اسرائیل کے خلاف بین الاقوامی عدالت میں مقدمہ کیوں نہیں چل سکتا؟

غضنفر علی خان

مظلوم فلسطینیوں پر جورو ستم کو ایک ماہ سے زیادہ عرصہ گذر گیا ہے، ابھی تک 2لاکھ فلسطینی بے گھر ہوگئے ہیں،14ہزار شہری زخمی ہوئے ہیں۔ ہلاکتوں کے اعداد و شمار تو اس تیزی سے بڑھ رہے ہیں کہ ان کا شمار کرنا بھی مشکل ہوگیا ہے۔ لیکن کسی عالمی ادارہ نے ، کسی انسانی حقوق کی تنظیم نے یا ایمنسٹی انٹر نیشنل نے ابھی تک اسرائیل کے ان جنگی جرائم اور اس انسان دشمنی کے خلاف بین الاقوامی عدالت سے رجوع ہونے کا ذکر تک نہیں کیا ہے۔ غزہ پٹی میں اندھا دھند فضائی اور زمینی حملے جاری ہیں۔ معصوم بچے ہلاک ہورہے ہیں، اس سے زیادہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی اور کیا ہوسکتی ہے۔ کیوں اتنے بڑے قتلِ عام کے خلاف قانونی کارروائی نہیں ہورہی ہے۔ مقدس ماہ رمضان میں فلسطینیوں کو شہید کیا جاتا رہا۔عالم اسلام، عرب برادری اور عالمی برادری نے نہ تو جنگ بندی کی کوئی سنجیدہ کوشش کی اور نہ ہی اس سلسلہ میں کوئی ٹھوس پیش رفت کی ہے۔ ان وحشیانہ حملوں کے نتیجہ میں جن کا نشانہ فلسطین کے اسپتال، بچوں کے اسکولس، حدیہ ہوگئی کہ مساجد اور مقدس مزارات بھی نشانہ بنائے جارہے ہیں۔ کسی گوشہ سے آواز کا نہ اُٹھنا اس بات کی علامت ہے کہ مذکورہ تمام نام نہاد ادارے فلسطینیوں کے قتلِ عام پر متفق ہیں۔

ہر روز اموات، ہر گھڑی تباہی و بربادی ہورہی ہے لیکن فلسطینیوں کی حمایت میں کوئی ٹھوس کام انجام نہیں دیا جارہا ہے۔ دنیا کیوں اندھی ، بہری ہوگئی ہے۔ اس ظلم کو ایک نظیر بناکر دنیاکے اور علاقوں میں بھی طاقتور ممالک وہاں کے کمزور ممالک کو ایسی ہی بلکہ اس سے زیادہ بربریت کا نشانہ بناسکتے ہیں۔ اس پس منظر میں تو یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ اب ہماری برائے نام مہذب دنیا ، وحشیوں ، دَرندوں اور موت کے سوداگروں کے حوالے ہوگئی ہے۔

فلسطین خود کی مدافعت نہیں کرسکتا، وہ دفاعی لحاظ سے اسرائیل کے مقابلہ میں کمزور ہے تو اس کا مطلب یہ نہیںہوتا کہ فلسطین کو یہودی اسرائیل کے رحم و کرم پر چھوڑدیا جائے۔ عملاً ہماری دنیا میںحق و انصاف کی پاسداری نہیں رہی، یہ صرف طاقتور ممالک کی دنیا بن گئی ہے۔ یہ بات تو امن عالم ، انسانیت کی فناو بقائسے تعلق رکھتی ہے۔اگر اسرائیل کے جنگی جرائم ، اس کے انسانیت کے خلاف جرائم کی مؤثر انداز میں آج مداخلت نہیں کی گئی تو آئندہ کمزور ملک کے وجود کو خطرہ لاحق ہوجائے گا۔ صرف انسانی قتلِ عام کا جرم ہی نہیں( اسرائیل ڈھٹائی سے کررہا ہے) بلکہ عبادت گاہوں، شفاء خانوں اور مزارات کی مسماری ایک سنگین جرم ہے۔

سمجھا جاتا ہے کہ افغانستان میں کچھ برس قبل جب طالبان نے وہاں کے صدیوں سے موجود مجسموں کوتباہ کردیا تھاتو ساری دنیا میں کہرام مچ گیا تھا۔ جاپان نے تو ان بدھ مجسموں کو اپنے ملک میں پھر سے ایستادہ کرنے کی درخواست کی تھی۔ لیکن آج فلسطین میں تاریخی اہمیت کی حامل عمارتوں اور عبادت گاہوں کو اسرائیل مسمارکررہا ہے تو ساری دنیا خاموش ہے جبکہ عبادت گاہیں خواہ کسی مذہب سے تعلق رکھتی ہوں ‘ بین الاقوامی قانون کے تحت تحفظ کی مستحق سمجھی جاتی ہیں۔ ابھی تک کئی ایسی عمارتوں کو اپنی شل باری اور بم باری میں اسرائیل نے شہید کردیا۔ دنیا کے ذرائع ابلاغ نے جہاں معصوم فلسطینی بچوں کی نعشیں اپنے ویب سائٹ پر دکھائی ہیں وہیں عمارتوں اور عبادت گاہوں کی مکمل تباہی کے مناظر بھی پیش کئے ہیں۔ ایک تاریخ ہے کہ مٹ رہی ہے، ایک قدیم تہذیب ہے کہ فناء ہورہی ہے ، لیکن دنیا اس ساری ہورہی تباہی کی خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ تہذیبی ورثہ کی حفاظت بھی عالمی برادری کی ذمہ داری ہے۔ اگر کسی اور ملک خاص طور پر یوروپ کے کسی ملک میں تہذیبی وراثت کو اس طرح پامال کیا جاتا تو دنیا میں بھونچال آجاتا اور ساری دنیا کا ضمیر جاگ جاتا۔ ہر طرف ہائے ہائے کار ہونے لگتی۔ فلسطین بھی انتہائی قدیم تہذیب کا علمبردار ہے، یہ انبیاء کرام ؑ کی سرزمین ہے جہاں کئی قابل صد احترام نبیوں کی آخری آرام گاہیں ہیں۔ چلئے فلسطینی مرتے بھی ہیں تو دنیا کو شاید کوئی غم نہیں ہوتا، لیکن تہذیبی وراثت اور تاریخی شواہد کو مٹانے کی جومذموم کوشش اسرائیل کررہا ہے ، وہ خود انسانیت کے خلاف ناقابلِ معافی جرم ہے۔ قتلِ عام پر خاموشی سے لیکر وراثت کی تباہی تک ایک خون ریز تاریخ اسرائیل قلمبند کررہا ہے۔

