ظفر آغا
ساری دنیا میں ان دنوں محض ایک ہی مسئلہ زیر بحث ہے اور وہ ہے داعش کے بڑھتے ہوئے قدم۔ مغرب کو اب یہ خطرہ لاحق ہو گیا ہے کہ امریکہ پر القاعدہ کے حملے کی طرح داعش بھی کہیں مغرب کے کسی حصے پر حملہ نہ کردے۔اس خوف کے سبب مغرب میں اسلام اور مسلمان دونوں میں زبر دست دلچسپی پیدا ہو گئی۔ آخر اصل اسلام کیا ہے؟ کیا اسلامی عقیدہ واقعی دہشت گردی پر مبنی ہے؟ جہاد کیا ہے؟ مسلمان جہاد کے نام پر خود اپنی جان دینے کو کیوں تیار ہوجاتے ہیں؟ اسی طرح کے درجنوں سوالات مغرب میں ان دنوں اسلام اور مسلمانوں کے تعلق سے زیر بحث ہیں۔ اس تناظر میں یہ لازمی ہے کہ نہ صرف مغرب بلکہ ساری دنیا کے سامنے ایک بار پھر سے اسلام کا اصل چہرہ پیش کیا جائے تاکہ دنیا کو اسلام کے تعلق سے جو طرح طرح کے شکوک و شبہات پیدا ہو گئے ہیں وہ ختم ہو جائیں اور اسلام کا صحیح پیغام ایک بار پھر سے دنیا تک پہنچ سکے۔
راقم الحروف اس مختصر مضمون میں اصل اسلام کے بارے میں کچھ تحریر کرنے کی جرأت کر رہاہے۔ جو ظاہر ہے کہ ایک ادنیٰ سا قدم ہے۔ یوں تو میں کوئی عالم دین نہیں لیکن اب تک کے مطالعہ سے میری سمجھ میں اسلام اور اسلامی پیغام جس حد تک آیا ہے اس سے اسلام کے دو بنیادی پہلو اجاگر ہوتے ہیں۔ اسلام اپنے کو ایک جامع ابدی پیغام ہی نہیں بلکہ ایک مکمل نظام کی شکل میں پیش کر تاہے۔ ظاہر ہے کہ کسی بھی نظام کے دو پہلو ہونے چاہئیں۔ اولاً کسی بھی نظام کا ایک ذاتی پہلو ہو تا ہے جو ا س فرد سے تعلق رکھتا ہوتا ہے جو اس نظام میں یقین رکھتاہو۔اور اس کا دوسرا پہلو سماجی پہلو ہوتا ہے جو اس کو سماجی حیثیت دے کر اس نظام کو ایک مجموعی شکل دیتا ہے۔ اسلام کے ذاتی پہلو کا جہاں تک تعلق ہے وہ اس کے اللہ اور اسلام میں یقین رکھنے والے فرد کا درمیانی پہلو ہے۔ اگر اس پہلو پر نگاہ ڈالی جائے تو اسلام قبول کرنے والے کو ایک ایسے معبود کو قبول کرنا ہو گا جو لاشریک ہے اور ہر شے پر قادر ہے۔ جب کوئی فرد اس عقیدے کو قبول کر لے گا تو اب وہ مسلمان ہے ۔ اب اللہ نے ایمان لانے والے کے لئے قرآن حکیم اور اپنے رسول محمد مصطفی کے ذریعہ تمام اعمال طے کر دیئے۔ یہ بتا دیا کہ کیا حق ہے اور کیا باطل ہے؟ اب مسلمان کا یہ فریضہ ہے کہ وہ حق و جائز اعمال بجا لائے۔ وہ کیا اعمال بجا لاتا ہے یہ مکمل طور پر اللہ اور اس کے بندے کے درمیان کا معاملہ ہے کیونکہ اللہ اور صرف اللہ ہی روز قیامت بندے کے اعمال کے تحت اس کی جزاء اور سزاء کا فیصلہ کرے گا۔ بروز قیامت محض پروردگار بندے کے اعمال کی بنا پر ا س کی ابدی حیات طے کر دے گا جس میں کسی رسول یا کسی فرشتے یا کسی اور شے کو دخل اندازی کا کوئی اختیار نہیں ہوگا۔
یہ ہے اسلام کے ذاتی پہلو کا نچوڑ جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں رائج تھا ۔ اگر عالمی سطح پر اس دور کی انسانیت اور سماج پر نگاہ ڈالئے کہ جس دور میں رسول نے پیغام اسلام کی اشاعت کی تو یہ بات بالکل واضح نظر آتی ہے کہ اسلام کے آغاز میں دنیا میں جو بھی عقائد تھے کم و بیش وہ تمام عقائد درمیانی شخص یعنی middle man کے فیصلے میں تھے۔ وہ دور کیا آج کے بھی ہندو سماج پر نگاہ ڈالیں تو ہندو عقیدہ پوری طرح ایک برہمن کے قبضے میں ہے جو ہندو فرد کے ہر مذہبی عمل پر پوری طرح قادرتھا۔ وہ پوجا پاٹھ ہو یا کوئی اور دوسرا سماجی عمل ایک ہندو شخص برہمن کے بغیر اپنے مذہب کا تصور ہی نہیں کر سکتاتھا۔ یعنی ہندو بھگوان اور ہندو فرد کے درمیان کوئی سیدھا رشتہ ہو نہیں سکتاتھا۔ حد یہ ہے کہ وہ برہمن مذہبی معاملات میں اسقدر قادر مطلق ہو تا تھا کہ وہ یہ بھی طے کر تا تھا کہ کون شخص مندر میں جا سکتا ہے اور کون نہیں ۔ مثلاً اچھوت (دلت) یا زیادہ تر پچھڑی ذاتوں کے ہندوؤں کو مندر میں جانے کی اجازت بھی نہیں تھی جو رسم آج بھی رائج ہے۔ یہ تو رہا ہندو سماج کا حال کہ جس میں ایک ہندو فرد اور اس کے بھگوان کے درمیان ایک بیچولیا لازمی تھا۔ یعنی ہندو اپنے عقیدے کے معاملے میں بھی پوری طرح آزاد نہیں تھا۔ یہی حال مسیحی مذہب کا تھا اور آج بھی ہے کہ جو پوری طرح چرچ کے قبضے میں چلا گیا ۔ ہربات چرچ اور ’’فادر‘‘ یعنی مسیحی راہب طے کرے گا۔ یہی صورت حال بدھ مذہب کی تھی جس میں اس کے بانی گوتم بدھ نے تو کسی بھی قسم کے رب سے انکار کر کے ہر قسم کے پنڈت اور مذہبی بیچولئے کے رواج کو ختم کر نے کی کوشش کی تھی۔ لیکن گوتم بدھ کے انتقال کے بعد جب ان کا نظریہ ایک مذہب کی شکل اختیار کر گیا تو اس میں بھی بدھ مذہب کے ماننے والوں کے تمام مذہبی اختیارات بدھ راہب کے ہاتھوں میں چلے گئے جو آج بھی اسی طرح بر قرار ہیں۔ اس کے علاوہ بھی جو طرح طرح کے عقائد رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے قبل پائے جاتے تھے ان میں بھی کم و بیش یہی صورت حال تھی۔
لب لباب یہ کہ جب عرب کے میدانوں سے رسول کریمؐ نے اسلام کی صدابلند کی تو اس وقت انسانیت کو روحانی یا مذہبی آزادی بھی حاصل نہیں تھی۔ اللہ (بندہ جس شکل میں بھی اس کا تصور کرتا ہو) اور بندے کے عقیدے کے درمیان ایک درمیانی شخص (Middle man) تھا جو بندے کے روحانی اور عقائد کے معاملات پر قادر تھا۔ اس کے بر خلاف رسولؐ نے ایک ایسے رب کا تصور پیش کیا جو نہ صرف رب العالمین تھا بلکہ تمام معاملات میں قادر مطلق تھا لیکن وہ ہر وقت اپنے ماننے والوں کی زندگی میں مخل نہیں تھا۔ اس نے اپنے رسول کے ذریعہ اپنے ماننے والوںکے لئے حق و باطل اور اچھے برے معاملات طے کر دیئے تھے اور بندے کو یہ آزادی و اختیار دے دیا تھا کہ وہ اپنے اعمال خود طے کرے جس کی بنا پر کیس کی مداخلت یا سفارش کے بغیر روز قیامت بندے کی جزاو سزا اس کا رب طے کر دے گا جو اس کے رب کا ابدی فیصلہ ہوگا۔
یعنی عقیدے کے اعتبار سے رسولؐ کے دور کا اسلام وہ پہلا نظام تھا، جس نے انسانیت کو روحانی اور عقائد کے معاملات میں پوری طرح ہر قسم کے درمیانی شخص (Middle man) سے آزادی کر اس کو پوری طرح آزادی عطا کر دی۔ مذہبی اور روحانی اعتبار سے یہ ایسی آزادی تھی جس کا تصور انسان نے اسلام کے عروج سے قبل نہیں کیا تھا۔ رسولؐ نے جب اسلام کا پیغام پیش کیا تو جس جس نے بھی یہ پیغام قبول کیا وہ پوری طرح ہر قسم کے برہمن چرچ یا راہب کے چنگل سے آزاد ہو گیا۔ یہی سبب ہے کہ سو سال کے اندر اسلام کا پرچم عرب کے ریگزاروں سے لے کر یورپ ، ایشیاء اور افریقہ کی وادیوں تک لہرایا تھا، کیوں کہ ذاتی سطح پر اسلام نے انسان کو وہ آزادی عطا کر دی تھی کہ جو اس سے قبل انسان نے تصور ہی نہیں کیاتھا۔ وہ بنیادی اسلام آج کے دہشت گردگروہوں کے ہاتھوں میں قید اصل سلام سے ہر معنی میں اس لئے مختلف ہے کہ اس اسلام میں مسلمان ایک ایسے خلیفہ کا غلام ہو جاتا ہے، جو اپنے کو اللہ کا درمیانی شخص تصور کرتاہے جو بنیادی اسلامی تصور آزادی کے بالکل مخالف ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ موجودہ حالات میں اسلام کی وہ تصویر پیش کی جائے جو انسان کو عقائد کے اعتبار سے روحانی معاملات میں وہی آزادی عطا کرے جو رسول کریم نے اپنے دورمیں عطا کی تھی تا کہ مغرب داعش اور القاعدہ جیسی تنظیموں کی غلطیوں کے سبب اسلام کو دہشت گرد کا جو جامہ پہنارہا ہے وہ اس میں ناکام ہو جائے، لیکن یہ تب ہی ممکن ہے جب اسلامی معاشرہ خود اپنے سماج میں شریعت کے نام پر پیدا ہونے والے اس درمیانی طبقے کو ختم کرے جو اپنے کو علماء کہہ کر اسلام پر ویسے ہی قابض ہوگیا ہے، جیسے کہ ہندو برہمن ہندو عقیدے پر قابض ہے۔