اسلام کا آفاقی پیغام ساری انسانیت کے لیے نجات کا باعث

حضور اکرم ﷺ کی دعوتی زندگی کے مختلف پہلووں پر روشنی ، مسجد عزیزیہ میں جلسہ

حیدرآباد ۔ 13 ۔ مئی : ( دکن نیوز ) : اسلام کا آفاقی پیغام جو نہ صرف مسلمانوں کے لیے باعث رحمت ہے بلکہ قیامت تک آنے والی انسانیت کے لیے نجات کی حیثیت رکھتا ہے اس کے علاوہ جتنے بھی نظام ہائے حیات دنیا میں موجود ہیں وہ تمام کے تمام انسانیت کے لیے بے سود ثابت ہوچکے ہیں ۔ اللہ رب العزت نے مسلمانوں کو جو دین اسلام عطا کیا ہے اسے ہم اپنے حد تک محدود نہ رکھیں ۔ بلکہ اس دین کو بنی نوع انسانی تک پہنچانے میں اہم کردار ادا کریں ۔ اگر مسلمان اس دعوت الی اللہ کے کاموں میں سستی و تساہلی برتیں گے تو اللہ انہیں ایک حد تک ڈھیل دے گا تاکہ وہ فوری اپنے اس فرض منصبی کی طرف لوٹ آئیں اگر وہ اس میں بھی دوبارہ سستی و کاہلی اختیار کریں گے تو رب اپنے وعدہ کے مطابق کسی دوسری قوم کو لے آئے گا جن کے اوصاف و اخلاق ان جیسے نہیں ہوں گے بلکہ وہ دعوت دین کے پھیلانے میں اجتماعیت کے ساتھ مجاہدہ و کوشش کریں گے ۔ ابھی بھی ہمارے ہاں وقت ہے کہ جو زندگی ملی ہے اس کو غنیمت جانتے ہوئے اللہ کی سرزمین پر اس دین کو غالب کرنے کے لیے وہ اوصاف حمیدہ پیدا کریں جو اوصاف قرآن ، سیرت رسول ﷺ اور صحابہ ؓ ، تابعین ، آئمہ اور اولیاء اللہ کی سیرتوں میں ملتے ہیں ۔

ان خیالات کا اظہار جناب نظام الدین بدر فاروقی رکن جماعت اسلامی ہند نامپلی نے مسجد عزیزیہ ( مہدی پٹنم ) میں ہفتہ واری اجتماع عام سے کیا ۔ جناب سید عبداللہ حسینی معاون امیر مقامی نے اجتماع کی نگرانی کی ۔ جناب نظام الدین بدر فاروقی نے ’ دعوتی کام کرنے والوں کے اوصاف ‘ پر خطاب کرتے ہوئے حضور اکرم ﷺ کی دعوتی زندگی کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی اور کہا کہ آپ ؐ نے مکہ کی سرزمین پر توحید ، رسالت اور آخرت کا وہ عظیم درس دیا جس کو سننے کے بعد جو لوگ باپ دادا کی اندھی پیروی اور ان کے رسومات کی تقلید کیا کرتے تھے ان تمام رواجوں کو ترک کردیا اور آپؐ کے ساتھ ہوگئے اور آپؐ نے ان جواہر پاروں کو اکھٹا کیا اورا ن کی مدد سے اسلام کے پیغام کو عام کرنے میں سرگرم عمل رہے ۔ انہوں نے کہا کہ انسان کے علاوہ رب نے بے شمار مخلوقات کو پیدا کیا اور ان پر انسان کو اشرف المخلوقات بنا کر اسے یوں ہی نہیں چھوڑ دیا بلکہ اس کے کاندھوں پر دعوت دین کی عظیم ذمہ داری کا بوجھ ڈالا کہ وہ اس اسلامی دعوت کو من و عن بندگان خدا تک پہنچادیا جائے ۔

انہوں نے اس دین کی دعوت کو پہنچانے میں اجتماعیت کے داخل ہونے کو ترجیح دی اور کہا کہ اس کاز کے لیے اجتماعیت نہ ہو تو یہ دین غالب ہو نہ سکے گا اس کے لیے انہوں نے شہد کی مثال دی کہ شہد کے بننے میں مکھیوں کو بڑے صبر آزما مراحل سے گذرنا پڑتا ہے اول انہیں جگہ کے انتخاب کے علاوہ یک جٹ ہو کر مختلف پھلوں کے رس کو لاتے ہوئے شہد کی شکل دینی پڑتی ہے یہ مکھیوں کی اجتماعیت سے ہی ممکن ہے اللہ نے ان میں ایک ایسا وصف رکھ دیا ہے کہ وہ متحد ہو کر ہی شہد میں مٹھاس پیدا کرتے ہوئے پہاڑوں اور جھاڑوں پر ایک نئے حوصلے و امنگ کے ساتھ چھتہ بناتے ہیں لیکن مسلمان جس کو ایمان کی نعمت کے علاوہ بے شمار ایسی نعمتوں و وسائل سے نوازا کہ اس نے اس قلیل دنیا کے لیے بہت ساری چیزیں ایجاد کیں لیکن اللہ کے دین اسلام اور اس کے نظام زندگی کو سمجھنے سے قاصر رہا حالانکہ اسے صلحائے امت نے قرآن ، حدیث ، سیرت رسولؐ ، صحابہ کرام ؓ کی سیرت کے علاوہ انبیاء اور اولیاء اللہ کی ان تمام ہستیوں کی سیرت کو یکجا جمع کرتے ہوئے آسانی و سہولت پیدا کی کہ وہ ان کی زندگیوں کو اپنے میں راسخ کریں لیکن اب ہماری حالت یہ ہوچکی ہے کہ ہم ان تمام سہولتوں کے باوجود آنکھ و کان رکھنے کے ان ہستیوں کی زندگیوں سے اپنی زندگی کو سنوارنے میں دوری اختیار کررہے ہیں ۔۔