اسلام میں ہم جنس پرستی کی سزا

مفتی محمد قاسم صدیقی تسخیر
نائب مفتی جامعہ نظامیہ

قطع نظر مذہب و ملت، انسانیت اور فطرت سلیمہ اخلاق و اقدار کی حامی و پاسبان ہوا کرتی ہیں۔ فطرت سلیمہ کبھی برائی، بے حیائی، فحش و منکرات کو نہ قبول کرتی ہے اور نہ ہی پسند کرتی ہے، بلکہ ان سے باز رہنے اور ترک کی تلقین کرتی ہے۔ دین اسلام نہایت عالی و پاکیزہ مذہب ہے، جو مکارم اخلاق، اعلی صفات اور عمدہ کردار کی تعلیم دیتا ہے اور افراد و اشخاص کی جسمانی، روحانی، قلبی اور فکری طہارت و صفائی کے ذریعہ ایک صالح اور باحیاء معاشرہ تشکیل دیتا ہے۔ عفت و حیاء کو جزو ایمان قرار دیتا ہے اور کسی صورت میں بے حیائی، بے راہ روی اور فحش و منکرات کو برداشت نہیں کرتا، بلکہ اس کے مرتکبین کو سخت سے سخت سزا تجویز کرتا ہے، تاکہ یہ نسل انسانی پاکیزہ زندگی گزارے۔

مغربی ممالک، آزادی انسانیت اور حریت کے علمبردار سمجھتے جاتے ہیں کہ انھوں نے آزادی اور حریت کے گرہوں کو اس قدر ڈھیلا کردیا کہ انسان اپنی حقیقت و ماہیت سے تجاوز کرکے حیوانیت و بہیمیت کے زمرہ میں شامل ہو گیا، بلکہ بعض امور میں حیوانیت کی حدود کو پار کرگیا اور ان سے بڑھ کر بے حس و بے حیاء ہو گیا۔ اس کو اس برائی کا عیب نہیں نظر آرہا ہے اور وہ برائی و بے حیائی کو کھلے عام انجام دے رہا ہے۔ انسان کے پاس عقل و ہوش اور قلب و دماغ ضرور ہے، لیکن وہ برائی کو برائی نہیں سمجھ رہا ہے۔ اس کے پاس آنکھ اور کان ضرور ہیں، لیکن اسے برائی نہیں نظر آرہی ہے اور نہ ہی وہ اس کے خلاف کچھ سننے کے لئے تیار ہے۔

اللہ تعالی کا ارشاد ہے: ’’بے شک ہم نے جہنم کے لئے جنات اور انسانوں میں سے بہت سے افراد کو پیدا فرمایا وہ دل رکھتے ہیں مگر وہ سمجھ نہیں سکتے، اور وہ آنکھیں رکھتے ہیں مگر ان سے (حق کو) دیکھ نہیں سکتے، اور وہ کان رکھتے ہیں مگر وہ ان سے سن نہیں سکتے، وہ لوگ چوپایوں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ بھٹکے ہوئے ہیں، وہی لوگ غافل ہیں‘‘۔ (سورۃ الاعراف۔۱۷۹)

ہم جنس پرستی ایک مہلک متعدی مرض کی طرح ساری دنیا میں بڑی تیزی سے پھیلتی جا رہی ہے، اس کے حامیوں کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور تقریباً نصف دنیا نے اس کو قانونی جواز دے دیا ہے۔ امریکہ، برطانیہ، کناڈا، فرانس، ڈنمارک، نیوزی لینڈ، ساؤتھ افریقہ، برازیل، بیلجیم، ارجنٹینا، ناروے، پرتگال، اسپین کے بشمول امریکہ اور یورپ کے کئی ممالک نے باضابطہ اس کو قانونی جواز فراہم کردیا ہے۔ مشرق وسطی اور ایشیائی ممالک کی اکثریت اس کے خلاف ہے، لیکن دنیا کی تقریباً ساٹھ فیصد آبادی ہم جنس پرستی کی تائید کر رہی ہے اور ہر سات میں سے ایک فرد اپنے مخالفانہ ذہن کو تائید و حمایت میں تبدیل کر رہا ہے۔ ستر فیصد بالغ افراد اس کی حمایت میں ہیں۔

