اسمبلی الیکشن : کانگریس کا مستقبل ، بی جے پی کی ساکھ داؤ پر

کوشک دیکا
راجستھان، مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ میں آنے والے چار ہفتوں کے اندرون اسمبلی انتخابات مقرر ہیں۔ اہم نکتہ یہ ہے کہ مرکز میں برسراقتدار بی جے پی ہی ان تینوں ریاستوں میں بھی حکومت کررہی ہے اور دو جگہ (مدھیہ پردیش و چھتیس گڑھ) میں تو تین، تین میعادوں کی تکمیل ہورہی ہے۔ اتفاق سے تینوں ریاستوں میں بی جے پی کا راست مقابلہ کانگریس سے ہے جو اس ملک پر مختلف میعادوں میں مجموعی طور پر 55 سال حکمرانی کا ٹریک ریکارڈ رکھنے کے باوجود تلخ حقیقت ہے کہ اب صرف دو ریاستوں میں برسراقتدار ہے۔ چنانچہ راہول گاندھی زیرقیادت سب سے بڑی اپوزیشن پارٹی کیلئے یہ اسمبلی الیکشن ’’کرو یا مرو‘‘ جیسی صورتحال کا حامل ہے کیونکہ معقول حد تک یہی چناؤ 2019ء کے عام انتخابات (لوک سبھا) کیلئے ٹریلر کے مانند ہیں۔ آئندہ جنرل الیکشن کیلئے شاید ہندوستان کی انتخابی تاریخ میں پہلی مرتبہ اپوزیشن پارٹیاں اس طرح متحد ہورہی ہیں جس طرح اب دیکھنے میں آرہا ہے۔ شمال سے جنوب تک اور مشرق سے مغرب تک مختلف نظریات کی حامل قومی و علاقائی پارٹیاں کانگریس کی قیادت میں یکجا ہورہی ہیں۔ اس لئے کانگریس کیلئے ضروری ہے کہ وہ ان اسمبلی چناؤ میں بہت اچھا مظاہرہ کرے تاکہ لوک سبھا انتخابات میں دیگر اپوزیشن پارٹیاں اُس کے قائدانہ رول کو قبول کرسکیں!
ہندی پٹی والی تینوں ریاستوں راجستھان، ایم پی اور چھتیس گڑھ کے چناؤ کے تعلق سے جس طرح کا پرجوش ماحول بن رہا ہے وہ بلاشبہ یونہی نہیں ہے۔ 11 ڈسمبر کو جب نتائج آئیں گے تب لوک سبھا الیکشن کیلئے بمشکل چھ ماہ رہ جائیں گے، اور دو نیشنل پارٹیوں کانگریس اور بی جے پی کے انتخابی اعتماد اور مستقبل کے لائحہ عمل کی تصویر بڑی حد تک اُبھر جائیں گے۔ موجودہ طور پر تینوں ریاستوں میں برسراقتدار بی جے پی کا وہاں کی 65 لوک سبھا نشستوں کے منجملہ 62 پر قبضہ ہے۔ اگر برسراقتدار پارٹی ایک سے زیادہ ریاست میں ہار جائے تو اسے لوک سبھا چناؤ کیلئے اپنی حکمت عملی پر نظرثانی کرنے پر مجبور ہونا پڑے گا۔ ان ریاستوں میں انتخابی ساکھ میں گراوٹ بی جے پی کیلئے مہنگی پڑسکتی ہے، کیونکہ ملک کے مشرقی اور جنوبی حصے میں بی جے پی کا وجود ہنوز اطمینان بخش یا قابل لحاظ حد تک قائم نہیں ہوا ہے۔ لیکن اس سے کہیں زیادہ اہم بات یہ ہوگی کہ صدر کانگریس راہول گاندھی کے حصے میں آخرکار فتح آجائے گی اور اُن کی پارٹی احیاء کی سمت گامزن ہوگی۔
اگر برعکس نتیجہ برآمد ہو تو وزیراعظم نریندر مودی کے کرشمہ اور صدر بی جے پی امیت شاہ کی ابھی تک ناقابل شکست الیکشن مشینری کے تعلق سے عام رائے بہت مضبوط ہوجائے گی۔ ساتھ ہی کانگریس کے قومی سطح پر احیاء کے امکانات کو کاری ضرب پہنچے گی اور طاقتور اپوزیشن بننے اُس کی امیدیں ہوا ہوجائیں گی جبکہ وہ آئندہ سال مودی کے خلاف عظیم اتحاد قائم کرتے ہوئے مقابلے کا منصوبہ رکھتی ہے۔
