی ہونا مشکل امر ہوتا ہے۔ اس لئے آج کل اسکولوں میں لیڈی ٹیچرز کی بہتات ہوگئی ہے۔
بورڈ آف سکنڈری ایجوکیشن تلنگانہ (BEST) کی ویب سائٹ پر اوپری حصے میں اچھا قول تحریر ہے: تعلیم سب سے طاقتور ہتھیار ہے جسے آپ دنیا بدلنے کیلئے استعمال کرسکتے ہو… نیلسن منڈیلا۔ جنوبی افریقہ کے آنجہانی سابق صدر کو اُن کے خطہ کے گاندھی جی کہیں تو بیجا نہ ہوگا۔ انھوں نے جنوبی افریقہ میں نسل پرستی کے خلاف تقریباً تین دہائیوں تک گوری نسل والوں کے خلاف جدوجہد کی اور آخرکار جنوبی افریقہ میں سیاہ فام آبادی کو اُس کا مستحقہ مقام دلایا۔ 1990ء کے اوائل سے وہاں سیاہ فام صدور بنتے آرہے ہیں! ظاہر ہے منڈیلا نے جب تعلیم کے بارے میں کچھ بات کہی تو یوں سمجھئے کہ اپنی زندگی کے تجربے کا نچوڑ پیش کردیا۔ یہ واقعی خوشی کی بات ہے کہ حکومت تلنگانہ نے اُن کے قول کو سرکاری سطح پر نمایاں کرکے پیش کیا۔ مگر افسوس اس بات کا ہے کہ ہندوستان میں چند برسوں سے صرف نعرے بازی، جملے بازی اور زبانی جمع و خرچ کا دور چل پڑا ہے۔ باتیں بہت کہی اور لکھی جاتی ہیں لیکن ان پر عمل کرنے کیلئے کوئی تیار نہیں؛ نہ حکومتیں تیار ہیں اور نا عوام و خواص کی اکثریت!
تلنگانہ میں اسکولی تعلیم کی صورتحال پر نظر ڈالتے ہیں۔ تقریباً تین سال قبل مرکزی وزارت فروغ انسانی وسائل (MHRD) کی ایک رپورٹ کے حوالے سے چند اعداد و شمار پیش کررہا ہوں جس پر یقیناً زیادہ تر قارئین کرام کو افسوس و حیرانی ہوگی۔ کے سی آر کی قیادت میں ٹی آر ایس حکومت اقتدار سنبھال لینے کے تقریباً دو سال بعد بھی تلنگانہ میں 95% اسکولز (گورنمنٹ اور پرائیویٹ) فل ٹائم ہیڈماسٹر یا پرنسپل کے بغیر پائے گئے۔ نئی ریاست میں 42,632 خانگی اور سرکاری اسکولوں کے منجملہ 40,507 میں کوئی ریگولر پرنسپل نہیں۔ کیا یہ کافی نہ تھا کہ 16,313 اسکولوں میں محض دو یا کم ٹیچرز مقرر ہیں۔ مزید یہ کہ ٹیچر۔ اسٹوڈنٹ کا مقررہ تناسب 1:35 ہونے کے بعد 2,125 اسکولوں میں تو کوئی ٹیچر ہی نہیں جبکہ 5,046 اداروں میں صرف ایک اور 9,142 میں محض دو ٹیچرز مقرر ہیں۔ تلنگانہ کے اضلاع میں جبکہ ان کی تعداد 10 ہی تھی، عادل آباد میں 559 اسکولز میں ٹیچروں کی تعداد ’زیرو‘ پائی گئی۔ اسی طرح دیگر اضلاع میں میدک (327)، محبوب نگر (301)، رنگاریڈی (298)، کھمم (155)، نظام آباد (126)، کریم نگر (101)، ورنگل (101) کے اسکولوں کا بھی برا حال ہے۔ نئی ریاست میں معاملہ صرف پرنسپلوں اور ٹیچروں کی شدید قلت تک محدود نہیں، کم از کم 11,295 اسکولوں میں کلاس روم کی تعداد 2 سے کم ہے جبکہ 175 اداروں میں تو کوئی کلاس روم ہی دستیاب نہیں ہے۔ ایسے اضلاع میں عادل آباد، کھمم، محبوب نگر، رنگاریڈی اور ورنگل کے نام سامنے آئے۔

ماہرین تعلیم نے اسکولی تعلیم کی حالت کو حکومت تلنگانہ کی بے حسی سے منسوب کیا ہے۔ ایسی ریاست جو ’آئی ٹی ہب‘ بننا چاہتی ہے وہاں 27,495 اسکولوں میں طلبہ نے ہنوز کمپیوٹرس کی شکل نہیں دیکھی ہے۔ کمپیوٹر کو چھوڑئیے، بنیادی سہولیات جیسے برقی، پینے کا پانی اور ٹائلٹس تک کئی اسکولوں میں نہیں پائے گئے۔ رپورٹ نے یہ پتہ بھی چلایا کہ آیا اسکولز قانون حق تعلیم کے مختلف شقوں ؍ شرائط کی تعمیل کررہے ہیں۔ یہ پایا گیا کہ 14,710 اسکولوں میں محض 4,870 میں مڈ ڈے میل کیلئے کچن دستیاب ہیں جبکہ 27,978 میں سے 12,613 اسکولوں کی کوئی ’باؤنڈری وال‘ نہیں اور 24,750 کے منجملہ 16,068 اسکولوں میں بچوں کیلئے پلے گراؤنڈ نہیں ہے۔
