اسلام کو بدنام کرنے داعش کی کوششیں

ظفر آغا
اسلامی عقیدہ یہ ہے کہ ’’تمہارے لئے تمہارا دین، میرے لئے میرا دین‘‘۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی حملہ نہیں کیا، بلکہ ہمیشہ دفاعی جنگ لڑی۔ اسلام دنیا کا پہلا نظام ہے، جس نے دنیا کو اخوت کا پیغام دیا۔ اسلام دنیا کا پہلا مذہب ہے، جس نے عورت کو خلع کا حق دیا۔ مسلم خاتون کو شریعت اسلامی نے مال و دولت میں حصہ دار بنایا۔ اسلام ہی ایک ایسا مذہب ہے، جس نے اللہ اور بندوں کے درمیان سے ہر قسم کے راہب، پنڈت اور درمیانی لوگوں کا خاتمہ کردیا۔ یہ ہے نچوڑ اسلام کا، جس کا رب رحیم اور جس کے رسول کریم ہیں، جنھوں نے دنیا میں ہر انسان (بشمول خواتین) کو برابری کا درجہ دیا۔ یعنی اسلام نے انسانیت کو آزادی اور اخوت کی ایسی منزل تک پہنچایا، جس کا تصور اسلام سے قبل نہیں پایا جاتا تھا۔ تب ہی تو پورے قرون وسطیٰ میں مسلمان سُپر پاور بنے رہے اور اسلام کا ڈنکا ہر سو بجتا رہا۔ لیکن آج اسی اسلام اور مسلمانوں کو دہشت سے جوڑا جا رہا ہے۔ آج محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کی جا رہی ہے۔ آج اسلامی معاشرے میں اخوت و محبت کا نام و نشان مٹ چکا ہے۔ آج اسلامی خلافت کے نام پر بے قصور افراد کے گلے کاٹے جا رہے ہیں۔ آج بوکو حرام جیسی تنظیمیں عورتوں اور لڑکیوں کو اس لئے اغوا کرکے قیدی بنا رہی ہیں کہ وہ تعلیم حاصل کرنے کی جرأت کر رہی ہیں۔ یعنی آج سارے عالم اسلام میں جمہوریت کا کوئی اثر باقی نہیں رہا۔ مسلمانوں کا وہ دور ختم ہوا، جب خلیفہ کا انتخاب جمہوری طرز پر ہوا کرتا تھا۔ آج کا خود ساختہ خلیفہ ابوبکر البغدادی کی طرح دہشت اور ہتھیاروں کے بل پر مسجد میں کھڑے ہوکر خلافت کا اعلان نہیں کیا جاتا تھا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ آج مسلمان تعلیم کے میدان میں سب سے پیچھے ہیں اور اسی کا نتیجہ ہے کہ جو قوم کبھی سُپر پاور تھی، وہ آج مغرب کی غلام ہے۔

تاریخ پر اگر نگاہ ڈالیں تو مسلمانوں کا زوال مغرب کے ہاتھوں شروع ہوا، خواہ وہ سلطنت مغلیہ کا زوال ہو یا ترکی کی خلافت کا خاتمہ، یا پھر عربوں کا زوال۔ یعنی فلسطین پر یہودیوں کا قبضہ اور مسلمانوں کی تباہی مغرب کے ہاتھوں ہوئی۔ پھر گزشتہ بیس برسوں کی تاریخ کا جائزہ لیں تو ایک بار پھر وہی کہانی دہرائی جا رہی ہے۔ یعنی افغانستان پر امریکہ کا قبضہ، عراق میں تباہ کن بمباری، پاکستان کو یہ انتباہ کہ ’’تم ہمارے دشمن ہو یا دوست؟‘‘۔ علاوہ ازیں افغانستان، افریقہ کے مسلم ممالک، عراق و شام اور دیگر مقامات پر امریکی بمباری آج بھی جاری ہے۔ لب لباب یہ کہ مغلیہ سلطنت کے زوال سے لے کر عراق میں داعش کے خلاف جنگ تک، یعنی ہر منزل پر مسلمان اور مغرب کا تصادم جاری ہے، جس میں بہادر شاہ سے لے کر البغدادی تک ہر مسلم رہنما شکست یا موت سے ہمکنار ہو رہا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ مغرب اور بیسویں صدی کے نصف سے یہودیوں اور مسلمانوں کے درمیان تصادم کا سلسلہ جاری ہے۔ پہلے مغرب نے مسلمانوں کو غلام بنایا، پھر ساری دنیا میں جنگ آزادی کا سلسلہ شروع ہوا اور دنیا بھر کی غلام قومیں آزادی حاصل کرکے ترقی کی راہ پر گامزن ہوئیں، لیکن مسلمانوں کو نہ تو صحیح معنوں میں آزادی حاصل ہوئی اور نہ ہی ترقی نصیب ہوئی۔ جو غیر مسلم قومیں (چینی، جاپانی، ہندو وغیرہ) انگریزوں کی غلام تھیں، وہ آج نہ صرف آزاد ہیں، بلکہ ترقی کی راہ پر گامزن ہیں، یہاں تک کہ امریکہ جیسے ملک کے برابر کھڑی ہونے کی کوشش کر رہی ہیں، جب کہ مسلمان آج بھی غلامی کی زنجیر میں جکڑے ہوئے ہیں اور ان پر ڈرون حملے کئے جا رہے ہیں۔ ایک دور میں ایشیائی اور افریقی قومیں مغرب کی غلام تھیں۔ مغرب، ان قوموں کا ایسا ہی دشمن تھا، جیسا کہ آج مسلمانوں کا بنا ہوا ہے۔ لیکن دیگر قومیں آج ترقی کی دوڑ میں تیزی سے آگے بڑھ رہی ہیں اور مسلمان مغرب کے خلاف بوکو حرام و داعش جیسی تنظیمیں بناکر نہ صرف مسلمانوں کو دہشت گردی کی امیج دے رہے ہیں، بلکہ اسلام کا دامن بھی داغدار کر رہے ہیں۔ آخر دنیا کی دیگر قوموں اور مسلمانوں میں یہ فرق کیوں ہے؟۔

