اسمبلی سے متصل اوقافی اراضی تحفظ پر اسمبلی میں کوئی آواز نہیں اٹھائی گئی

طویل اظہار خیال کا موقع بھی اکارت ثابت ، اسمبلی و کونسل کے بجٹ سیشن کا اختتام
حیدرآباد۔/31 مارچ، ( سیاست نیوز) تلنگانہ اسمبلی اور کونسل کے بجٹ سیشن کا آج اختتام عمل میں آیا لیکن دونوں ایوانوں کے اقلیتی نمائندوں میں سے کسی نے اسمبلی سے متصل اوقافی اراضی کے تحفظ پر آواز نہیں اٹھائی۔ اسمبلی میں گورنر کا خطبہ، بجٹ، مطالبات زر اور تصرف بل کے موقع پر ارکان کو طویل اظہار خیال کا موقع دیا جاتا ہے جس میں کئی ایک مسائل پر حکومت کی توجہ مبذول کرائی جاسکتی ہے۔ اقلیتی ارکان نے دونوں ایوانوں میں اوقاف سے متعلق بعض مسائل پیش کئے اور حکومت سے اوقافی اراضیات کے تحفظ کا مطالبہ کیا۔ دوردراز علاقوں اور اضلاع کی اوقافی جائیدادوں سے متعلق مسائل پیش کئے گئے لیکن حیرت ہے کہ اسمبلی کی عمارت سے متصل شاہی مسجد کی 3361 مربع گز اوقافی اراضی کے تحفظ کا کسی کو خیال نہیں آیا۔ اسمبلی اجلاس کے دوران ارکان نماز جمعہ شاہی مسجد میں ادا کرتے ہیں لیکن اسی مسجد کی اراضی کے تحفظ کیلئے انہوں نے آواز نہیں اٹھائی۔ بتایا جاتا ہے کہ مصلیان  مسجد کی جانب سے اس سلسلہ میں مسلم ارکان سے بارہا نمائندگی کی گئی اور انہیں تفصیلات بھی پیش کی گئیں۔ شاہی مسجد باغ عامہ جو وقف ریکارڈ میں مسجد عثمانیہ کے نام سے درج ہے 1921میں تعمیر کی گئی جس کے تحت 13811 مربع گز اراضی موجود ہے جس کی نشاندہی اے پی گزٹ نمبر 32-A مورخہ 30اگسٹ 1984میں درج ہے۔ دوسرے وقف سروے کے دوران اس بات کا انکشاف ہوا کہ مسجد کے تحت صرف 10499 مربع گز اراضی موجود ہے جبکہ 3361مربع گز اراضی پر ہارٹیکلچر ڈپارٹمنٹ کی جانب سے قبضہ کرلیا گیا ہے۔ حیرت تو اس بات پر ہے کہ مسجد کی اراضی پر ناجائز قبضہ کرتے ہوئے باقاعدہ حد بندی کردی گئی تاکہ یہ باور کیا جاسکے کہ حد بندی کے بعد یہ اراضی ہارٹیکلچر کی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ہارٹیکلچر کے ملازمین نے مسجد سے متصل ایک عارضی کمرہ تعمیر کرتے ہوئے اسے مندر میں تبدیل کرنے کی کوششوں کا آغاز کردیا ہے اور وہاں بتایا جاتا ہے کہ باقاعدہ روزانہ پوجا پاٹ کی جارہی ہے۔ ایسے وقت جبکہ مسجد کے مصلیان کی تعداد میں روز افزوں اضافہ ہورہا ہے مسجد کیلئے اراضی کی تنگی محسوس کی جارہی ہے۔ مصلیان مسجد نے بتایا کہ چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ کو بھی ایک مکتوب روانہ کیا گیا۔ جس علاقہ میں حد بندی کے ذریعہ عارضی کمرہ تعمیر کیا گیا وہاں امام اور مؤذن کے مکانات موجود ہیں۔ اس علاقہ میں چہل پہل اور رہائشی مکانات کے باوجود ہارٹیکلچر کے عہدیداروں نے اوقافی اراضی پر قبضہ کرلیا اور آج وہ اپنی اراضی قرار دے رہے ہیں۔ مذکورہ اراضی کی بازیابی کے ذریعہ وہاں پارکنگ، ٹائیلٹس اور وضو خانہ کا انتظام کیا جاسکتا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ وقف بورڈ نے ہارٹیکلچر حکام کو بارہا مشترکہ سروے کیلئے توجہ دلائی لیکن انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔ اسمبلی بجٹ سیشن کے دوران اگر مسلم ارکان اس مسئلہ کو ایوان میں پیش کرتے تو شاید چیف منسٹر اراضی کی بازیابی کے حق میں ہدایات جاری کرتے۔ مصلیان مسجد اس بات پر حیرت میں ہیں کہ ارکان کو کسانوں کے مسائل سے ہمدردی ہے لیکن اسمبلی سے متصل اوقافی اراضی کے تحفظ میں دلچسپی نہیں۔