اسلام کی فطرت میں قدرت نے لچک دی ہے

نیوزی لینڈ کی مساجد میں دہشت گرد حملے
اسلام کے فروغ سے بوکھلاہٹ … حوصلے پست کرنے کی سازش

رشیدالدین
اسلام دنیا کا وہ واحد مذہب ہے جس نے عصر حاضر میں اپنے فطری ہونے کو ثابت کیا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام کی حقانیت قبول کرنے اور اس کی آغوش میں دنیا و آخرت کی بھلائی اور نجات حاصل کرنے کے لئے انسانیت بے چین ہے۔ اسلام کی بڑھتی مقبولیت اور اس کے فروغ سے بوکھلاہٹ کا شکار عناصر دنیا بھر میں مخالف مہم میں مصروف ہیں۔ کبھی اسلام کو دہشت گردی سے جوڑ دیا جاتا ہے تو کبھی اسلام کے ماننے والوں پر دہشت گردی کا لیبل لگادیا جاتا ہے ۔ اسی مذموم سازش کا نتیجہ ہے کہ مغربی ممالک میں مسلمانوں اور مساجد پر حملوں کے واقعات پیش آرہے ہیں۔ نیوزی لینڈ کی دو مساجد میں نماز جمعہ کے موقع پر دہشت گرد حملہ اسلام سے نفرت کا واضح ثبوت ہے۔ آسٹریلیا سے تعلق رکھنے والے دہشت گردوں نے عین نماز کے موقع پر وحشیانہ کارروائی کرتے ہوئے اندھا دھند فائرنگ کردی۔ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق جاں بحق ہونے والے افراد کی تعداد 50 سے تجاوز کرچکی ہے جبکہ کئی موت و زیست کی لڑائی لڑ رہے ہیں۔ اس حملہ میں بعض ہندوستانی تارکین وطن کے جاں بحق ہونے کی اطلاعات ملی ہیں۔ یوں تو دنیا بھر سے اس واقعہ کی مذمت کی جارہی ہے اور ہونی بھی چاہئے کیونکہ ایسے مذہب کے ماننے والوں پر حملہ کیا گیا جس نے امن ، بھائی چارہ ، اخوت اور رواداری کی تعلیم دی ہے ۔ اسلام کی یہی تعلیمات انسانیت کو اس کی طرف مقناطیسی طاقت کی طرح کھینچ رہی ہیں۔ دنیا بھر میں جس تیزی سے اسلام پھیل رہا ہے اسے روکنے کیلئے حملوں کا سہارا وقتاً فوقتاً لیا جاتا ہے ۔ کبھی نسل پرستی کے نام پر حملے تو کبھی پردہ کرنے والی خواتین کو نشانہ بنانے کے واقعات مغربی دنیا میں معمول بنتے جارہے ہیں۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ اسلام اور مسلم دشمن طاقتیں کون ہیں۔ افسوس کی بات ہے کہ یہ وہی طاقتیں ہیں جو مسلم اور اسلامی ممالک سے دوستی کا دم بھرتے ہیں اور اپنے مفادات کی تکمیل کر رہے ہیں۔ مسلم دنیا آخر ان سازشیوں کو کب پہچانے گی اور ان کی سرپرستی کرنا بند کب ہوگا ۔ مغربی ممالک کی طرح ہندوستان میں بھی اسلام کو دیگر مذاہب کیلئے خطرہ کے طور پر پیش کیا جاتا ہے اور اسلام اور مسلمانوں کو دہشت گردی سے جوڑنا فرقہ پرست طاقتوں کیلئے فیشن بن چکا ہے ۔ یہ طاقتیں دنیا بھر میں آپسی تال میل سے کام کر رہی ہے ۔ انہیں یہ بات جان لینی چاہئے کہ اسلام کے تحفظ کا ذمہ خود اللہ تعالیٰ نے لیا ہے اور باطل طاقتوں کی پھونکوں سے اس چراغ کو بجھایا نہیں جاسکتا۔ نیوزی لینڈ کے دہشت گرد کے بارے میں یہ دلچسپ انکشاف ہوا کہ وہ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کا پرستار ہے۔ ظاہر ہے کہ ٹرمپ کا پرستار اور وہ مخالف اسلام نہ ہو ، یہ کیسے ممکن ہے۔ امریکی صدارت کی انتخابی مہم کے دوران اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ٹرمپ کے بیانات آج بھی امریکی عوام کے کانوں میں گونج رہے ہیں۔ ٹرمپ کے علاوہ اور بھی کئی عالمی قائدین ایسے ہیں جو اسلام دشمنی میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ان کے ممالک میں اسلامی تعلیمات پر عمل آوری روکنے کیلئے مختلف تحدیدات عائد کی جارہی ہیں۔ مساجد میں اذان پر پابندی کے واقعات بھی منظر عام پر آئے۔ حملہ آور دہشت گرد نے سوشیل میڈیا پر اس کارروائی سے متعلق منشور جاری کیا جس میں اس کا کہنا ہے کہ وہ 2011 ء کو ناروے میں 77 افراد کو ہلاک کرنے کے واقعہ سے متاثر ہوا ہے ۔ اس نے یہ اعتراف کیا کہ وہ مسلمانوں سے نفرت کرتا ہے اور ان سے بھی جو اسلام میں شامل ہورہے ہیں۔ حملہ آور اسلام قبول کرنے والے عیسائیوں کو ’’خونی غدار‘‘ تصور کرتا ہے۔ اس کی ذہنیت سے آخری درجہ کی نفرت ظاہر ہورہی ہے ۔ نیوزی لینڈ جیسے دہشت گردی کے واقعات سے اسلام کو کمزور نہیں کیا جاسکتا لیکن یہ نادان ان واقعات کے ذریعہ اسلام اور اس کے ماننے والوں کا صفایا چاہتے ہیں۔ دہشت گردی کے نام پر مسلم ممالک میں جو جنگ چھیڑی گئی ہے، اس کا واحد مقصد اسلام اور مسلمانوں کو نشانہ بنانا ہے ۔ اسلام کی 1400 سالہ تاریخ قربانیوں سے بھری پڑی ہے اور جب کبھی اسلام پر کٹھن وقت آیا تو اسلام پسندوں نے اپنی قیمتی جانوں کو دین حق کی سربلندی کیلئے قربان کردیا۔ حضور اکرم ﷺ کے دور میں پیش آئے حق اور باطل کے معرکہ اور غزوات سے لیکر کربلا تک مسلمانوں کی قربانیوں کا ایک تسلسل ہے ۔ لہذا نیوزی لینڈ دہشت گردی جیسے واقعات سے اسلام پسندوں کے حوصلوں کو پست نہیں کیا جاسکتا۔ اسلام کی روشنی وہاں بھی موجود ہے جہاں سورج کی روشنی کئی دن تک نہیں دکھائی دیتی۔ اسلام کا یہ سفر رکنے والا نہیں اور دہشت گردی کے ذریعہ مسلمانوں کا خون بہانے سے فروغ اسلام کو روکنے کا تصور کرنا محض خام خیالی ہے ۔ نیوزی لینڈ کے حملہ میں جو نمازی شہید ہوئے ہیں، ان کے خون کا ہر قطرہ اسلام کی سربلندی میں اہم رول ادا کرے گا۔ نیوزی لینڈ کے واقعہ نے عالمی قائدین اور میڈیا کے دوہرے معیارات کو بھی بے نقاب کردیا ہے۔ دو مساجد میں اندھا دھند فائرنگ کے ذریعہ نمازیوں کو ہلاک کرنے والے مجرم کو ’’دہشت گرد‘‘ کہنے سے گریز کیا جارہا ہے اور اسے محض ’’شوٹر‘‘ یعنی فائرنگ کرنے والے کا نام دیا گیا۔ اگر کوئی مسلمان یہ حرکت کرتا تو عالمی قائدین اور میڈیا اسے دہشت گرد قرار دیتے ہوئے اس کی تنظیم اور اس سے تعلق رکھنے والے افراد کا بھی پتہ چلانے کا دعویٰ کرتے۔ کسی نہ کسی طرح اس کا تعلق دہشت گرد تنظیم IS سے جوڑ دیتے لیکن یہاں ایک حملہ آور نے درجنوں افراد کو گولیوں سے چھلنی کردیا پھر بھی اسے دہشت گرد قرار دینے میں عالمی قائدین اور میڈیا شرما رہا ہے ۔ اگر کوئی مسلمان چاقو کے ساتھ بھی دوسرے فرقہ پر حملہ کرے تو مغربی دنیا اسے دہشت گرد قرار دیتی ہے اور وہاں کی پولیس گولیوں سے بھوننے میں فخر محسوس کرے گی لیکن نیوزی لینڈ کے قاتلوں پر پولیس نے گولی نہیں چلائی بلکہ گرفتار کرلیا گیا۔ ہوسکتا ہے کہ بعد میں اسے پاگل یا جنونی قرار دیکر واقعہ کی اہمیت اور اس کے پس پردہ سازش کو بے نقاب ہونے سے روک دیا جائے۔ دنیا کی دو عملی اور دوہرا معیار آخر کب تک برقرار رہے گا ۔ اسلام اور مسلمانوں پر لاکھ حملے ہوں لیکن یہ شعر مسلمانوں کی ہمیشہ حوصلہ افز ائی کرتا رہے گا ؎
