اسٹار کلچر

کے این واصف
تبدیلی ایک فطری عمل ہے ۔ وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ زندگی کا ہر شعبہ تغیر یا بدلاؤ کا شکار ہوتا ہے ۔ اسے ہم ترقی کا نام بھی دیتے ہیں اور یہ تبدیلیاں ہر سماج اور ہر علاقہ میں آتی ہیں کیونکہ یہ نظام فطرت ہے لیکن تبدیلی بہتری اور بھلائی کیلئے ہو تو سر آنکھوں پر ، مگر تبدیلی کے منفی اثرات ہماری زندگی کے کسی بھی شعبہ پر پڑ رہے ہوں تو وہ ہمارے لئے وبال جان ہوجاتی ہے ۔ تبدیلیوں سے متعلق یہاں ہم اپنی بات کو حیدرآباد کی حد تک محدود رکھتے ہوئے نصف صدی یا اس سے کچھ قبل کے حیدرآباد پر نظر ڈالیں تو ہمیں آج کے حیدرآباد اور اس دور کے حیدرآباد میں زمین و آسمان کا فرق نظر آئے گا ۔پچاس ، پچپن سال قبل ہمارا رہن سہن ، کھانا پینا ، پہننا اوڑھنا ، رسم و رواج اور تہذیب آج کے دور سے بہت مختلف تھا ۔ ہمارے سماج میں درجہ بندیاں تھیں۔ اپنے معاشی وسائل کے لحاظ سے لوگوں نے از خود یہ لکیریں کھینچ رکھی تھیں۔ کوئی شخص بھی ان درجہ بندیوں میں رہنے کو نہ عیب سمجھتا تھا اور نہ دوسروں سے مقابلہ بازی میں خود کے قائم کردہ حدود کو پھلانگنے کی کوشش کرتا تھا ۔ اہم بات یہ تھی کہ اس دور میں لوگ اپنے محدود وسائل میں مطمئن اور خوش بھی رہتے تھے اور حیدرآبادیوں کی ا یک اور خاص بات یہ تھی کہ وہ بہت کم نقل مکانی یا ہجرت کے عادی تھے ۔ خصوصاً اندرون ملک کسی اور جگہ جاکے بسنے کے ۔

ہمارے سامنے ایک بڑی تبدیلی تب آئی جب لسانی بنیاد پر ملک میں ریاستوں کا قیام عمل میں آیا ۔ 1948 ء میں ریاست حیدرآباد کے انڈین یونین میں ضم ہونے کے بعد دکن کے ٹکڑے ہوئے اور یہ قدیم ریاست کے اضلاع تین ریاستوں میں بٹ گئے ۔ تلگو زبان کی بنیاد پر ریاست آندھراپردیش کا قیام عمل میں آیا۔ حیدرآباد اس کا دارالحکومت قرار پایا اور اس کے ساتھ ہی ساحلی آندھرا اور رائلسیما کے رہنے والوں کا حیدرآباد میں آ بسنا شروع ہوا۔ انسان جب ہجرت کرتا ہے تو اپنی زبان ، لہجہ ، عادات و اطوار ، تہذیب و تمدن بھی ساتھ لے آتا ہے ۔ حیدرآباد میں نئے آ بسنے والوں کی تعداد بہت بڑی تھی جس کی وجہ سے شہر میں جہاں بڑے پیمانے پر تبدیلیاں رونما ہونے لگیں، وہیں حیدرآبادی زبان ، روایات ، تہذیب، تمدن بھی آلودگی کا شکار ہونے لگی ۔ اتنا ہی نہیں حیدرآباد یا علاقہ تلنگانہ کے ساتھ جو مزید ہوا وہ ایک لمبی اور بڑی تکلیف دہ داستان ہے جس کی تفصیل ہم چند ہفتے قبل اسی کالم میں دے چکے ہیں اور دیگر بہت سے لکھنے والوں نے بھی اس کے بارے میں قلم اٹھایا ہے۔