ان اسمبلی چناؤ کا دلچسپ پہلو دونوں نیشنل پارٹیوں کے درمیان راست ٹکراؤ ہے۔ اس طرح کا آخری موقع ڈسمبر 2017ء میں مودی۔ شاہ کی آبائی ریاست گجرات میں آیا تھا ۔ وہاں کی انتخابی جنگ بہت سخت ثابت ہوئی۔ اگرچہ کانگریس بی جے پی کی پانچ میعادوں کے باوجود مخالف حکومت عنصر کا فائدہ اٹھانے میں ناکام ہوئی، لیکن اس نے برسراقتدار پارٹی کے بلندبانگ دعوؤں کو غلط ثابت کرتے ہوئے اسے 182 رکنی ایوان میں 100 سے نیچے تک گھٹانے میں کامیابی حاصل کی۔ مخالف حکومت عنصر پھر ایک بار اسمبلی چناؤ کا سامنا کرنے والی تینوں ریاستوں میں اہم نکتہ ہے۔ موجودہ طور پر راجستھان میں وسندھرا راجے، ایم پی میں شیوراج سنگھ چوہان، اور چھتیس گڑھ میں رمن سنگھ چیف منسٹر ہیں۔ حکومت کے خلاف عوامی جذبات کا عنصر بالخصوص راجستھان میں بڑا خطرہ ہے جہاں وسندھرا تینوں چیف منسٹروں میں واحد ہیں جنھیں ابھی تک متواتر میعاد حاصل نہیں ہوئی ہے۔ راجستھان میں ایک کے بعد دیگر کے اقتدار کی لمبی تاریخ ہے۔
چھتیس گڑھ میں رمن سنگھ جو 2003ء سے برسراقتدار ہیں، انھیں کوئی بھی نامور لیڈر سے عاری کانگریس کا سامنا ہے، حالانکہ ماضی میں معمولی فرق سے کامیابی بلاشبہ بی جے پی کیلئے تشویش کا پہلو رہے گی۔ تاہم، اس ریاست کے نتائج دونوں پارٹیوں کی مرکزی قیادت کو فکر میں نہیں ڈالیں گے کیونکہ وہاں سے لوک سبھا میں صرف 11 ارکان آتے ہیں۔ لہٰذا، زیادہ تر توجہ بدستور چوہان پر ہوگی جو چوتھی لگاتار میعاد حاصل کرنے کوشاں ہیں۔
ملک کی تمام ریاستوں میں سے اُبھرنے والے بی جے پی کے طاقتور لیڈروں میں شامل ’مدھیہ پردیش کے ماما‘ جیسا کہ چوہان معروف ہیں، انھیں اپنے سیاسی کریئر کی سخت ترین آزمائش کا سامنا ہے۔ ظاہر طور پر منقسم کانگریس شاید چوہان کیلئے معاملے کو آسان بنادے، لیکن لمحہ آخر کے مجبوری والے سیاسی اعلانات سے بی جے پی کے ویٹرن لیڈر کی مایوسی جھلکتی ہے، حالانکہ اُن پر مودی کو بہت بھروسہ ہے۔ پھر بھی اپنے دو ساتھی چیف منسٹروں کی طرح چوہان بھی مودی کی انتخابی مہم پر انحصار کریں گے، جس سے بلاشبہ دیگر ریاستوں میں انتخابی نتائج میں الٹ پھیر ہوا ہے۔ چنانچہ ان تینوں ریاستوں میں فتح اور شکست کے درمیان وزیراعظم بڑا فرق بننے کے غالب امکان کے پیش نظر راہول نے اپنے ریالیوں میں مودی اور اُن کی پالیسیوں کو نشانہ بنایا اور موجودہ چیف منسٹروں پر زیادہ توجہ نہیں دی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ 11 ڈسمبر نریندر مودی کی لگاتار کامیابیوں کے بعد مستقبل کے تعلق سے ریفرینڈم کی تاریخ کے مانند ہے!
