اسمبلی اجلاس ہنگامہ خیز ہونے کے آثار

محمد نعیم وجاہت
تلنگانہ قانون ساز اسمبلی کا 5 نومبر سے شروع ہونے والا پہلا بجٹ اجلاس ہنگامہ خیز ہوسکتا ہے۔ ایک طرف اپوزیشن جماعتیں ٹی آر ایس حکومت کو مختلف عوامی مسائل پر جھنجھوڑنے کی تیاری کر رہی ہیں اور دوسری طرف چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ مختلف سیاسی جماعتوں کے ارکان اسمبلی کو ٹی آر ایس میں شامل کرکے اپوزیشن جماعتوں کے حوصلے پست کر رہے ہیں۔ اس وقت تلنگانہ عوام کی نظریں اسمبلی اجلاس پر ٹکی ہوئی ہیں، کیونکہ علحدہ ریاست کی تشکیل کے بعد عوام نے ٹی آر ایس کو حکومت سازی کا موقع فراہم کیا ہے اور ٹی آر ایس اقتدار کے پانچ ماہ بھی مکمل کرچکی ہے۔ ان پانچ مہینوں کے دوران عوام کئی مسائل سے دو چار ہوئے ہیں، جن کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ حکومت کے بھی اپنے کچھ مسائل ہیں۔ حکومت کا ادعا ہے کہ عہدہ داروں کی تقسیم میں ہونے والی تاخیر اہم فیصلوں پر عمل آوری میں رکاوٹ بن رہی ہے۔ اگر یہ بات تسلیم بھی کرلی جائے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ حکومت عوامی مسائل کو یکسر نظرانداز کردے۔ ٹی آر ایس نے اپنے انتخابی منشور میں کسانوں کے ایک لاکھ روپئے تک کے زرعی قرض معاف کرنے کا اعلان کیا تھا، تاہم پانچ ماہ گزرنے کے بعد بھی اس پر عمل آوری نہیں ہوسکی۔ اسی طرح علحدہ تلنگانہ کی تشکیل کے بعد تلنگانہ کے لئے برقی بحران کا اندیشہ تھا اور اس سے ٹی آر ایس واقف بھی تھی، لیکن مرکزی حکومت نے تقسیم ریاست کے بل میں تمام چیزیں تلنگانہ اور آندھرا پردیش کے لئے آبادی کے تناسب سے تقسیم کردیا تھا اور برقی کے معاملے میں تلنگانہ کو زیادہ اہمیت دے کر 54 فیصد برقی تلنگانہ کے لئے مختص کی ہے۔ یعنی سب کچھ معلوم ہونے کے باوجود چیف منسٹر تلنگانہ نے برقی بحران پر قابو پانے کے لئے پہلے سے کوئی حکمت عملی نہیں تیار کی۔ اس معاملے میں چیف منسٹر آندھرا پردیش چندرا بابو نائیڈو دُور اندیش ثابت ہوئے۔ انھوں نے اپنی ریاست میں برقی قلت پر قابو پانے کے لئے پہلے سے دوسری ریاستوں سے برقی خریدنے کا معاہدہ کرلیا اور انھیں ساڑھے پانچ روپئے فی یونٹ کی شرح سے برقی دستیاب ہوئی، جب کہ چیف منسٹر تلنگانہ کے چندر شیکھر راؤ نے برقی خریدنے میں تاخیر کی اور انھیں 8 روپئے فی یونٹ کے حساب سے برقی دستیاب ہونے کا امکان ہے۔ چیف منسٹر تلنگانہ برقی خریدنے کے لئے 2 نومبر کو چھتیس گڑھ روانہ ہو رہے ہیں، جہاں وہ ایک ہزار میگاواٹ برقی خریدنے کا معاہدہ کریں گے۔

کسانوں کی خودکشی کے واقعات حکومت کے لئے درد سر بنے ہوئے ہیں، تمام اپوزیشن جماعتیں اس مسئلہ پر حکومت کو گھیرنے کی تیاری کر رہی ہیں۔ کانگریس نے کسانوں میں اعتماد بحال کرنے کے لئے ’’بھروسہ یاترا‘‘ کا آغاز کیا، جب کہ تلگودیشم نے بس یاترا کا اہتمام کیا۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اب تک 150 کسانوں نے خودکشی کی ہے، جب کہ اپوزیشن جماعتیں 300 سے زائد کسانوں کی خودکشی کا ادعا کر رہی ہیں۔ علاوہ ازیں فیس باز ادائیگی، اسکالر شپس اور عثمانیہ یونیورسٹی کے طلبہ کا احتجاج بھی اسمبلی میں موضوع بحث بن سکتا ہے۔ اسی طرح مقامی (لوکل) کا مسئلہ بھی اب تک حل نہیں ہوا۔ شادی مبارک اسکیم، 12 فیصد مسلم اور ایس ٹی تحفظات، غریب عوام کے لئے گھروں کی تعمیر، ایس سی طبقات کے لئے 3 ایکڑ اراضی، گھر گھر ملازمت کی فراہمی کے علاوہ دیگر مسائل بھی ٹی آر ایس حکومت کے لئے بہت بڑا چیلنج ثابت ہو رہے ہیں۔ ان مسائل پر تعمیری مباحث ہوں گے یا نہیں؟ یا پھر اسمبلی کا اجلاس اپنی روایتی تاریخ دہرائے گا، یعنی عوامی مسائل پر بحث کی بجائے، سیاسی مفادات کا پلیٹ فارم بن جائے گا۔