درحقیقت مسلمانوں اور دیگر قوموں کے درمیان زمین آسمان کا فرق ہے۔ انگریزوں کی غلامی سے آزاد ہونے کے بعد دیگر قوموں نے مغرب کے ساتھ اپنے تعلقات قائم کئے۔ ان قوموں نے مغرب کو اپنا سیاسی دشمن سمجھا اور آزادی کے لئے سیاسی جنگیں بھی لڑیں، لیکن اس کے ساتھ ہی ان اقوام نے یہ بھی تجزیہ کیا کہ آخر ان کا مدمقابل اتنا ترقی یافتہ کیوں ہے؟۔ اس تجزیہ سے دنیا کی غیر مسلم اقوام نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ مغرب نے سائنس و ٹکنالوجی پر قدرت حاصل کرکے صنعتی انقلاب برپا کیا اور اس سے زبردست ترقی حاصل کی۔ اس انقلاب کے ذریعہ مغرب نے اپنی سیاسی اور سماجی قدروں میں بنیادی تبدیلی بھی پیدا کی، جس کے سبب مغرب میں انسانی آزادی، بھائی چارہ، آزادی نسواں اور انسانی حقوق جیسے وہی تصور پیدا ہوئے، جو صدیوں قبل دنیا کو اسلام نے دیا تھا۔ شاید یہی سبب ہے کہ مغربی دنیا دیگر قوموں کے مقابل بہت آگے نکل گئی۔ لہذا جب غیر مسلم قوموں کو اس بات کا احساس ہوا تو انھوں نے مغرب سے سیاسی لڑائی کے باوجود ترقی کے لئے مغرب کے نئے سیاسی، سماجی، سائنسی اور تعلیمی انقلاب کو اپنایا، جس کے نتیجے میں آج ہندوستان نہ صرف آزاد ہے، بلکہ مریخ جیسے سیارہ پر اپنا راکٹ بھیجنے میں کامیاب ہوا ہے اور ترقی کے اعتبار سے ایشیا کا اہم ترین ملک سمجھا جا رہا ہے۔ اس کے برخلاف مسلمانوں نے ساری دنیا میں مغرب کو اپنا مذہبی اور تہذیبی دشمن سمجھا۔

مسلمانوں کے نزدیک یہ وہی مغرب ہے، جو صلیبی جنگوں کے دوران ان کا دشمن تھا، جس نے اسلام اور مسلم تہذیب کو ختم کرنے کا بیڑا اٹھایا تھا۔ یہی سبب ہے کہ مسلمانوں نے مغرب کو ہمیشہ اپنا سیاسی اور تہذیبی دشمن سمجھا، تب ہی تو انیسویں صدی کے تمام مسلم مفکرین نے مغرب کو پوری طرح سے رد کردیا، جس کے نتیجے میں مسلمانوں نے سائنسی و ٹکنالوجی، تعلیمی اور سیاسی و سماجی انقلاب کو بھی رد کردیا اور اس کے برخلاف قرون وسطی کی ان سیاسی و سماجی قدروں کو اصل اسلام سمجھ لیا، جس میں اس نے سُپر پاور کا رتبہ حاصل کیا تھا۔ مثلاً جمہوری خلافت راشدہ کی جگہ بادشاہت کو ہی مسلمانوں نے اصل اسلامی سیاسی نظام سمجھ لیا، جو کسی نہ کسی صورت میں آج بھی زیادہ تر مسلم معاشرہ میں رائج ہے۔ تب ہی تو داعش جیسی تنظیم لوگوں کو ذبح کر رہی ہے۔لب لباب یہ کہ مسلمانوں نے مغرب سے سیاسی جنگ لڑنے کی بجائے اس کے ساتھ تہذیبی جنگ شروع کردی، جس میں نہ تو آزادی ممکن تھی اور نہ ہی ترقی کا کوئی امکان تھا۔ کیونکہ وہ قرون وسطی کے شاہی دور اور اس کی قدروں کو اصل اسلام سمجھ کر ایک ایسی خلافت کے خواہشمند ہو گئے، جس کا اللہ، رسول اور اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یعنی اب مسلمان اسلام کی اعلی قدروں سے انحراف کرکے اسلام کو بھی اپنے ہاتھوں سے کھو رہے ہیں اور ترقی کی دنیا میں ساری قوموں سے پیچھے ہو گیا ہے۔ اب ان کے پاس محض دہشت کا ہتھیار بچا ہے، جس سے وہ نہ صرف خود کو بدنام کر رہے ہیں، بلکہ دامن اسلام کو بھی داغدار کر رہے ہیں، جو اسلامی تاریخ کے لئے ایک شرمناک بات ہے۔