سیما آندھرا اور علاقہ تلنگانہ کا لسانی بنیاد پر ایک کیا جانا اور ریاست آندھراپردیش کا قیام عمل میں آنے کے بعد ایک اور نمایاں تبدیلی سامنے آئی اور وہ تھی ’’اسٹار کلچر‘‘ کی۔ آج یہی ہمارے کالم کا موضوع ہے ۔ اس نئے کلچر کی ابتداء 70 کی دہائی کی ابتداء میں ہوئی اور آج زندگی کے ہر شعبہ میں ہم اسٹار کلچر دیکھ رہے ہیں ۔ ایک نشست میں ہم اس موضوع پر گفتگو کرنے بیٹھیں تو شاید اس موضوع سے انصاف نہیں کرپائیں گے ۔ ہماری زندگی کے دو اہم شعبوں طب اور تعلیم میں اسٹار کلچر آیا جس کے ہماری سوسائٹی پر مضر اثرات ہوئے ۔ شعبہ طب پر مرتب ہونے والے منفی اثرات پر سیاست کے بہترین اور سینئر کالم نگار ڈاکٹر مجید خاں نے پچھلے ماہ ’’تلنگانہ کے ڈاکٹروں کیلئے نیا ضابطۂ اخلاق‘‘کے عنوان سے لکھے اپنے مضمون تفصیلی جائزہ پیش کردیا ۔ لہذا اس موضوع پر ہم جیسے طفل مکتب کا کچھ اور کہنا چھوٹا منہ بڑی بات ہوگی ۔ لہذا ہم شعبۂ تعلیم میں اسٹار کلچر پر مختصراً اظہار خیال کر کے اپنی بات ختم کریں گے۔

1970 ء کی ابتدائی دہائی میں ز ندگی کے دیگر شعبوں کی طرح شعبہ تعلیم میں بھی اسٹار کلچر داخل ہوا۔ یہ ہمارے شہر میں آ بسے آندھرائی مہاجرین کی دین تھی ۔ شعبہ تعلیم میں اسٹار کلچر کی ابتداء خانگی اسکولس سے ہوئی ۔ پھر آہستہ آہستہ یہ سلسلہ آگے بڑھا۔ ماقبل آزادی ریاست حیدرآباد دکن سرکاری سطح پر ریاست میں تعلیم کا معقول و معیاری انتظام کر رکھا تھا بلکہ حیدرآباد دکن ملک کی وہ واحد ریاست تھی، جس نے ملک میں ایک ایسی یونیورسٹی قائم کی تھی جس کا ذریعہ تعلیم اردو تھا ۔ یہ یونیورسٹی تو آج بھی قائم ہے گو کہ اس کا ذریعہ تعلیم اب اُردو نہیں رہا ۔ اس زمانے میں ریاست حیدرآباد دکن کی سرکاری زبان بھی اردو ہی تھی ۔ یونیورسٹی کے قیام سے قبل ایک دارالترجمہ بھی قائم کیا گیا تھا ۔ اس دارالترجمہ نے دنیا بھر سے ہر شعبہ تعلیم کے نصاب کی ضرورت کی تمام کتابیں حاصل کر کے ان کا اردو ترجمہ کیا تاکہ اردو ذریعہ تعلیم کے ساتھ قائم کی گئی یہ جامعہ کے نصابی ضرورتوں کو پورا کیا جاسکے۔ اس سے شعبہ تعلیم کو معیاری بنانے اور ترقی دینے کی حکومتی کوشش کا اندازہ بھی ہوتا ہے ۔ آصفجاہی حکومت کی جانب قائم کئے ہوئے اسکولس اور جامعہ عثمانیہ ، اس سے ملحقہ دیگر تعلیمی اداروں سے طلباء و طالبات زیور تعلیم سے آراستہ ہوتے ۔ علم کی اس ٹکسال (جامعہ عثمانیہ ) سے ہر سال سینکڑوں کھرے سکے۔ ڈھل کر نکلتے جن میں ڈاکٹرز ، انجنیئرز ، سائنس ادب اور دیگر شعبہ جات کے ماہرین شامل ہوتے جو سماج کی ضرورتوں کو پورا کرتے۔

