اسکولی تعلیم : بچوں پر وزنی بیاگس، والدین پر من مانی فیس کا بوجھ

عرفان جابری
اِس مرتبہ موسم گرما کے اختتامی دنوں میں تلنگانہ کی ٹی آر ایس حکومت نے اعلان کردیا کہ تمام اسکول یکم جون سے دوبارہ کھول دیئے جائیں اور 2 جون کو اسکولوں میں تلنگانہ کا چوتھا یوم تاسیس منائیں، نیز 8 جون تک اسکولوں کو نصف یوم تک چلانے کی ہدایات بھی جاری کی گئیں۔ دارالحکومت شہر حیدرآباد میں ہزاروں اسکولوں کا جال ہے اور تلنگانہ کی تشکیل سے قبل تک روایتی طور پر اسکولوں کی گرمائی تعطیلات جون کے دوسرے ہفتے کے دوران ختم ہوا کرتی تھیں۔ تب تک مانسون آجاتا اور دن کا درجہ حرارت اس حد تک قابل برداشت ہوجاتا کہ بچوں کو اسکول جانے میں پریشانی نہیں ہوتی اور والدین کو اپنے بچوں پر گرمی کے اثر کے تعلق سے زیادہ تشویش نہیں ہوا کرتی تھی۔ تاہم، تلنگانہ کے یوم تاسیس (2 جون) نے اب ہر سال اسکولی بچوں، والدین اور اولیائے طلبہ کیلئے آزمائش کا موقع بنا دیا ہے۔ اِس مرتبہ سرکاری احکام کی اجرائی تک گرمی کی شدت میں زیادہ کمی نہیں ہوئی تھی۔اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اسکولس تو یکم جون سے دوبارہ کھل گئے لیکن ابتدائی دنوں میں حاضری قابل لحاظ تک کم رہی۔ 2 جون کو تلنگانہ کے یوم تاسیس اور گرمائی تعطیلات کے بعد اسکولوں کی دوبارہ کشادگی کا معاملہ ہر سال پیش آنے والا ہے۔ ریاستی حکومت کو اس تعلق سے کوئی ٹھوس قابل عمل طریقہ ڈھونڈ نکالنا ہوگا۔

یہ تو ریاستی حکومت کا 2 جون اور اسکولوں کی گرمائی چھٹیوں کے بعد دوبارہ کشادگی میں تال میل پیدا کرنے کے ضمن میں ایک انتظامی مسئلہ ہوا۔ اِن سطور کے ذریعے میں حیدرآباد میں اسکولی تعلیم کے سسٹم، اس کے پہلوؤں اور ریاستی محکمہ تعلیم نیز عمومی طور پر حکومت کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں۔ ہمارے پاس اسکولوں میں ریاستی حکومت کا نصاب، سنٹرل بورڈ آف سکنڈری ایجوکیشن (سی بی ایس ای) یا پھر آئی سی ایس ای (انڈین سرٹفکیٹ آف سکنڈری ایجوکیشن) کا نصاب پڑھایا جاتا ہے۔ شہر کے سینکڑوں اسکولوں میں غالب اکثریت پرائیویٹ اسکولس کی ہے جہاں کانونٹ اسکولوں کو چھوڑ کر ریاستی نصاب پڑھایا جاتا ہے۔ آج کل پلے گروپ اور نرسری سے بچوں کو اسکولوں میں داخلہ دلوا دیتے ہیں۔ بہ الفاظ دیگر بچے پہلی جماعت میں آنے تک دو سال یا زائد عرصے کیلئے اسکول جاچکے ہوتے ہیں۔ میں نے دیکھا ہے کہ نرسری سے لیکر ہائی اسکول کی جماعتوں تک کتابوں، نوٹ بکس، ورک بکس اور دیگر کتب کی اتنی تعداد رہتی ہے کہ بچوں کے اسکول بیاگس متعلقہ بچوں کی جسامت کے لحاظ سے نہایت وزنی اور اُن کیلئے بوجھ ہوجاتے ہیں۔
