اسلام میں عدل وانصاف کی اہمیت

ہندوستان کے موجودہ متنفرانہ نظریات اورغیرمنصفانہ احوال کے پس منظرمیں

معاشرہ میں امن وآمان کے قیام ،بگاڑوفساد کی بیخ کنی میںجہاں تعلیم وتربیت کی بڑی اہمیت ہے وہیں بے لاگ عدل وانصاف کا نمایاں رول ہے، انسانی معاشرہ کو مستحکم بنیادوں پر استواررکھنا اسی وقت ممکن ہے جب عدل وانصاف کے تقاضے پورے ہوں اورمجرمین کوبلا کسی رورعایت قرارواقعی سزاملے ،اسکے بغیرجرائم سے پاک معاشرہ کا تصورممکن نہیں۔اس لئے اسلام نے ایسے جرائم جن سے دوسرے پر ضرب پڑتی ہوان کی حدمقررکی ہے، جیسے قتل وغارت گری، لوٹ مار،زنا،ڈکیتی ،شراب نوشی وغیرہ۔لیکن ان سزائوں کے نفاذکا اختیارعوام کو نہیں دیا گیا بلکہ اس کی باگ ڈورحکومت کے ہاتھ میں رکھی گئی ہے، انصاف کو یقینی بنانے کیلئے دوچیزیں ضروری ہیں: ایک توحکومت کے تمام مناصب اورعہدے اس کی اہلیت وصلاحیت رکھنے والوں کے سپرد کئے جائیں،عہدوں کی تقسیم میں سیاسی ،نسلی ،وطنی ،سماجی وجاہت ،خاندانی روابط،دوستانہ تعلقات،کنبہ پروری ،شخصی یا جماعتی مفادات کا ہرگزکوئی لحاظ وپاس نہ ہو۔دوسرے عدل وانصاف کے مطابق فیصلے صادرہوں۔ارشاد باری ہے ’’بے شک اللہ سبحانہ وتعالی تمہیں حکم فرماتے ہیں کہ امانتوں کو ان کے سپردکروجواسکے اہل ہیںاورجب بھی لوگوں کے درمیان فیصلہ کروتو عدل وانصاف سے فیصلہ کرو‘‘(النسائ:۵۸)امانت کا مفہوم بہت وسیع معنی رکھتا ہے جو دین کے سارے شعبوں کو محیط ہے۔حکومت کی باگ ڈوراہلیت وصلاحیت کے حامل افرادکے سپردکرنا بھی امانت ہے،اسلام نے اسکا تاکیدی حکم دیاہے،دوسرے عدل وانصاف کوہرحال میں ملحوظ رکھنا ۔اس حکم کے اولین مخاطب امراء وحکام ہیں، پھرمعاشرہ کا ہر فرداس حکم کا پابندہے۔حدیث پاک میں واردہے’’تم میں سے ہرفرداپنے درجہ اورمرتبہ کے لحاظ سے راعی ونگہبان اورجوابدہ ہے یعنی ہرکوئی اپنی رعیت کے بارے میں مسئول ہے(بخاری:۸۹۳) اس لئے اسلام نے سارے معاملات میں عدل وانصاف پر بڑازوردیاہے ۔ارشاد باری ہے’’جب تم لوگوں کے درمیان فیصلہ کروتوعدل کے مطابق کرو‘‘(النسائ:۵۸)’’کسی قوم کی دشمنی تم کو انصاف سے بازنہ رکھے،عدل کروکہ عدل تقوی سے بہت زیادہ قریب ہے‘‘(المائد:۸)اوراگرآپ فیصلہ کریں توان کے درمیان عدل کے ساتھ فیصلہ کریں،رسول اکرم ﷺ کو بذریعہ وحی عدل وانصاف کی ہدایت دی گئی۔’’مجھے تمہارے درمیان انصاف کرنے کا حکم دیا گیاہے‘‘(الشوری:۱۵)’’آپ فرمادیجئے میرے رب نے مجھے انصاف کا حکم دیاہے‘‘(الحج:۲۹)