کسی بھی شعبہ کے اعلیٰ تعلیم یافتہ کو اس کی منزل تک لے جانے میں اس کی ابتدائی تعلیم کا بڑا دخل ہوتا ہے ۔ ہمارے تعلیمی شعبہ میں اسٹار کلچر در آنے سے قبل سارے تحتانیہ سے ہائی اسکول سارے تعلیمی ادارے سرکاری ہوا کرتے تھے ۔ بچے یہیں سے اپنی تعلیمی بنیاد مضبوط بناکر کالج یا جامعہ کا رخ کرتے تھے، لیکن آہستہ آہستہ ہمارے سرکاری تعلیمی ادارے اپنی ساکھ کھونے لگے ۔ روز بروز ان کا معیار گھٹتا گیا ۔ یہ محض حکومت کی لاپروائی تھی یا شعبۂ تعلیم میں اسٹار کلچر لانے والوں کی سازش تھی ۔ بہرحال ہمارے تعلیمی شعبہ میں اسٹار کلچر در آیا اور صورتحال یہ ہوگئی کہ اسٹار اسکولس کی ابتدائی کلاسس میں داخلہ حاصل کرنے کی فیس اتنی ہوگئی کہ اتنی رقم بھی تحتانیہ سے جامعہ کی تعلیم تک کے جملہ اخراجات بھی نہیں ہوتے تھے ۔ شعبہ تعلیم میں اسٹار کلچر کی یہ دین ساحلی آندھرا کے باشندوں کی تھی جس کا ایک سماجی خرابی میں شمار ہوتا ہے۔ ہم نے انہی سماجی خرابیوں اور علاقہ تلنگانہ کے ساتھ ناانصافیوں اور آندھرائی غلبہ کو ختم کرنے علحدہ ریاست کی مانگ کی اور ایک طویل جدوجہد کے بعد ہمیں علحدہ تلنگانہ حاصل ہوا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ آنے والی تلنگانہ حکومت پچھلے 60 سال میں علاقہ تلنگانہ کے عوام کے ساتھ ہوئی ناانصافیوں کا ازالہ ، ہمارے تہذیبی و ثقافتی اقدار کی بازیابی ، اسٹار کلچر سے پیدا ہوئی خرابیوں خصوصاً شعبہ طب و تعلیم کے دور کرنے کو یقینی بناتی ہے یا نہیں۔ ان محاذوں پر اگر نئی حکومت ناکام ہوتی ہے تو حصول تلنگانہ ہماری کامیابی نہیں، ہماری شکست کہلائے گی ۔ لہذا ہمیں ہر شعبہ میں انقلابی تبدیلی لانی ہو گی تاکہ ہمارے ترقی یافتہ تلنگانہ کی تصویر میں ماضی کے وہ سارے رنگ نظر آئیں جن پر ہمیں ناز ہے اور توجہ طلب امور کی اس فہرست میں شعبہ طب اور تعلیم میں بہتری اور ترقی کو اولین ترجیحی ملنی چاہئے کیونکہ ترقی کی بنیاد تعلیم ہے اور تعلیم کیلئے اچھی صحت ضروری ہے ۔

درسی کتابوں کی مفت تقسیم
ہر تعلیمی سال کے اختتام پر لاکھوں کی تعداد میںدرسی کتابیں بے کار ہوجاتی ہیں۔ پچھلے کئی برس بزم عثمانیہ جدہ طلباء سے مستعمل درس کتابیں حاصل کر کے ان ہی کلاسس میں آنے والے نئے طلباء میں مفت تقسیم کرتی ہے۔ اس سے والدین پر نئے تعلیمی سال پر اپنے بچوں کیلئے نئی کتابیں خریدنے کا بوجھ بھی نہیں پڑتا اور مجموعی طور پر قومی اور انڈین کلچرل سوسائٹی جدہ کی سطح پر ایک ابل لحاظ بچت بھی ہوتی ہے۔ بزم عثمانیہ جدہ تقلید کرتے ہوئے حیدرآباد اسوسی ایشن دمام نے انٹرنیشنل انڈین اسکول دمام کے طلباء سے استعمال شدہ درسی کتابیں حاصل کر کے مفت تقسیم کا سلسلہ شروع کیا ۔ اسوسی ایشن کے صدر مرزا ظہیر بیگ اور انجنیئر شجاع شریف کے ایک بیان کے مطابق اس مہم کے کنوینر محمد فیاض الدین جو دمام اسکول کی انتظامی کمیٹی کے سابق رکن بھی ہیں نے اسوسی ایشن کے دیگر اراکین عبدالوحید ، ڈاکٹر عبدالحئی خاں ، میر حیدر علی ، ایم عرفان الدین ، عبدالرؤف ، شجاع شریف اور محمد اسماعیل کے تعاون سے استعمال شدہ درس کتابیں جمع کیں۔ فیاض الدین نے پرانی کتابیں حاصل کرنے میں تعاون کیلئے والدین ، ٹیچرز اور طلباء کا شکریہ ادا ۔ اس سے ہزاروں کی تعداد میں کتابیں ضائع ہونے سے بچیں اور طلباء کے کام آئیں جس سے والدین پر مالی بوجھ بھی کم ہوا۔ صدر اسوسی ایشن نے اس اہم مقصد میں تعاون کرنے والے تمام افراد کا شکریہ ادا کیا اور اس بات پر یقین دلایا کہ اسوسی ایشن کمیونٹی کیلئے اپنی بہترین خدمات کا سلسلہ جاری رکھے گی۔
knwasif@yahoo.com