ہماری صفوں میں بھی بعض ایسے نام نہاد مسلمان ہیں، جو ہم جنس پرستی کو اسلام میں جائز و مباح قرار دینے کی کوشش کر رہے ہیں، جب کہ از روئے شریعت یہ فعل قبیح ناجائز و حرام اور گناہ کبیرہ ہے، جس کی حرمت نص قطعی سے ثابت ہے۔ جو کوئی اس کو حلال سمجھے گا، نص قرآنی کے انکار کی بناء وہ اسلام سے خارج ہے اور جو اس کو حرام سمجھتے ہوئے مرتکب ہوگا، وہ شرعاً فاسق و فاجر، گناہ کبیرہ اور ناقابل معافی جرم کا مرتکب ہوا اور از روئے شرع اپنی زندگی کے حق کو وہ کھودیتا ہے۔ ایسا شخص انسانی معاشرہ میں رہنے، بسنے اور جینے کے قابل نہیں ہے، اس کی سزا صرف اور صرف موت ہے۔
اللہ سبحانہ و تعالی نے قرآن مجید میں بعض سابقہ امتوں کو ان کے کفر و شرک اور فسق و فجور کے سبب ہلاک و برباد کردینے کا تذکرہ متعدد مقامات پر کیا ہے، تاکہ لوگ اس سے درس عبرت حاصل کریں اور ان قوموں کے کفر اور ناشکری و معصیت سے بچ کر اللہ تعالی کے عذاب و عتاب سے محفوظ ہوں۔ ان ہی امتوں میں سے ایک نہایت بدبخت و شرپسند قوم حضرت لوط علیہ السلام کی ہے، جو اللہ تعالی کی نافرمانی، فحش و منکرات، بے حیائی اور ہم جنسی کے سبب اللہ تعالی کے سخت ترین عذاب کی حقدار ہوئی۔

حضرت لوط علیہ السلام، ایک قول کے مطابق حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بھتیجے ہوتے ہیں۔ آپ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ رہے، بعد ازاں حضرت ابراہیم علیہ السلام فلسطین میں مقیم ہوئے اور حضرت لوط علیہ السلام بحرین کے قریب مقیم ہوئے، جہاں متعدد بستیاں آباد تھیں۔ کئی سال تک حضرت لوط علیہ السلام نے ان کو اللہ تعالی کی طرف بلایا اور ان کو فسق و فجور، بے حیائی اور منکرات سے دور رہنے کی تلقین کی۔ وہ نہایت ہی بدبخت، بے حیاء اور ظرف سے عاری قوم تھی۔ وہ پہلی قوم ہے، جس نے ہم جنس پرستی کا آغاز کیا اور برسر عام اس جرم کا ارتکاب کرتے۔

اللہ سبحانہ و تعالی نے مختلف سورتوں میں حضرت لوط علیہ السلام کا ذکر فرمایا ہے۔ ارشاد فرمایا ہے: ’’اور لوط (علیہ السلام) کو (یاد کریں) جب انھوں نے اپنی قوم سے کہا: بے شک تم بڑی بے حیائی کا ارتکاب کرتے ہو، اقوام عالم میں سے کسی (ایک قوم) نے (بھی) اس (برائی) میں تم سے پہل نہیں کیا۔ کیا تم (شہوت رانی کے لئے) مردوں کے پاس جاتے ہو اور ڈاکہ زنی کرتے ہو اور اپنی مجلس میں ناپسندیدہ کام کرتے ہو، تو ان کی قوم کا جواب اس کے سوا کچھ نہ تھا کہ کہنے لگے: تم ہم پر اللہ کا عذاب لے آؤ اگر تم سچے ہو۔ لوط (علیہ السلام) نے کہا: اے میرے رب! تو فساد انگیزی کرنے والی قوم کے خلاف میری مدد فرما‘‘ (سورۃ العنکبوت۔۲۸ تا۳۰) اور سورۃ الشعراء میں ہے: ’’قوم نے کہا: اے لوط! اگر تم باز نہیں آؤگے تو ضرور بہ ضرور (اس گاؤں) سے نکال دیئے جاؤ گے‘‘۔ (سورۃ الشعراء۔۶۷)