بے شک ! مذکورہ بالا اعداد و شمار تب کے ہیں جب کے سی آر حکومت کی تشکیل کو دو سال ہی ہوئے تھے۔ ہندوستان میں عام طور پر حکومتوں کیلئے دو سال کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی!وہ اتنی مدت میں کوئی ٹھوس کام کاج نہیں کرسکتے بلکہ Formalities میں ہی دو سال نکل جاتے ہیں۔ اس لئے میں اسکولی تعلیم کی دگرگوں حالت کیلئے صرف ٹی آر ایس حکومت کو موردِ الزام نہیں ٹھہراؤں گا بلکہ یہ متحدہ آندھرا پردیش کی متواتر حکومتوں کا کیا دھرا ہے۔ تاہم، چیف منسٹر تلنگانہ کے نئی ریاست کی پہلی میعاد میں شاندار کارگزاری کے بلنگ بانگ دعوؤں کے بعد 2019ء انٹرمیڈیٹ کے انعقاد میں سخت ناکامی کیلئے وہ کیا بہانہ ڈھونڈیں گے؟
تلنگانہ انٹرمیڈیٹ نتائج نے کافی کمزور جونیر کالج سسٹم کو آشکار کیا ہے۔ اسٹاف کی قلت، پرچوں کی جانچ کیلئے کم وقت، آن لائن سسٹم میں خامیاں جس میں خصوصیت سے ڈیجیٹل پروسیسنگ کا کام ایسی فرم (Globarena Technologies Pvt. Ltd.) کو ’آؤٹ سورس‘ کرنا جس کا مشکوک ٹریک ریکارڈ ہے … یہ تلنگانہ اسٹیٹ بورڈ آف انٹرمیڈیٹ ایجوکیشن، محکمہ تعلیم اور ریاستی حکومت کی مجموعی ناکامی کی نمایاں وجوہات ہیں۔ تقریباً 9.74 لاکھ اسٹوڈنٹس نے اِس سال تلنگانہ میں انٹرمیڈیٹ سرکاری امتحان میں شرکت کی۔ تین لاکھ طلبہ ناکام ہوئے۔ 18 اپریل سے جبکہ نتائج کا اعلان کیا گیا، کم از کم 20 اسٹوڈنٹس خودکشی کرچکے ہیں۔ بورڈ کی ویب سائٹ نتائج کا اعلان ہونے کے بعد دو یوم تک ’ڈاؤن‘ رہی۔ نشانات کی دوبارہ گنتی یا پرچوں کی دوبارہ جانچ کیلئے درخواست داخل کرنے سے اسٹوڈنٹس اور اولیائے طلبہ قاصر تھے جس کے نتیجے میں کافی بے چینی کا ماحول پیدا ہوگیا۔ دفتر بورڈ کے پاس لا اینڈ آرڈر کے مسائل بھی پیدا ہوئے۔ ایک ہفتے بعد چیف منسٹر نے آخرکار مداخلت کرتے ہوئے تین رکنی کمیٹی تشکیل دی کہ معاملے کی تحقیقات کرکے غلطیوں کی نشاندہی کی جائے۔ حکومت نے پرچوں کی دوبارہ مفت جانچ جیسے اقدام کے ذریعے اسٹوڈنٹس کا اعتماد بحال کرنے کی کوشش کی لیکن حکام بڑی دیر تک خوابِ غفلت میں رہے اور طلبہ کی جانیں تلف ہونے اور اسٹوڈنٹس کے ساتھ ساتھ اولیائے طلبہ کو بھی ذہنی کرب میں مبتلا کردیئے۔ تعلیمی میدان میں اس طرح کی فاش غلطی سے سمجھا جاسکتا ہے کہ متعلقہ حکومت کی دیگر شعبوں میں کیا کارگزاری ہوگی!
قصہ مختصر یہ کہ اب اسکول سے لے کر اعلیٰ تعلیم تک ایک اور تحریک شروع کرنے ضرورت ہے۔ ریزرویشن پر تحریکات دیکھنے میں آتے ہیں، کسانوں کا ایجی ٹیشن ہوتا ہے، اسی طرح اب شروعات میں خاص تلنگانہ کی حد تک ایسا ’موومنٹ‘ چلانا ہوگا کہ پرائیویٹ اسکولز کے فیڈریشن سے لے کر خانگی تعلیمی اداروں کے تمام مینجمنٹ سدھرنے پر مجبور ہوجائیں۔ خصوصیت سے Donation، Fee، Teaching Staff Standard، Male-Female Teachers Ratio، Teacher-Students Ratio، Infrastructure، Playground، Government Recognition، Urdu included as a Subject جیسے عنوانات پر اسکولوں اور کالجوں کو جھنجھوڑنا پڑے گا۔ سماج میں بے شمار گوشے ہیں جو کسی نہ کسی سماجی موضوع پر تحریک چلارہے ہیں؛ ان میں ادارہ ’سیاست‘ کا نمایاں مقام ہے۔ اس ادارہ کی طرف سے جاری متعدد رفاہی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ ایک اور تحریک بھی شروع ہوجائے تو تعجب نہ ہوگا!
irfanjabri.siasatdaily@gmail.com