اسلامی تہذیب کا احیاء اسلامی سائنس کے بغیر نہیں ہوسکتا ڈاکٹر محمد ذکی کرمانی سے ایک انٹرویو

ڈاکٹر محمد غطریف شہباز ندوی
س : آپ کا شخصی تعارف (مختصر)
ج :  جہاں تک شخصی تعارف کی بات ہے تو میری ابتدائی تعلیم ہمارے گاؤں بڈھولی ضلع بلند شہر یو پی میں ہوئی ۔ وہیں کے مکتب میں پڑھا۔ چھٹی کلاس سے گیارہویں تک سٹی ہائی اسکول میں تعلیم حاصل کی۔ بی اے ایم اے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے (سائنس سائڈ سے) کیا اور کیمسٹری میں IIT دہلی سے پی ایچ ڈی کی ۔ طالب علمی ہی میں تحریک اسلامی سے تعارف ہوگیا تھا ۔ جب تعلیم سے فراغت ہوئی اور عملی دنیا میں قدم رکھا تو طلبہ تحریک (ایس آئی ایم) نے شروع میں دو سال مانگے۔ پھر اس میں توسیع ہی ہوتی گئی ۔ آغاز میں کام کا نقشہ بھی بہت زیادہ واضح نہیں تھا بس شروع کردیا پھراس میں ارتقاء ہوتا گیا ۔ تحریک اسلامی اور اس کے تحت اسلامی سائنس کے مطالعہ و تحقیق کو ہی اوڑھنا بچھونا بنالیا اور اسی میں ترجمہ و تحقیق و تصنیف کا سلسلہ کسی نہ کسی حد تک چل رہا ہے۔
عام مطالعہ کا رجحان بچپن سے ہی رہا، شبلی کی کتابیں پڑھیں، تاریخ اسلام ، ابن صفی کے ناول جو آج تک پڑھتا ہوں ، تاریخی ناول وغیرہ تحریک سے وابستگی کے بعد مذہب کے عقلی تصور سے متعلق جو کچھ ملتا اسے پڑھتے رہے۔ ایسے لوگوں کی صحبتیں بھی حاصل رہیں جو سوچ کو جلادیں۔ ادبی ، فکری ، معاشرتی تنقیدیں جو مغرب پر ہوتی تھیں ان کو پڑھتے ہوئے اچھالگتا تھا۔ بعد میں یہ بھی احساس ہوا کہ شعوری طور پر پڑھا جائے اور بعض پہلووؤں پر زیادہ گہرے مطالعہ اور گہری تنقید کی ضرورت ہے۔
س : مغرب کیا ہے؟ مغربی تہذیب کیا ہے؟ اور مغربی سائنس کیا ہے؟
ج : بنیادی طور پر مغرب ایک نقطہ نظر کا نام ہے کہ انسان کے بارے میں مغرب کے آدمی کا کیا تصور ہے۔ ان کا تصور کائنات اور ورلڈ ویو کیا ہے ، نیز انسان و کائنات کے بارے میں ان کا تصور کیا ہے ۔ اسی نقطہ نظر سے مغربی تہذیب پیدا ہوئی ہے ۔ دوسری بات یہ ہے کہ مغرب کے انسانوں کی بڑی ا کثریت کا خیال یہ ہے کہ انسان اپنے مسائل حل کرنے کیلئے کسی بیرونی ذریعہ کا محتاج نہیں ہے ، اس کی عقل ہی کافی ہے ۔ غالب تصور تو یہی ہے۔ ویسے خود مغرب ہی میں اس تصور پر اور عقل و ذہن کی کلیت پر بہت شاندار نقد بھی ہوا ہے ۔ اسی سے یہ سوچ پیدا ہوئی ہے کہ کائنات کی اشیاء اور وسائل انسان کی ملکیت ہیں اور وہ اس کیلئے کسی کے آگے جواب دہ نہیں ہے ۔ اس تصور کے نتیجہ میں مغربی انسان کائنات سے جو عملاً تعامل کرتا ہے وہی مغربی سائنس ہے جو مغربی تہذیب کا ایک ناگزیر حصہ ہے ۔
س : کیا مغرب سراسر شر ہے ؟