جب حضرت لوط علیہ السلام کی قوم نے آپ کی دعوت کو قبول نہیں کیا اور اپنے عمل بد پر ڈٹے رہے تو اللہ تعالی کا فیصلہ ان کے بارے میں ظاہر ہوا۔ اللہ تعالی نے اس قوم کو تباہ و تاراج کرنے کے لئے فرشتوں کو بھیجا، وہ فرشتے پہلے حضرت ابراہیم اور حضرت سارہ علیہما السلام کے پاس آئے اور ان کو حضرت اسحاق اور حضرت یعقوب علیہما السلام کی بشارت دی اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اطلاع دی کہ وہ قوم لوط پر اللہ کا قہر برسانے کے لئے آئے ہیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام بڑے فکرمند ہوئے اور حضرت لوط علیہ السلام سے متعلق فرمایا کہ ’’وہ اسی قوم میں موجود ہیں‘‘ تو آپ کو اطمینان دلایا گیا کہ حضرت لوط علیہ السلام اور آپ کے اہل سوائے بیوی کے محفوظ رہیں گے۔ پھر وہ فرشتے انسانی لباس میں حضرت لوط علیہ السلام کے پاس پہنچے تو آپ نے انھیں نہیں پہچانا اور کبیدہ خاطر ہوئے کہ آپ کی قوم کہیں برا سلوک نہ کرے، اس لئے نہایت احتیاط سے اپنے گھر لائے۔ اس اثناء میں آپ کی بیوی نے قوم کو اطلاع دے دی کہ نہایت خوبرو مہمان آئے ہوئے ہیں۔ آپ کی قوم نہایت شاداں و فرحاں آئی اور مہمانوں کے ساتھ برائی کا ارادہ ظاہر کی۔ حضرت لوط علیہ السلام نے خدا کا واسطہ دیا اور ان کو قوم کی بیٹیوں کے ساتھ نکاح کے ذریعہ حلال و پاکیزہ رشتہ قائم کرنے کی تلقین کی۔ پھر بھی وہ اپنے تقاضہ پر بضد تھے۔ حضرت لوط علیہ السلام نہایت غمگین ہوئے اور آزردہ ہوکر کہنے لگے ’’کاش! میرے پاس طاقت و قوت ہوتی یا میں کسی مضبوط پناہ میں ہوتا‘‘۔ فرشتوں نے کہا: ’’آپ آزردہ و پریشان نہ ہوں، ہم فرشتے ہیں، وہ ہم کو نقصان نہیں پہنچا سکتے‘‘۔ فرشتوں نے ان کی آنکھوں کو بے نور کردیا، ان کو کچھ دکھائی نہ دینے لگا۔ فرشتوں نے خدا کا پیغام پہنچایا کہ ’’آپ صبح سے پہلے رات ہی میں یہاں سے اپنے اہل کے ساتھ نکل جائیں، کیونکہ صبح سویرے عتاب نازل ہونے والا ہے، آپ آوازیں سنیں تو پلٹ نہ دیکھیں‘‘۔

حسب ہدایت حضرت لوط علیہ السلام اپنے اہل کو لے کر نکل گئے۔ ایک روایت میں ہے کہ آپ نے بیوی کو نہیں لیا یا وہ ساتھ تھی، لیکن پلٹ کر دیکھنے کی بنا پر ہلاک ہو گئی۔ حضرت جبرئیل علیہ السلام نے ان نافرمان بے حیاء گاؤں والوں کو زمین سمیت اٹھایا اور آسمانوں کی طرف بلندی پر لے گئے، پھر ان کو نیچے دے مارا، اوپر سے پتھر برسائے، اس طرح وہ تمام علاقے تباہ و تاراج ہو گئے۔ سورۃ الشعراء میں خصوصیت کے ساتھ اس بات کا ذکر کیا گیا ہے کہ ان کی ہم جنس پرستی کے سبب اللہ سبحانہ و تعالی نے ان کو اس طرح کے سخت ترین عذاب میں مبتلا کیا۔

اس لئے فقہاء نے صراحت کی ہے کہ جو کوئی ہم جنسی عمل کرے تو اس کی سزا موت ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ہر دو کو موت کی سزا دو اور ایک حدیث میں ایسے افراد کو آپﷺ نے ملعون فرمایا ہے۔ پس فقہاء کے نزدیک سزا سے متعلق کوئی اختلاف نہیں ہے، تمام موت کی سزا پر متفق ہیں، اختلاف نوعیت موت میں ہے۔ بعض نے کہا جلادیا جائے، بعض نے کہا پہاڑ پر سے پھینک دیا جائے اور بعض نے کہا کہ سنگسار کیا جائے اور جو خواتین ہم جنس پرستی کی شکار ہیں وہ تعزیری سزا کی مستحق ہیں۔ علماء نے ان سے متعلق سورۃ النساء کی آیت ۱۵ سے استدلال کیا کہ ’’جو عورتیں (باہم) بدکاری کا ارتکاب کریں تو ان پر چار افراد کی گواہی طلب کرو اور وہ گواہی دے دیں تو ان کو گھروں میں قید کردو، تاآنکہ وہ انتقال کرجائیں‘‘۔