اسلام دشمنی

مفتی حافظ سید صادق محی الدین فہیم
ہندوستان ایک سیکولر اور جمہوری ملک ہے ، جس میں مختلف مذاہب کے ماننے والے رہتے بستے ہیں ۔ آزادی سے پہلے تک اس ملک پر انگریزوں کا تسلط تھا ، اس ملک کے باسیوں نے انگریزوں کی غلامی سے آزاد ہونے کا خواب دیکھا ، اس کیلئے سارے مذاہب کے ماننے والوں نے قربانیاں دیں ، مصیبتیں جھیلیں مشترکہ جد وجہد کے بعد کہیں جا کر اس خواب کی تعبیر مل گئی اور ملک انگریزوں کی غلامی سے آزاد ہوگیا ۔ آزادی کے جشن منائے گئے اور سبھوں نے مل کر یہ عہد کیا کہ ہم اس ملک کے سیکولر کردار کو باقی رکھتے ہوئے ملک کو ترقی دیں گے ۔چنانچہ ایسا ہی ہوا ، اس ملک نے اپنے سیکولرکردار کی وجہ دنیا میں بڑا نام کمایا ، آزادی کے بعد دستور و قانون بھی ایسا ہی مدون ہوا ، جس میں اس ملک کے رہنے والے تمام باشندوں کے حقوق تسلیم کئے گئے اور جمہوری اقدار پر مبنی ایسے آئین و قوانین بنے جس میں ہر ایک کو اپنے اپنے دین و مذہب پر رہتے ہوئے زندگی گزارنے کا جائز حق مل گیا ، لیکن موجودہ سیاسی منظرنامہ کی تبدیلی کے بعد جو صورتحال اس وقت اس سیکولر ملک کو درپیش ہے ، وہ بڑی کربناک ہے اور اس ملک کو اس وقت اس کی وجہ سخت خطرہ لاحق ہوگیا ہے ۔ اس ملک کا سیکولر کردار اگر مجروح ہوجائے تو پھر ہندوستان کی اپنی خصوصی شناخت کہاں باقی رہ سکے گی ۔ ہندوستان کا قانون تو انسانیت پر ایقان رکھنے والا رہا ہے ۔ پیار و محبت ، بھائی چارہ ، انسانی اخوت اس دیش کی پہچان رہی ہے ۔ قدم سے قدم ملا کر ہر ایک نے اس دیش کو ترقی دینے میں اپنا نمایاں حصہ ادا کیا ہے ۔ آزادی سے بہت پہلے اس ملک پر کئی مسلم بادشاہوں نے حکومت کی ، لیکن اس شاہی دور میں بھی انسانوں کا احترام اور ان کے مذاہب کا احترام رہا ہے ، یہ کس قدر افسوس کی بات ہے ۔

اس ملک کو اس وقت اس ملک میں ہی رہنے والوں سے شدید خطرہ لاحق ہوگیا ہے ۔وقفہ وقفہ سے ایسی آوازیں آرہی ہیں جو اس سیکولر ملک کیلئے ایک بہت بڑا سوال ہیں ۔ صدائے بازگشت کی طرح مسلسل ایسی آوازیں کانوں سے ٹکرارہی ہیں ،جو ملک کے سیکولر کردار پر ایک بہت بڑا داغ ہیں۔ اور یہ حالات سارے ملک کے دستور کو چیلنج کررہے ہیں ۔ کوئی کہتا ہے کہ بھگوت گیتا کو قومی کتاب کا درجہ دیا جائے ۔ ایک ایسی آواز بھی سنائی دی جو حد درجہ غیر اخلاقی انسانی تہذیب کے مغائر اور دستور کے سراسر خلاف ہے ، جس میں شری رام کے نہ ماننے والوں کو کھلے عام گالی سے نوازا گیا ۔ ملک دشمن ایک تنظیم کے ایک ذمہ دار نے دسہرہ کی تقاریب کے دوران کہا ’’اب وقت آگیا ہے کہ ملک کو ہندو راشٹرا بنایا جائے اور تمام ہندوستانیوں کو ہندو کہا جائے‘‘ ۔ ملک کی آزادی میں ایک بڑا کردار ادا کرنے والی ذات مہاتما گاندھی کے قاتل ناتھورام گوڈسے کو ایسی ہی ایک تنظیم کے رکن نے محب وطن قرار دیا ۔