ج : دیکھئے مغرب کو سراسر شر تو نہیں کہا جاسکتا۔ مغرب انسان کی آزادی کی بات کرتا ہے ۔ اسلام نے بھی انسان کو آزادی دی ہے ، حضرت عمرؓ نے جو بات مصر کے گورنر کو تنبیہ کرتے ہوئے فرمائی تھی کہ ’’تم نے انسانوں کو کب سے غلام بنالیا جبکہ ان کی ماؤں نے ان کو آزاد جنا تھا ‘‘ یہ انقلابی جملہ تھا ۔ ہمہ گیر اثرات رکھنے والا خوبصورت جملہ تھا ۔ اس لئے فرد کی آزادی سے مغرب نے جو کچھ حاصل کیا ہے اس کو سراسر شر نہیں کہہ سکتے۔ انسان کے ساتھ معاملات  کرنے میں مغرب کے تصورات بہت اچھے رہے ہیں۔ البتہ ہم ان کی مطلق آزادی کے تصور کو نہیں لے سکتے کیونکہ اس میں انسان کسی کو جواب دہ نہیں ہوتا۔ یہی وہ نکتہ ہے جہاں سے خرابی شروع ہوتی ہے۔
س :  مسلمان مغرب سے کیا اخذ کریں اور کیا چھوڑیں ؟
ج : مغربی انسان نے جو کچھ کیا ہے ، وہ کتنا مفید ہے ، ان کی جو اقدار اسلام سے ٹکراتی ہیں ، وہ کون سی اقدار ہیں ان کو ہمیں پہچاننا چاہئے ۔ پہلے ہم بھی سمجھتے تھے کہ سائنس مطلق چیز ہے ۔ تمام انسانوں کی مشترکہ میراث ہے ، اس میں کوئی اقدار اور Values کی کارفرمائی نہیں ہے لیکن ایسا نہیں ہے ۔ ہمیں اس میں کارفرما اقدار کو جاننا اور سمجھنا چاہئے ۔ اب سائنس و ٹکنالوجی کے ذریعہ اخلاق کی پامالی زیادہ ہورہی ہے۔
س : مغربی سائنس و ٹکنالوجی کو کیا مغربی تہذیب سے الگ کر کے دیکھا جاسکتا ہے؟
ج : صرف مغرب ہی نہیں کسی بھی قوم کی سائنس کو اس کی تہذیب سے الگ کر کے نہیں دیکھا جاسکتا۔ عقائد کی بحث تو بعد میں آتی ہے ، رویے ، اخلاق اور معاملات انسانوں کو متاثر کرتے ہیں۔ جو لوگ یہ بات کہتے ہیں کہ مغرب کا ایک پورا پیکیج ہے ۔ ہمیں سائنس و ٹکنالوجی لینی ہوگی تو مغرب کے اقدار بھی لینے ہوں گے ، ان دونوں کو الگ نہیں کرسکتے۔ تو علی الاطلاق ایسا نہیں ہے ۔ انسان کو اللہ نے عقل دی ہے ، ذہانت دی ہے ، ہم مضر چیزیں چھوڑ سکتے ہیں۔
س : سائنس کی فکریات سے آپ کی کیا مراد ہے؟
ج : سائنس کی فکریات سے مراد سائنس کی علمیات و سائنس کی اقدار ہوتی ہیں۔ سائنس میں مفروضات ہوتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ پہلے وہ کیا ہوتے تھے ، اب کیا ہوتے ہیں۔ سائنس میںبڑی تبدیلی آئی ہے، پہلے سائنس سنجیدگی کانام تھی ، اب وہ غنڈہ گردی ، اجارہ داری قبضہ ، ثروت اور استعمار کا نام ہے۔ سائنس پر بڑی طاقتوں اور اسی طرح اس کی تاریخ اس کے کاموں وغیرہ پر بڑی طاقتوں اور بڑے ملکوںکی اجارہ داری ہے ۔ سائنس کی فکریات میں یہ بھی آتا ہے کہ معاشرہ سائنس کو کیسے قبول کرتا اور آگے بڑھاتاہے ۔ اس کے علاوہ اب خود سائنس کا بھی مطالعہ کیا جاتا ہے کہ اس میں کیا ہورہا ہے کیا نہیں ہورہا ہے ۔ لیباریٹری میں کس طرح تحقیق ہورہی ہے، سائنس کے جرنلوں میں کون سے موضوعات پر تحقیقی پیپرز چھپ رہے ہیں وغیرہ۔ سائنس کے بارے میں یہ مفروضہ ہے کہ وہ Truth کی تلاش کا نام ہے لیکن مطلقاً ایسا نہیں بلکہ ایسا بھی ہوتاہے کہ بعض صداقتوں اور سچائیوں کو چھوڑ بھی دیاجاتا ہے اور بعض سچائیوں کو لے لیا جاتا ہے ۔ سائنس آج بنیادی طور پر جدید و ہائر ٹکنالوجی پر انحصار کرتی ہے جو تیسری دنیا کے لوگوںکو میسر نہیں ، مغرب کی بڑی طاقتوں کی اس پر اجارہ داری ہے اس لئے پوری تیسری دنیا کاالمیہ یہ ہے کہ وہ اس کے اندراپج نہیں، جدت نہیں، وہ صرف مغرب کی نقالی کرتی ہے۔
س : اسلامی سائنس کے پراجکٹ کو کیسے آگے بڑھایا جاسکتا ہے ؟ کچھ لوگ کہتے ہیںکہ یہ حکومتوںکے کرنے کا کام ہے ، افراد کا نہیں۔
ج : آپ کا اصل مقابلہ آج سائنس و ٹکنالوجی سے ہی ہے ، کیونکہ آج کی دنیا انہیں کی پیدا کردہ ہے اور آج کی دنیا کو سائنس و ٹکنالوجی ہی چلارہی ہے ۔ اسلامی سائنس کے پراجکٹ کو آگے بڑھانا معمولی کام نہیں بلکہ وجود و بقاء کا مسئلہ ہے ۔ سائنس کے بارے میں ایک بڑی غلط فہمی لوگوں کو ہے ، علماء کو بھی ہے اور اسلامی تحریکات کو بھی یعنی ان کا یہ مفروضہ ہے کہ سائنس حکومتوں کی غلام ہوتی ہے ۔ آپ کے ہاتھوں میں اقتدار آگیا تو اصل مسئلہ حل ہوگیا ۔ ایسا نہیں ہے۔ اب سائنس داں ہی حکومت کرتے ہیں۔ سائنس و ٹکنالوجی کی قوت کے بغیر آج کی دنیا میں کوئی بھی قوم ، ملک ، تہذیب بالکل صفر ہیں وہ کچھ بھی نہیں کرسکتے اس لئے کہ اس کے بغیر ان کا سارا کام Irrelevant ہوکر رہ جائے گا۔ سائنس اس وقت ظلم کا بہت بڑا ذریعہ ہے۔ گہرائی سے آپ سائنس کو نہیں سمجھیں گے تو Change کی Dynamics کو نہیں سمجھ سکتے اور اس کے بغیر کوئی تبدیلی آئے گی بھی نہیں۔
س : آسان الفاظ  میں علوم کو اسلامیانا کسے کہیں گے؟ عام قارئین کیلئے ۔
ج : اسلامائزیشن آف نالج کا مطلب ہے کہ ہر آدمی کا اپنا Talent ، اپنی تخلیقیت پروان چڑھے اور پورا معاشرہ اس کیلئے سازگار ہو۔ ا سلامی سائنس کا آغاز کیسے ہو ؟ ابتداء میں فتوحات اسلامیہ کے بعد مسلمان وراثت کی تقسیم ، نظام محاصل کے حساب و کتاب اور دیوانی کے معاملات میں اور دوسرے مجالات کار میں غیر مسلموں کی چیزوں کو ہی اپناتے رہے ۔ بنی امیہ کے عہد کے شروع میں ہی حضرت معاویہؓ کے پوتے خالد بن یزید نے رومیوںکی طرف سے ایک دھمکی ملنے پر مختلف انداز میں سوچنا شروع کیا کہ ان معاملات میں خود مکتفی کیوں نہ ہوجائیں تو اس طرح انہوں نے اسلام میں سائنس کی روایت کا آغاز کیا ۔ گاؤں میںپہلے لوہار اور بڑھتی سارے گاؤں کی ضرورتیں پوری کرتے تھے، دستکار ہوتے تھے۔ جب سے کارپوریٹ کا دور شروع ہوا یہ تمام چھوٹی چھوٹی صنعتیں دم توڑتی چلی گئیں، اس سے لوگوںکو ملازمتیں اور اونچی تنخواہیں ملنے لگیں لیکن تخلیقیت اور Creativity ختم ہوتی چلی گئی ۔ یہ تیسری دنیا میں آج بھی ہورہا ہے۔ تو سب سے پہلے لوگوں کا Talent بڑھانا، Creativity اور تخلیقیت کو جلادینا ہوگا اس کے بغیر اسلامائزیشن کا کوئی مطلب ہی نہیں۔ مغرب میں انسان کو پوری آزادی حاصل ہے۔ مطلق آزادی ، فرد کو پوری آزادی حاصل ہے جس کی وجہ سے ان کے اندر تخلیقیت پیدا ہوتی ہے۔ ہم مغرب میں جاکر بھی اپنے اندر تخلیقیت پیدا نہیں کرتے ، زیادہ سے زیادہ جو کرتے ہیں یہ کہ اچھے ٹیچر بن جاتے ہیں۔ وہاں مشہور ہے Indians are good teachers, not good scientists
س : IIIT سے آپ کی فکراورکام کس حد تک مختلف ہے ؟
ج : IIIT سے ہمارا کام بہت مختلف ہے۔ اسماعیل راجی الفاروقی صاحب کا ایک ویژن تھا جو ان کی وفات کے بعد ختم ہوگیا ۔ ان کے بعد لوگوں نے لٹریچر تو بہت تیار کیا ہے مگر وہ ان کے اصل ایجنڈے کے مطابق نہیں ہے، کائنات کے بارے میں اسلام کا تصور کیا ہے جب تک یہ واضح نہ ہو تب تک آپ اپنے Prospective کو Define نہیں کرپائیں گے۔ IIIT کا کام چلنے والا نہیں تھا ۔ ہمارے اور ان کے کام میں بنیادی فرق ہے ۔ ان کے ہاں سائنس نہیں تھی ۔ علوم کو کس طرح Islamize کریں گے ، یہ بھی واضح نہیں تھا ۔ موجودہ غالب تعلیمی نظام میں رہتے ہوئے انسان کی خلاقانہ قوت پروان نہیں چڑھتی ، اس کا کوئی موثر متبادل ان کے پاس نہیں تھا ۔ انہوں نے ملیشیا اور پاکستان میں دو اسلامی یونیورسٹیاں قائم کیں مگر وہ بڑے مدرسے بن کر رہ گئیں۔
س : دینی جماعتیں اور اسلامی تحریکیں آپ کے فکر اور کام میں کچھ معاون ہیں یا نہیں ؟
ج : دینی جماعتیں اور تحریکیں ہمارے اس کام میں بالکل معاون نہیں ہیں۔ ان کے ہاں اس چیز کی بالکل اہمیت نہیں ہے ۔ مثلاً اسلامی تحریکات کا جو ایجنڈہ ہے اس پر سیاست کا غلبہ ہے حالانکہ اسلامی تہذیب سیاست پر Depend نہیں ہے ۔ آپ اقامت دین کا نشانہ رکھتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ہم کب یہ کہیں گے کہ اللہ کا دین قائم ہوگیا یا نہیں ہوا کیونکہ تو یہ تو ایک مستقل عمل ہے ۔ اسلامی اقتدار یا حکومت کے قائم ہونے سے اسلام قائم نہیں ہوتا۔ اس لئے دین کے بجائے ہم تہذیب کے قیام کی بات کرتے ہیں۔
س : اسلامی تہذیب کے احیاء کیلئے آپ کے پراجکٹ میں کیا امکانات ہیں؟
ج : اسلامی تہذیب کا احیاء اس عمل کے بغیر ہو ہی نہیں سکتا۔ ہاں تہذیبی عمل بغیر اقتدار کے ہوسکتا ہے ۔ مثلاً ازالۂ ، غربت یہ دین کا کام بھی ہے ، تہذیبی عمل بھی۔ مواقع لوگوں کو دلائیں، تعلیم میں ہم بہت آزاد ہیں۔ اچھے اور معیاری اسکول قائم کریں ، ہماری تہذیب کا اظہار ان سے ہو گا ۔ اسپتال قائم کریں، انسانوں کی خدمت کریں، فلاح و خیرات کے کام کریں۔ مدرسہ کے نظام تعلیم کو Mould کر کے پڑھائیں۔ یہ ایک جہد مسلسل ہے ۔ اقبال کے ہاں جہد مسلسل کا نام ہی عشق ہے۔ اسی طرح سیول سوسائٹی کا تہذیب و معاشرہ میں بہت بڑا رول ہے ۔ نظرانداز نہیں کرسکتے۔