ہونا تو یہ چاہیئے کہ ان جنگی اور انسانی جرائم کی پاداش میں اسرائیل کے خلاف ہیگ کی بین الاقوامی عدالت میں مقدمہ چلایا جاتا، اور اسرائیل کے موجودہ وزیر اعظم نیتن یاہو کے خلاف اسی طرح مقدمہ چلایا جانا جس طرح چیکو سلواکیہ کے ڈکٹیٹر میلوسووچ کے خلاف یا چلی کے ایک اورحکمران کے خلاف چلایا گیا تھا۔ میلو سووچ کو تو بین الاقوامی عدالت نے سزا دی تھی۔ یہی حشر چلی کے ظالم حکمراں کا بھی ہوا۔ نیتن یاہو کے جرائم ان دونوں ظالم حکمرانوں سے کم نہیں، اس لئے وزیر اعظم اسرائیل کے ساتھ بھی یہی سلوک کیا جانا چاہیئے۔ بین الاقوامی عدالت آخر کس مرض کی دوا ہے؟ یہ اگر مظلوم فلسطین کو انصاف نہیں دلاسکتی تو اس کا وجود بے معنی ہے۔
ساری دنیا کے ممالک یہ تسلیم کرتے ہیں کہ اسرائیل ‘ فلسطین میں قتل عام کا بازار گرم کئے ہوئے ہے۔ اسرائیل کی زیادتیوں کو عالمی برادری تسلیم بھی کرتی ہے۔ گاہے ماہے اسرائیل کا سرپرست اعلیٰ امریکہ بھی یہ کہتا رہا ہے کہ فلسطین میں خون خرابہ اور واہی تباہی کا سلسلہ بند ہونا چاہیئے ۔ لیکن امریکہ کا یہ بھی کہنا ہے کہ فلسطین کے حکمراں حماس گروپ کے حملوں کے خلاف اسرائیل کو اپنی دفاع کا حق بھی حاصل ہے، یہ بات کسی اور نے نہیں کہی بلکہ صدر امریکہ بارک اوباما نے کہی ہے۔ جس سے ثابت ہوتا ہے کہ امریکہ درپردہ اسرائیل کی تائید کررہا ہے۔ خود کو انسانی حقوق کا علمبردار اور محافظ کہنے والا امریکہ گویا فلسطینیوں کے قتلِ عام سے ایک طرح متفق ہے۔ اسرائیل مدافعتی جنگ نہیں لڑ رہا ہے اور نہ اس کو فلسطین سے کوئی خطرہ درپیش ہے، خطرہ تو فلسطین کے وجود کو ہے۔ اگر اسی طرح اسرائیل کی جنگی مہم جاری رہی تو غزہ پر اسرائیل کا تسلط قائم ہوجائے گا۔ مدافعت کی ضرورت تو فلسطین کو ہے، اسرائیل کو نہیں ہے۔ یوروپی یونین، ناوابستہ تحریک کے رکن ممالک، عرب لیگ، عرب ممالک اور دوسری تنظیموں کی جانب سے بین الاقوامی عدالت میں مقدمہ دائر کیا جانا چاہیئے۔

بہتر تو یہی ہوگا کہ یہ ادارے اور ممالک اس کام کا بیڑا اُٹھائیں۔ اسرائیل کے سب ہی دوست نہیں ہیں، ایک فلسطین ہی نہیں جس کو اسرائیل اپنا دشمن سمجھتا ہے بلکہ دنیا کے اور کئی ممالک ہیں جنہوں نے بلاشبہ اسرائیل کی ظالمانہ پالیسیوں کی مخالفت کی۔ خود اسرائیل میں یہودیوں کی ایک ایسی لابی موجود ہے جو فلسطین پر جاری اس ظلم کے خلاف آواز اُٹھاتی ہے۔ دنیا کے مختلف ممالک بھی عوامی سطح پر ایسی ریالیاں نکالی جارہی ہیں جن میں اسرائیل کے کالے کرتوتوں کی شدید مذمت کی جارہی ہے۔ اس لئے جنگ بندی کی کوششوں کے ساتھ ساتھ اسرائیل کے خلاف بین الاقوامی عدالت میں جنگی اور انسانی جرائم کی پاداش میں قانونی کارروائی ہونی چاہیئے، لیکن یہ اسی وقت ممکن ہے جب عالمی برادری کا ضمیر جاگے گا۔