اسلام میں مقامِ انسانیت

مولانا غلام رسول سعیدی

اللہ تعالی نے انسان کو اپنی مخلوقات کی انواع میں سے مشرف ترین مخلوق قرار دیا ہے۔ زمین و آسمان کی تمام نعمتیں اس کے نفع کے لئے پیدا فرمائیں، ہوائیں اس کے لئے چلتی ہیں، بادل امڈکر اس کے لئے آتے ہیں، سورج اور چاند اس کے لئے ضیائیں بکھیرتے ہیں، بحر و بر اس کے تابع کردیئے اور کائنات کی ہر حقیقت کو اس کے لئے مسخر کردیا۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ اللہ رب العزت نے انسان کو زمین پر اپنی نیابت اور خلافت کے لئے چن لیا۔ ’’بلاریب ہم نے بنی آدم کو مکرم کردیا‘‘ کا تاج اس کے سر پر رکھا اور ’’بے شک ہم نے آدمی کو اچھی صورت پر بنایا ہے‘‘ کی اس کو صورت عطا کی۔ ’’میں نے اس کو اپنے ہاتھوں سے بنایا‘‘ کا اس کو اعزاز بخشا۔ مزید یہ کہ انبیاء و رسل کو نوع انسانی سے مبعوث فرمایا اور یہ افتخار بھی نوع انسانی کو حاصل ہوا کہ انسانیت کا اعلی ترین فرد اس مقام سے بھی آگے گزر گیا، جس مقام تک حضرت جبرئیل علیہ السلام کی بھی رسائی نہیں ہوتی اور حاملین عرش بھی جس جگہ سے آگے نہیں جاسکتے۔ انسان کامل زبان و مکان کی قیود توڑکر اس سے ماوراء لامکان تک جاپہنچا۔
اللہ تعالی نے عالم ارواح میں تمام انسانوں کی روحوں کو جمع کرکے ان سے اپنی ربوبیت کے اقرار کا عہد لیا۔ ارشاد ربانی ہے: ’’اور اے محبوب! یاد کرو جب تمہارے رب نے اولاد آدم کی پشت سے ان کی نسل نکالی، انھیں خود ان کی ذوات پر گواہ کیا۔ کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟ سب بولے: کیوں نہیں، ہم گواہ ہوئے (اور یہ گواہ اس لئے بنایا) تاکہ تم قیامت کے دن یہ نہ کہہ سکو کہ ہمیں اس کی خبر نہ تھی‘‘۔ (سورۃ الاعراف۔۱۷۳)

انسان کے لاشعور میں یہ وعدہ اور عہد و پیمان محفوظ تھا، یہی وجہ تھی کہ ہر دور میں انسان کو اپنے خالق کی تلاش رہی۔ کبھی چاند کے روپ میں اسے خدائی نظر آئی، کبھی سورج کو خدا سمجھا، کبھی عناصر و کواکب جیسے مظاہر قدرت کو خدا سمجھ کر پوجتا رہا۔ راہ حق سے بھٹکتا رہا، لیکن یہ اس کا اپنا قصور تھا۔ اللہ تعالی نے اپنی ذات کی معرفت کے لئے اس کے اپنے نفس اور اس خارجی و ظاہری عالم میں نشانیاں رکھی تھیں۔ فرمایا: ’’عنقریب ہم ان کو اپنی نشانیاں دکھائیں گے اس خارجی عالم میں اور خود ان کے اپنے نفسوں میں‘‘ اور ان نشانیوں سے صاحب نشان تک پہنچنے کے لئے اس کو عقل سلیم عطا کی۔ پھر جس انسان کو پیدا کیا، دین فطرت پر پیدا کیا، چنانچہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ہر بچہ فطرت (اسلام) پر پیدا ہوتا ہے‘‘ یعنی ہر انسان کے ذہن میں ابتدائً ایسی صلاحیتیں رکھ دی جاتی ہیں اور اس کو ایسی استعداد دے کر پیدا کیا جاتا ہے، جس سے وہ احکام اسلام کو قبول کرسکے اور اس کی عقل کو معرفت ذات حق کی امین بناکر بھیجا جاتا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ وہ اپنے حلقہ یاراں، گردوپیش اور ماحول کے اثر سے اس فطرت کو زنگ آلود کردے اور معرفت حق کی صلاحیتوں کو مکدر کردے۔ پھر اللہ تعالی کا کرم بالائے کرم یہ ہے کہ اس نے انسان کو محض عقل اور اس کی ذہنی صلاحیتوں پر نہیں چھوڑا، بلکہ عقل کو متنبہ کرنے کے لئے لگاتار انبیاء و رسل کو بھیجتا رہا، جو اس کو اس وعدہ کی یاد دلاتے رہے، جو اس کے لاشعور میں محفوظ تھا۔

معرفت خالق اور اس کی اطاعت کی تلاش کا جذبہ تو انسان نے اپنے لاشعور کی مدد سے پہلے پالیا تھا، لیکن ابھی تک اس راستہ سے ناواقف تھا، جو اس کو معرفتِ خالق کی منزل کی طرف لے جاتا۔ انبیاء و رسل نے آکر اس کو وہ راستہ بتایا اور ابلیس و اس کی ذریات نے اس راستہ سے انسان کو بھٹکانے کے لئے جو اندھیروں کی دیواریں کھڑی کی تھیں، انھوں نے دلائل و براہین اور معجزات کی مشعلیں روشن کرکے کفر و شرک کے ان اندھیروں کو دور کیا اور اللہ تعالی کی وحدانیت سے توہمات کے حجاب اٹھاکر اس کو آفتاب نیم روز سے زیادہ روشن کیا اور واشگاف الفاظ میں انسان کو اس کی پیدائش کے مقصد اور اس کی زندگی کے نصب العین سے روشناس کرایا اور بتایا کہ ’’ہم نے کسی جن اور انسان کو نہیں پیدا کیا، مگر عبادت کے لئے‘‘ (الذاریات۔۵۶) اس آیت میں انسان کی پیدائش کا مقصد واضح کردیا گیا ہے کہ انسان کی پیدائش کا مقصدِ وحید اللہ تعالی کی معرفت، اس پر ایمان لاکر اس کی عبادت کرنا اور اس کے بنائے ہوئے نظام کے تحت زندگی بسر کرنا ہے۔