بہرحال بی جے پی کی طرف سے انتخابی مہم کی قیادت بدستور وزیراعظم مودی کریں گے اور صدر پارٹی امیت شاہ پارٹی ورکرس کے کمانڈر ہوں گے۔ مودی کی سیاسی چالیں تو آنے والے دنوں میں دیکھنے میں آئیں گی لیکن امیت کی حکمت عملی بہت پہلے سے کام کررہی ہے۔ چھتیس گڑھ میں انھیں نمایاں کامیابی ملی جہاں ’مہاگٹھ بندھن‘ ٹوٹ گیا جیسا کہ مایاوتی کی بی ایس پی نے کانگریس سے ناراضگی ظاہر کرتے ہوئے اسی پارٹی کے باغی لیڈر اجیت جوگی کی پارٹی کے ساتھ انتخابی اتحاد کرلیا۔ اس طرح وہاں مسابقت تین رخی بنانے کی کوشش ہوئی جس نے رمن سنگھ کا راستہ یقینا آسان کردیا۔ پھر بھی جیسا کہ واضح کیا جاچکا ہے چھتیس گڑھ کی لوک سبھا میں کم عددی طاقت ہونے کی وجہ سے کانگریس اس ریاست کے اسمبلی الیکشن کے تعلق سے بہت زیادہ فکرمند نہیں ہوگی اور اگر ابھی کہہ دیا جائے کہ وہ چھتیس گڑھ میں ناکام اور راجستھان و مدھیہ پردیش کامیاب ہوسکتی ہے تو راہول کی پارٹی خوشی سے جھوم اُٹھے گی!
مرکزی حکومت نے تینوں ریاستوں میں انتخابی شیڈول کے اعلان سے عین قبل کئی بہبودی اور انفراسٹرکچر سے متعلق اسکیمات پیش کرتے ہوئے اپنی طرف سے اسمبلی الیکشن میں پارٹی کے امکانات کو مضبوط کرنے کی پوری کوشش کی ہے۔ تاہم، بی جے پی کو راجستھان کیلئے مزید بہتر حکمت عملی اختیار کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ تینوں میں سے یہی ریاست میں پارٹی کو زیادہ مسائل کا سامنا ہے۔ چیف منسٹر وسندھرا کو اپنے دیگر دو ساتھی ہم منصب لیڈروں کے مقابل شدید مخالف حکومت عنصر درپیش ہے ۔ راجستھان کی انتخابی تاریخ بھی ملحوظ رکھنا چاہئے؛ جہاں اقتدار کانگریس اور بی جے پی کے درمیان باری باری تبدیل ہوتا رہا ہے جبکہ دیگر دو ریاستوں میں زعفرانی پارٹی 15 سال سے برسراقتدار ہے۔ علاوہ ازیں ایم پی اور چھتیس گڑھ میں بی جے پی یونٹس متحدہ ہیں جنھیں منقسم اپوزیشن کا سامنا ہے۔ ایم پی میں سینئر کانگریس قائدین کمل ناتھ، جیوتیر ادتیہ سندھیا اور ڈگ وجئے سنگھ نے شاید اپنی انتخابی حکمت عملی کو عملاً پیچیدہ بنالیا ہے۔ درحقیقت، ڈگ وجئے تو ناراض معلوم ہوتے ہیں۔ دوسری طرف چوہان کو اسٹیٹ بی جے پی یونٹ پر مکمل کنٹرول حاصل ہے۔ چھتیس گڑھ میں رمن سنگھ کی اتھارٹی بدستور قائم ہے۔ جوگی کی ڈرامائی سیاست نے بی جے پی کا کام آسان تر بنایا ہے۔
راجستھان میں بی جے پی یونٹ میں داخلی خلفشار دکھائی دے رہا ہے۔ وسندھرا کو پارٹی کے قومی نائب صدر اوم ماتھر کے ساتھ ساتھ مرکزی وزیر زراعت گجیندر سنگھ شیخاوت کی مخالفت کا سامنا ہے۔ شیخاوت کے خلاف تو انھوں نے جارحانہ روش اختیار کی جب گزشتہ اپریل میں امیت شاہ نے انھیں اسٹیٹ پارٹی چیف مقرر کرنے کی تجویز رکھی تھی۔ وسندھرا نے شدت سے مخالفت کی اور پارٹی کی مرکزی قیادت کو شیخاوت کا تقرر منسوخ کرنا پڑا۔ مجموعی طور پر کانگریس کی راجستھان اور بی جے پی کی مدھیہ پردیش و چھتیس گڑھ میں کامیابی کے امکانات نظر آتے ہیں۔ عوامی رجحان میں لمحہ آخر میں تبدیلی مدھیہ پردیش کے تعلق سے ہونے کا امکان بھی ہے۔