اسلام کی فطرت میں قدرت نے لچک دی ہے
اتنا ہی وہ ابھرے گا جتنا کہ دباؤ گے

لوک سبھا چناؤ …
اپوزیشن کا قومی اتحاد کہاں
ملک میں عام انتخابات کا بگل بج گیا اور سیاسی پارٹیاں امیدواروں اور انتخابی حکمت عملی کو قطعیت دینے میں مصروف ہوچکی ہیں۔ ہر پانچ سال میں ایک موقع ایسا آتا ہے جب عوام حقیقی معنوں میں بادشاہ گر کے موقف میں ہوتے ہیں ۔ ایک ماہ تک امیدوار اور سیاسی قائدین در در کی خاک چھانتے پھرتے ہیں۔ رائے دہندوں کے گھر گھر جاکر ہاتھ جوڑ کر منت سماجت کی جاتی ہے، اسے جمہوریت کی خوبی کہا جائے گا کہ عام دنوں میں غریبوں کے درمیان رہنے کو عار سمجھنے والے قائدین الیکشن میں غریبوں کو گلے لگانے پر مجبور ہوتے ہیں۔ جن غریب بستیوں کی طرف دیکھنا تک پسند نہیں کرتے الیکشن کے دوران منہ پر دستی لگاکر سہی گھومتے دکھائی دیتے ہیں۔ عوام کا حافظہ کمزور ہوتا ہے اور بھولے بھالے عوام بھول جاتے ہیں کہ 4 سال 11 ماہ تک انہیں سیاسی قائدین کی حویلی نما مکانات کے چکر کاٹنے اور سیکوریٹی کے دھکے کھانے پر مجبور ہونا پڑتا ہے ۔ جن کو ووٹ دے کر منتخب کیا تھا ، وہی رائے دہندوں کیلئے انجان اور بیگانے بن جاتے ہیں۔ چمچماتی ایرکنڈیشنڈ گاڑیوں میں گھوم کر 5 سال تک عوام کے ووٹ پر راج کرنے والے قائدین میں تبدیلی آخر کب آئے گی ۔ جب تک عوام باشعور نہ ہوں ، اس وقت تک سیاستدانوں کو جوابدہ نہیں بنایا جاسکتا ۔ الیکشن کمیشن نے 11 اپریل تا 19 مئی جملہ 7 مراحل میں لوک سبھا انتخابات کی رائے دہی کا فیصلہ کیا ہے ۔ پہلے مرحلہ کے بعد ایک ماہ سے زائد تک عوام کو نتائج کیلئے انتظار کرنا پڑے گا ۔ انتخابات کے اعلان کے ساتھ ہی دل بدلو اور آیا رام گیا رام قائدین اپنی سیاسی وفاداری تبدیل کرتے ہوئے میڈیا کی سرخیوں میں دکھائی دے رہے ہیں۔ سیاسی پارٹیاں اپنے حلیفوں کو تلاش کرنے لگی ہیں۔ سیاسی وفاداری کی تبدیلی ہو یا پھر نئے حلیفوں کی تلاش، وقت گزرنے کے ساتھ اصول پسندی کا خاتمہ ہونے لگا۔ سیاسی اتحاد بننے اور بگڑنے کے لئے اصول پسندی کی جگہ موقع پرستی اور مفاد پرستی نے لے لی ہے ۔ جیسے جیسے انتخابات کا مرحلہ قریب آئے گا، موقع پرست قائدین بے نقاب ہوتے رہیں گے ۔ سیاست میں انحطاط کی اہم وجہ یہ ہے کہ سیاست جو کبھی عوام کی خدمت کا ذریعہ تھا، اسے دولت کمانے یا پھر کالے دھن کو بچانے کیلئے استعمال کیا جانے لگا۔ لوک سبھا انتخابات میں اصل مقابلہ بی جے پی اور کانگریس کے درمیان ہے اور دونوں کے اپنے اپنے علحدہ محاذ ہیں ۔ پارلیمنٹ میں واضح اکثریت کے باوجود بی جے پی نے این ڈی اے کے تمام حلیفوں کو اپنے ساتھ برقرار رکھا ہے ۔ دوسری طرف اپوزیشن جماعتوں کے قومی محاذ کے قیام کی کوششیں ناکام ثابت ہوئیں۔ غیر بی جے پی جماعتوں کے قومی اتحاد کیلئے دہلی اور کولکتہ میں ریالیوں کے ذریعہ طاقت کا مظاہرہ کیا گیا لیکن افسوس کہ یہ مظاہرہ اتحاد میں تبدیل نہ ہوسکا۔ ممتا بنرجی اور چندرا بابو نائیڈو نے اپوزیشن اتحاد کی مساعی کی لیکن ریاست میں مضبوط علاقائی جماعتوں میں ماقبل انتخابات اتحاد کے بجائے مابعد نتائج اتحاد کی وکالت کی۔ حالانکہ ایسی صورت میں مخالف بی جے پی ووٹ کی تقسیم کا خطرہ برقرار رہے گا۔