سیدنا محمدرسول اللہ ﷺکا ارشادہے’’عدل وانصاف سے کام لیناخود ان کے حق میں مفیدہے ،اگروہ ظلم کریں تواس کا وبال ان ہی پر رہے گا(سنن ابی دائود:۱۵۸۸)اس تناظر میں قانون کے اداروں کوہرحال میں بالادستی حاصل رہے، قضاۃ وججس اپنے اختیارات وفرائض کی ادائیگی میں حکمرانوں اورسیاسی قائدین کے اثرونفوذ سے آزادرہیں۔ حق کے مطابق فیصلوںکے نفاذ میں ان کے ذاتی رجحانات بھی اثراندازنہ ہوں، قضاۃ وججس کے انتخاب میں یہ بات ضروری ہے کہ ان کا کرداراوران کی سیرت بے داغ ہو،ان کے عہد ہ ومنصب کا احترام حکومت کے امرائ،وزراء وحکام کوبھی ان کے فیصلوں سے سرتابی کرنے کی جرأت فراہم نہ کرسکے۔ دستور کی روشنی میں عاملہ یعنی ائی اے ایس عہدیداران ،مقننہ پارلیمنٹ اورعدلیہ یعنی عدالت العالیہ (سپریم کورٹ)کے ججس کی جانب سے ایک دوسرے پر کنٹرول یہ جمہوریت کے اہم ستون ہیں،ملک کو صحیح سمت میں لیجانے کیلئے ان کا آپسی تال میل نہایت ضروری ہے۔ان میں پھر عدلیہ کاوقاربلندوبالاہے ،دیگرستونوں میں کوئی خرابی پیداہویا وہ جمہوری اقدارکو پامال کرکے بے راہ روی کی سمت قدم بڑھارہے ہوں تو یہی نظام عدل ان کو درست اورصحیح سمت میں لے چلنے کا ذریعہ بن سکتاہے،لیکن افسوس اس وقت جمہوریت کے پاسبان ونگہبان آئینی ادارہ سپریم کورٹ تنازعات میں گھرگیاہے۔سپریم کورٹ کے چارسینئرججس نے چیف جسٹس دیپک مشراپرحکومت کے ساتھ گہرے روابط وتعلقات کی نشاندہی کی ہے،اورکئی وکلاء نے بھی ان پربدعنوانی کا الزام عائدکیا ہے ،ان کا کہناہے کہ ہائی کورٹ وسپریم کورٹ کے ۹۰؍فیصد ججس سابق ججس اورسینئراٹارنی کے رشتہ داروں میں سے مقررکئے جارہے ہیں ،اس سے انکارنہیں کیا جاسکتا کہ سپریم کورٹ نے حکومت کے بعض غلط اقدامات پرسخت فیصلے لئے ہیں، الغرض عدلیہ اگرآزادہواورکسی کی مداخلت کے بغیراپنے فرائض بحسن وخوبی انجام دے تو حکومت کے غلط اقدامات پرروک لگ سکے گی۔اس وقت ہندوستان کے مختلف علاقوں میں ہوئے فسادات اوربم دھماکوں کے سلسلہ میں برسوں بعدجوفیصلے آئے ہیں وہ عدلیہ کے کردار کو مجروح کررہے ہیں،مالیگائوں بم دھماکہ کیس کے خصوصی سرکاری وکیل روہنی سالین کا کہنا ہے کہ مرکزمیں جب سے نئی حکومت آئی ہے اس نے مجھ سے کہاہے کہ میں ہندوانتہاء پسندملزمین کے بارے میں نرم رویہ اختیارکروں،اس بیان پر غورکیاجائے تواس احساس کو تقویت ملتی ہے کہ ملک میں جانب دارانہ رحجانات پنپ رہے ہیں۔دستوری ،قانونی اورعدالتی اداروں سے فرقہ پرستی کا رنگ جھلک رہاہے،فرقہ پرستی اوراقلیتوں اوردلت اقوام سے دشمنی ونفرت کی فضاء نے ملک میں درندگی وبہیمیت کا ماحول بنا رکھا ہے،سیاسی حکمرانوں کا ایک بڑاحصہ بدعنوانی کے سمندرمیں غرق ہے۔ان کے خلاف فوجداری مقدمات اسکا کھلا ثبوت ہیں،معصوم اورنابالغ لڑکیوں کے علاوہ بالغ عورتوں کی عصمت ریزی اورقتل کے واقعات کا ایک تسلسل ہے جودرندگی وبہیمیت کا روپ دھارے ہوئے ہے،ان کی شیطانیت ایک شریف اورباعزت انسانی معاشرہ کوخون کے آنسورلا رہی ہے، یہ دردوکرب کچھ کم نہیں تھا کہ مزیداس غم واندوہ میں اضافہ اس بات سے ہورہاہے کہ ان بدطینت انسان نمادرندوں کی پشت پناہی اوران کی حمایت میں کچھ سیاسی رہنماء اٹھ کھڑے ہیں ،یہ ملک کی سیاست اورحکومتی اورقانونی سطح کے اداروں کیلئے باعث شرم ہے۔