حکومت اور اپوزیشن جماعتوں کے تیور دیکھ کر یہ اندازہ ہوتا ہے کہ اسمبلی کا اجلاس ہنگامہ خیز ہوگا۔ اسمبلی میں حکمراں ٹی آر ایس کو مکمل اکثریت حاصل ہے، لہذا کسی بھی بل یا قانون سازی میں حکومت کو کوئی پریشانی نہیں ہوگی۔ اگر اپوزیشن جماعتیں نظریاتی اختلافات سے بالاتر ہوکر سب کے سب حکومت کے خلاف ہو جائیں اور بل یا قانون کی مخالفت کرتے ہوئے رائے دہی کا مطالبہ کریں، تب بھی حکومت پر کوئی فرق پڑنے والا نہیں ہے، یعنی اسمبلی میں وہی ہوگا، جو ٹی آر ایس حکومت چاہے گی۔ چیف منسٹر تلنگانہ کے چندر شیکھر راؤ نے ایسی حکمت عملی تیار کی ہے کہ اپوزیشن جماعتیں روز بروزکمزور ہوتی جا رہی ہیں۔ 2 جون تا 30 اکتوبر کے درمیان کانگریس، تلگودیشم، بی ایس پی اور وائی ایس آر کانگریس کے 10 ارکان اسمبلی نے حکمراں ٹی آر ایس میں شامل ہوکر چیف منسٹر تلنگانہ کے ہاتھوں کو مزید مستحکم کیا ہے اور اب 5 نومبر تک مختلف جماعتوں کے مزید ارکان اسمبلی کی ٹی آر ایس میں شمولیت کی افواہیں گشت کر رہی ہیں، جس کی وجہ سے اپوزیشن جماعتوں کے کیمپس میں مایوسی چھائی ہوئی ہے۔

یوں تو اپوزیشن جماعتیں چند ارکان کے مستعفی ہونے پر کوئی فرق نہ پڑنے کا ادعا کر رہی ہیں، مگر ذہنی طورپر سب کی سب متاثر ہوئی ہیں۔ 5 ماہ قبل تک تلنگانہ قانون ساز کونسل میں کانگریس کو اکثریت حاصل تھی، تاہم کانگریس کے 9 اور تلگودیشم کے چند ارکان نے ٹی آر ایس میں شمولیت اختیار کرکے کانگریس کو اقلیت اور ٹی آر ایس کو اکثریت میں پہنچا دیا۔ اپوزیشن جماعتوں کے قلعوں میں دراڑ ڈالنے کا کام ریاستی وزیر آبپاشی ہریش راؤ انجام دے رہے ہیں۔ تمام سیاسی جماعتوں کے قائدین سے ہریش راؤ کے خوشگوار تعلقات ہیں، انھوں نے ٹی آر ایس کے استحکام میں کلیدی رول ادا کیا ہے۔ اب وہ حکومت کو مستحکم اور اپوزیشن جماعتوں کو کمزور کرنے کے مشن پر کام کر رہے ہیں اور اس میں کامیاب بھی ہو رہے

حالیہ دنوں میں برقی اور پانی کے مسئلہ پر تلنگانہ اور آندھرا پردیش کی حکومتیں صف آرا ہو چکی تھیں، یہاں تک کہ یہ معاملہ گورنر تک پہنچ گیا تھا، تاہم قدرت کی مہربانی سے نیلوفر طوفان نے اس جنگ کو طول نہیں پکڑنے دیا۔ اس طوفان کا اثر آندھرا پردیش اور تلنگانہ میں تو نہیں رہا، تاہم گجرات، مہاراشٹرا اور کرناٹک میں ہونے والی بارش نے آندھرا پردیش کے لئے پانی اور تلنگانہ کے برقی مسئلہ کو کسی حد تک دُور کردیا۔ تلنگانہ حکومت برقی کی فراہمی کے معاملے میں تلنگانہ کے ساتھ ناانصافی کا الزام عائد کرتے ہوئے سری سلم میں برقی پیداوار جاری رکھے ہوئے تھی، جب کہ آندھرا پردیش حکومت نشانہ سے زائد برقی پیدا کرنے، پانی کے ضیاع اور رائلسیما کے ساتھ ناانصافی کا تلنگانہ حکومت پر الزام عائد کر رہی تھی۔ دونوں حکومتوں نے اس مسئلہ کو راج بھون سے رجوع کیا اور مرکزی حکومت نے گورنر سے رپورٹ طلب کرکے تنازعہ کی یکسوئی کے لئے کرشنا آبی ٹریبونل کو دونوں ریاستوں کے چیف منسٹرس سے تبادلۂ خیال کا حکم دیا، جس نے دو دن تک ریاستوں کے چیف سکریٹریز اور اعلیٰ عہدہ داروں سے تبادلۂ خیال کے بعد اپنا فیصلہ سنایا۔
اس طرح کے کئی عوامی مسائل ہیں، جن پر اسمبلی میں مباحث کا امکان ہے۔ مسائل کو موضوع بحث بنانے میں اپوزیشن جماعتیں کس حد تک کامیاب ہوں گی اور ان مسائل کو حل کرنے کے لئے حکومت کو مجبور کرتی ہیں یا پھر حکومت کے بچھائے ہوئے جال میں پھنس کر وقت ضائع کرتی ہیں؟ یہ تو آنے والا وقت بتائے گا۔ حکومت کا موقف طاقتور ہے، مگر اپوزیش جماعتیں وقت ضائع کئے بغیر عوامی مسائل پر کتنی توجہ دے سکیں گی؟ کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا۔ اسمبلی کے ساتھ کونسل کا بھی مشترکہ اجلاس منعقد ہو رہا ہے۔ 5 نومبر کو اسمبلی میں ریاستی وزیر فینانس ای راجندر عام بجٹ پیش کریں گے، جب کہ کونسل میں ڈپٹی چیف منسٹر راجیا بجٹ پیش کریں گے۔