ہندوستان کی ایک تاریخی مسجد کو ملک دشمن طاقتوں نے قانون کے رکھوالوں کے زیر سایہ شہید کردیا ۔ بابری مسجد کی شہادت خود جمہوریت کی پیشانی پر ایک بہت بڑا کلنک ہے ، یہ داغ بڑی حد تک اس وقت مٹ سکتا ہے ، جب کہ اسی جگہ پر بابری مسجد کی تعمیر کردی جائے ،اس تاریخی مسجد کی شہادت کیلئے ملک دشمن عناصر نے ایک من گھڑت کہانی گھڑی اور کہا کہ ’’بابری مسجد مندر کو منہدم کرکے تعمیر کی گئی تھی‘‘ جو سراسر جھوٹ پر مبنی ہے ، تاریخی آثار و شواہد اس کے خلاف ہیں ۔ اسلامی احکام کی بجا آوری مسلمانوں کو ہر دور میں عزیز رہی ہے ، مسلمانوں نے کبھی بھی ناجائز زمین پر مسجد تعمیر کرنے کو جائز نہیں سمجھا ۔ فرقہ پرست عناصر یوں تو عرصہ دراز سے ملک میں نفرت کا زہر گھول رہے ہیں ۔ مذہب ، علاقہ و زبان وغیرہ کو بنیاد بنا کر انسانوں کے درمیان دشمنی کے تخم بورہے ہیں ، لیکن موجودہ سیاسی انقلاب کے بعد فرقہ پرست عناصر کے حوصلے اور بلند ہوگئے ہیں ۔ بار بار وہ اپنے ناپاک عزائم کا کھلے عام جارحانہ انداز میں اظپار کررہے ہیں ، اور یہ تاثر دینے کی کوشش کررہے ہیں کہ اب اس مملکت کو ایک ہندو ملک بنانے میں کوئی رکاوٹ باقی نہیں رہی ، اور یہ بھی برملا اظہار ہورہا ہے کہ بابری مسجد کی جگہ رام مندر تعمیر ہو کر رہے گا ۔ ظاہر ہے کسی جگہ ایک مرتبہ مسجد تعمیر ہوجائے تو پھر قیامت تک وہ مسجد ہی رہتی ہے ، خواہ مسجد کی عمارت باقی رہے یا نہ رہے ، خواہ وہ آباد رہے کہ غیر آباد ۔ ہر حال میں وہ مسجد ہی کے حکم میں رہتی ہے ۔ مسجد ایک مقدس مقام ہے جہاں معبود حق کی عبادت وبندگی بجالائی جاسکتی ہے ۔ دین حق کا پیغام وہاں سے نشر ہوسکتا ہے ۔ دین و اخروی احکام پر مبنی اچھے اور مبنی بر خیر کام انجام دئے جاسکتے ہیں ، تعلیم و تربیت کے ذریعہ انسانوں کو نکھارا جاسکتا ہے ۔ سماج و معاشرے میں ہونے والے مظالم کے خلاف مبنی برانصاف فیصلے کئے جاسکتے ہیں ۔ لیکن ان سب میں نماز و عبادت ، ذکر و اذکار کا ہر کام پر تفوق حاصل ہے ، الغرض ان جیسے پاکیزہ مقاصد کے علاوہ کسی بھی ناروا مقصد کیلئے مسجد کا استعمال جائز نہیں ہے ۔ چہ جائے کہ اس کو بت خانے میں تبدیل کردیا جائے ، اسلام تو توحید خالص کا داعی ہے ، مسلمان اسی توحید خالص کے علمبردار ہیں ۔ ارشاد باری ہے مساجد تو صرف اللہ ہی کیلئے خاص ہیں ، اللہ کے ساتھ وہاں تو کسی اور کو پکارا ہی نہیں جاسکتا (الجن 18) یعنی مساجد کا مقصود تو صرف ایک اللہ کی عبادت ہے ، وہاں اللہ کی عبادت کے سوا کسی اور کی عبادت ہرگز نہیں کی جاسکتی ۔