ہمارے ایجوکیشن سسٹم میں بالعموم کم از کم تین زبانوں کے ساتھ ریاضی، سائنس اور سماجی علوم پڑھاتے ہیں۔ ہر مضمون کی ریڈر، ورک بک، نوٹ بک اور دیگر ضمنی موضوعات والی کتب کے ساتھ ساتھ بچوں کیلئے ٹفن باکس اور دیگر ضروری اشیاء سنبھالنا اُن پر حد سے زیادہ بوجھ ڈال دینے کے مترادف ہے۔ نئی نسل کے اکثر بچوں پر اس بوجھ کے اثرات مرتب ہورہے ہیں جس کا فوری مداوا کرنا ضروری ہے۔ اس ضمن میں غوروخوض کرنا اور کوئی حل نکالنا، نہ صرف اسکولوں بلکہ محکمہ تعلیم اور ریاستی حکومت کا بھی کام ہے۔ ایک تجویز ہے کہ اسکولی بچوں کیلئے کتابوں اور کاپیوں کی تعداد ممکنہ حد تک گھٹائی جائے۔ ماضی میں اخلاقیات کی تعلیم اضافی مضمون ہوتا تھا، تب بھی اسکولی بچوں کا بستہ اتنا وزنی نہیں ہوتا تھا جتنا آج زیادہ تر اسکولوں میں اخلاق سے عاری تعلیم کیلئے بڑے بڑے بیاگس کی ضرورت پڑرہی ہے۔ محکمہ تعلیم مداخلت کرے اور دیکھے کہ اسکولوں میں مناسب انتظام کے ساتھ بعض کتابیں اور کاپیاں مستقل طور پر محفوظ رکھے جائیں جو روزانہ گھر سے اسکول اور اسکول سے گھر لانے اور لیجانے کی ضرورت نہ رہے۔ ایسا بعض اسکولس میں اب بھی ہوتا ہے لیکن یہ کام ہر اسکول لازمی طور پر ہونا چاہئے۔ علاوہ ازیں، مسیحا تعلیم مجموعی نصاب اور اس کیلئے درکار کتب وغیرہ پر نظرثانی بھی کرسکتا ہے۔

اسکولی بچوں کی فیس سال بہ سال بڑھتا مسئلہ بن رہا ہے۔ شہر میں خاص طور پر نام نمود کے اظہار اور اشتہار بازی کے ساتھ کام کرنے والے پرائیویٹ اسکول بچوں کی تعلیمی فیس کے نام پر والدین اور اولیائے طلبہ کو ’’لوٹ‘‘ رہے ہیں۔ عام معاشی حالات کی صورتحال جگ ظاہر ہے، زندگی کے کتنے شعبے ہیں جہاں شرح ترقی 5% سے زیادہ ہے۔ اس کے باوجود تقریباً ہر سال پرائیویٹ اسکولس اپنی ٹیوشن فیس میں 10% کے آس پاس اور کبھی کبھی تو مزید زیادہ اضافہ کردیتے ہیں۔ صرف ٹیوشن فیس نہیں بلکہ وہ دیگر عنوانات سے بھی رقومات اینٹھتے ہیں جیسے ’ٹرم فیس‘ (Term Fees)، کمپیوٹر فیس، وغیرہ۔ ہر ماہ موٹی فیس لینے کے بعد ’ٹرم فیس‘ کا کیا جواز ہے، یہ بالکلیہ غیرواجبی ہے۔ اسکولوں میں داخلوں کے بعد والدین اور اولیائے طلبہ مجبور ہوجاتے ہیں۔ تعلیمی سال شروع ہوجانے کے بعد بچوں کو ایک اسکول سے نکال کر دوسرے اسکول میں داخلہ کرانا عملی طور پر ممکن نہیں ہوتا۔ اس صورتحال کا پرائیویٹ اسکولس والے استحصال کرتے ہیں۔ ریاست کا ڈپارٹمنٹ آف اسکول ایجوکیشن اور ریاستی حکومت خاموشی تماشائی ہیں۔ ماضی کی ریاستی حکومتیں بھی اس معاملے میں پرائیویٹ اسکولس کے فیڈریشن کے ساتھ مبینہ گٹھ جوڑ کرتے ہوئے خاموش رہتی تھیں اور اب وہی کام شاید ٹی آر ایس حکومت بھی کررہی ہے، حالانکہ اس کے ڈپٹی چیف منسٹر کڈیم سری ہری کے پاس تعلیم کا قلمدان بھی ہے۔ ٹی آر ایس حکومت ’سنہرا تلنگانہ‘ بنانے کے دعوے کرتی ہے اور بہت سارے وعدے بھی کرتی ہے لیکن دیکھنے میں یہ آرہا ہے کہ عملی طور پر زندگی کے کئی شعبوں میں حالات ویسے ہی ہیں جیسے سابقہ حکومتوں میں ہوا کرتے تھے، جن پر تنقیدیں کرتے ہوئے چیف منسٹر کے سی آر اپنی حکومت کو آگے بڑھا رہے ہیں۔

پرائیویٹ اسکولس میں غیرواجبی رولس (قواعد) اختیار کئے جاتے ہیں جو قانون سے میل نہیں کھاتے۔ یہ اسکولس اپنے اسٹوڈنٹس اور اولیائے طلبہ کو مجبور کرتے ہیں کہ کتابیں، ڈریس، وغیرہ سب اُن کے پاس سے یا اُن کے نامزد کردہ مقامات سے ہی خریدے جائیں، چاہے ایسی خریداری کتنی ہی مہنگی کیوں نہ ہوجائے۔ اس معاملے میں صاف طور پر ’کمیشن‘ کی برائی کا رول نظر آتا ہے۔ پھر بھی نہ اسکولی ایجوکیشن کا ڈپارٹمنٹ کچھ کہتا ہے اور نا ہی ریاستی حکومت کی اعلیٰ سطح پر کوئی جنبش ہوتی ہے۔ شہر حیدرآباد اور خاص طور پر اولڈ سٹی میں سینکڑوں اسکولوں کو تلنگانہ حکومت نے رجسٹریشن دے دیا ہے حالانکہ وہ رجسٹریشن رولس کی کئی شقوں کی تکمیل نہیں کرتے ہیں۔ پلے گراؤنڈ اسکول کا اہم جزو ہوتا ہے، اس کے بغیر اسکول رجسٹریشن کرنا بچوں کے بنیادی حقوق کے ساتھ کھلواڑ ہے۔ اَن گنت اسکولس تنگ گلیوں میں اور رہائشی عمارتوں میں تک چند تبدیلیوں کے ذریعے قائم ہیں، کئی دیگر اسکولس مصروف علاقوں میں لب سڑک کی عمارتوں میں چلائے جارہے ہیں۔ ان اسکولوں میں بچوں کی آمدورفت کے تعلق سے والدین کو ہمیشہ خدشات لاحق رہتے ہیں۔ اس ضمن میں بھی ریاستی حکومت کو مناسب غوروخوض کرنا چاہئے۔
اسکولوں کی تعداد بڑھ گئی ہے، اسکول فیس بڑھتی ہی جارہی ہے، بچوں پر بیاگس کے وزن میں بھی اضافہ ہوتا جارہا ہے، لیکن بڑی تعداد میں پرائیویٹ اسکولس کا معیارِ تعلیم گھٹیا ہے حالانکہ وہ بچوں کو پڑھانے کیلئے تگڑی فیس وصول کرتے ہیں۔ ابتداء سے لیکر نویں جماعت تک بچوں کے حقیقی معیارِ تعلیم کا پتہ نہیں چلتا کیونکہ سب کچھ خانگی اسکولوں کے انتظامیہ پر منحصر ہوتا ہے۔ والدین اور اولیائے طلبہ کو بچوں کے حقیقی معیار کے تعلق سے اندھیرے میں رکھا جاتا ہے۔ مانا کہ بچوں کے معیار کی کچھ ذمہ داری والدین اور اولیائے طلبہ پر بھی آتی ہے، لیکن ہزاروں روپئے خرچ کرکے اسکولوں کو بھیجنے اور اس عمل میں صبح سے شام تک آٹھ، نو گھنٹے صَرف ہوجانے کے بعد بھی اگر اسکولس بچوں پر خاطرخواہ محنت نہیں کرتے ہیں تو یہ سراسر ناانصافی ہے۔
irfanjabri.siasatdaily@yahoo.com