ان جیسے بہیمانہ واقعات کے تدارک کیلئے حکومت ،انصاف اورقانون کے ادارے حرکت میں نہ آئیں اور اپنا فرض منصبی بھول جائیں تو پھرملک کی سالمیت کیلئے شدید خطرہ ہے۔ اس کو ہر منصف مزاج شہری محسوس کررہاہے ، اوربعض ایسے قائدین جن سے عام طورپر کوئی خیرکی توقع نہیں کی سکتی وہ بھی ان بدبختانہ واقعات سے متاثرہوکریہ کہنے پر مجبورہیں کہ ملک میں اسلامی شریعت جیسے قوانین نافذکئے جائیں ،چنانچہ مہاراشٹر کے نونرمان سینا کے قائدراج ٹھاکرے نے اس کا مطالبہ کیاہے۔اسلام دین فطرت ہے، یہ گویا فطرت کی آوازہے،اس حقیقت کوساری انسانیت قبول کرے،اسی میں انسانیت کی صلاح وفلاح اور نجات وکامرانی کا رازمضمرہے،چونکہ انسانوں اورساری کائنات کا خالق ومالک ہی حقیقی معنی میں حکمران ہے’’حکم اللہ ہی کیلئے ہے ،اسکے سواکسی کیلئے نہیں،اوراسکا یہ بھی فرمان ہے کہ اسکے سواتم کسی کے بندگی واطاعت نہ کرو یہی درست طریقہ ہے‘‘(یوسف:۴۰) اسی قادروقیوم پاک ذات نے انسانوں کیلئے قانون بنایاہے ،قرآن پاک میں جابجا اس حقیقت کوبیان کیا گیاہے۔ سیدنا محمدرسول اللہ ﷺخاتم النبیین ہیں اورآپ ﷺ کا عظیم اسوئہ حسنہ اورفرامین مبارک ساری انسانیت کیلئے دوسرے درجہ میں قانون کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ارشادباری ہے’’اے ایمان والو! اللہ سبحانہ کی اطاعت کرواوررسول(ﷺ)کی اطاعت کرو،اورتم میں سے الوالامر یعنی اختیاروالوں کی ‘‘ (النسائ:۵۹)اصل اطاعت تواللہ سبحانہ وتعالی کی ہے،خبردار!مخلوق بھی اللہ سبحانہ کی ہے ،حکم بھی اسی کا حق ہے(الاعراف:۵۴) اوراسکے رسول اللہ ﷺ کی اطاعت بھی مطلق واجب ہے،چونکہ آپ ﷺ اللہ سبحانہ کے محبوب اوراسکے منشاء کا مظہراوراسکی آیات اوراحکام کے شارح ہیں ،اس لئے اللہ سبحانہ وتعالی کے ساتھ آپ ﷺ کی اطاعت بھی مستقل طورپرواجب ہے۔ارشادباری ہے’’جس نے رسول ﷺکی اطاعت کی دراصل اس نے اللہ سبحانہ کی اطاعت کی‘‘(النسائ:۸۰) اولوالامرمیں امراء وحکام اورعلماء وفقہاء سب شامل ہیں لیکن ان کی اطاعت مطلق نہیں بلکہ اللہ اوراسکے رسول ﷺکی اطاعت کے ساتھ مشروط ہے ۔الغرض معروف میں ان کی اطاعت ہے معصیت میں نہیں(مسلم:۱۸۴۰)اسلام نے جونظام عدل قائم فرمایا ہے اسکی اصل اساس شریعت مطہرہ ہے اوراسکا ماخذوحی الہی ہے جوانسانوں کی ضروریات اوران کی نفسیات کا کامل احاطہ کرتاہے ،قانون سازی میں آسمانی ہدایات سے انحراف اورقانون کے نفاذ میں جانب داری وتحفظات کا رجحان نظام عدل کوداغدارکردیتاہے۔نظام عدل کوصاف وشفاف ہونا چاہیئے تاکہ سماج سے ظلم کا خاتمہ ہو،بلاتخصیص دین ومذہب ،خاندان وقبیلہ ،علاقہ وزبان ،امیروغریب ،حاکم ورعایہ مظلوموں کو انصاف ملے۔عدل وانصاف کا خون ہوتارہے تو پھرجرائم کا سدباب ممکن نہیں رہے گا،جمہوری ملکوں میں اجتماعی کلچروتہذیب کا گلشن خزاں رسیدگی کا شکارہوجائے گا ،مضبو ط ومستحکم اوردیرپا حکومت کا تصور ایک خواب وخیال بن جائے گا۔