ہندوستان جیسے سیکولر ملک میں ملک دشمن عناصر نے کئی مرتبہ مسلمانوں کی جان و مال ،عزت و آبرو سے کھلواڑ کیا ہے اور سیکولر ملک کے دستور کی دھجیاں اڑائی ہیں ، لیکن اب ان کے دین و ایمان پر ڈاکہ ڈالنے کی تیاری کی جارہی ہے ۔ روزنامہ سیاست 13 ڈسمبر کے اخبار میں یہ خبر شائع ہوئی ہیکہ آر ایس ایس کی محاذی تنظیم ’’دھرم جاگرن سمیتی‘‘ کی جانب سے ورقیے تقسیم کئے گئے ہیں ، جس میں لکھا گیا ہے کہ ایک مسلمان کو ہندو بنانے پر پانچ لاکھ روپئے اور ایک عیسائی کو ہندو مذہب قبول کرانے پر دو لاکھ روپئے خرچ کئے جائیں گے اور اس تنظیم نے ہندوستان بھر میں مسلمانوںکو ہندو بنانے کی مہم کا آغاز کرتے ہوئے سالانہ دو لاکھ افراد کے تبدیلی مذہب کا نشانہ مقرر کیا ہے ۔ جس میں ایک لاکھ مسلمانوں اور ایک لاکھ عیسائیوں کو ہندو بنایا جائے گا ۔ اس سلسلے میں 25 ڈسمبر کو ایک بڑا پروگرام منعقد کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے ۔ ہندوستان کے مختلف علاقوں میں مسلمانوں کے ساتھ دیگر اقلیتوں جیسے عیسائی مذہب کے ماننے والوں کو ہندو مذہب میں شامل کرنے کے کام کو گھر واپسی کا نام دیا گیا ہے ، چنانچہ آگرہ کے ایک دیہات میں جہاں ایسے مسلمان رہتے ہیں جو لکھنا پڑھنا نہیں جانتے ان کے سامنے سرکاری اسکیمات پیش کرکے ان کو آدھار کارڈ و دیگر مراعات کا لالچ دیا گیا اور ان کی جہالت سے خوب فائدہ اٹھایا گیا ، اور ایسے ہی ڈرامے کرتے ہوئے وہ چاہتے ہیں کہ ملک میں ہلچل پیدا کی جائے ۔ اور اس کے ذریعہ اپنے مقاصد میں کامیابی حاصل کی جائے ، لیکن علاقہ آگرہ کے ان مسلم خاندانوں نے ان کی سازشوں کا جواب دے کر یہ ثابت کردیا کہ مسلمان جو ایمانی حرارت سے سرشار رہتے ہیں ، وہ کبھی اپنا مذہب کسی قیمت پر بھی تبدیل نہیں کرسکتے ۔ دراصل ہندو تنظیموں نے ان کی ناخواندگی اور لاعلمی کا فائدہ اٹھا کر پوجا پاٹ کے مقام تک لانے کی ضرور کوشش کی ہے ، لیکن ان ایمان والوں ین اسلام کا دامن ہرگز نہیں چھوڑا ہے ، سادہ لوح مسلمانوں کو دھوکہ دینے کی یہ ایک مہم ہے جس سے وہ اپنے ناپاک عزائم کو عملی جامہ پہنانے کی منصوبہ رکھتے ہیں ۔

اس وقت مسلمانوں کو دو محاذ پر کام کرنے کی ضرورت ہے ۔ ایک تو خارجی محاذ ہے وہ یہ کہ مسلم دشمن عناصر سے اپنے آپ کو چوکنا رکھا جائے اور ملک دشمن عناصر جو اس وقت ناپاک عزائم کی تکمیل کے لئے منصوبہ بند سازشیں کررہے ہیں ، اس کے خلاف دستور قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے اس کو ناکام بنانے کی ہرسطح پر کوششیں جاری رکھی جائیں ۔ اور دوسرا محاذ داخلی ہے کہ مسلمان اپنے اندر کلمہ کی بنیاد پر اتحاد قائم کریں ، اور اپنے اپنے ذاتی مفادات و فروعی اختلافات سے بالاتر ہو کر اسلام اور انسانیت کی خدمت کو اپنا نصب العین بنائیں ۔ شہروں کے علاوہ خاص طور پر دیہاتوں اور غریب بستیوں میں مساجد و مدارس قائم کرکے اسلام کی اشاعت کا بیڑا اٹھائیں ، سماجی و معاشرتی سطح پر انسانوں کی بنیادی ضرورتیں جیسے صحت و روزگار وغیرہ کی فکر کریں تاکہ مسلمانوں کے دین و ایمان کی حفاظؒ کے ساتھ ان کی مادی ضروریات بھی پوری ہوسکیں ۔ اس وقت غریب عوام کیلئے مادی سہاروں کی بھی ضرورت ہے اور روحانی سہاروں کی بھی ، مادی سہاروں کے ساتھ روحانی سہاروں کا رشتہ جڑا ہوا ہے ، فقر و محتاجی انسان کو کہیں کا نہیں رہنے دیتی ، بسا اوقات غربت وافلاس انسان کو کفر کی سرحدوں تک پہنچادیتا ہے ۔

غربت و افلاس اس وقت ہندوستان کا ایک اہم مسئلہ ہے ۔ تعلیم ، صحت ، روزگار سے ہزاروں انسان محروم ہیں ۔ ایسے میں مسلمانوں کو اور خاص طور پر سرمایہ دار مسلمانوں کو اور قائدین کو اس کام کیلئے آگے آنا چاہئے اور اس خصوص میں متحدہ کوششیں جاری رکھنا چاہئے ۔ اس طرح کی کوششوں سے اگر غفلت برتی جائے تو ملک دشمن طاقتوں کو غریب و لاچار مسلمانوں کی سادہ لوحی ، بے بسی اور مجبوری کا ناحق فائدہ اٹھانے کے مواقع ملتے رہیں گے ، مسلم پرسنل لاء بورڈ کے ذمہ داروں نے مسلمانوں کو آپسی اتحاد و غریب مسلم طبقات کی امداد کرنے کی تلقین کرکے وقت کی نبض پر ہاتھ رکھا ہے ، سنجیدگی کے ساتھ اس پر توجہ کرنے اور اس کو عملی جامہ پہنانے کی ضرورت ہے ۔