نفرتوں کا پھر اُٹھے گا ایک طوفاں چار سو
دل سے گر نقشِ محبت مہرباں مٹ جائے گا
اسرائیل کے خلاف انتفاضہ
مسجد الاقصیٰ القدس اور مغربی کنارہ کے خلاف اسرائیلی جارحیت کے جاری رہنے کے دوران فلسطینی عوام پر پے در پے حملے کرنے والے یہودیوں کی اس بربریت کو روکنے کی عالمی سطح پر اختیار کردہ مجرمانہ خاموشی کے سنگین نتائج برآمد ہورہے ہیں۔ اقوام متحدہ کے بشمول عالمی برادری کو اسرائیل کے خلاف کارروائی کرنے اپنے فرائض سے چشم پوشی اختیار کرتے دیکھ کر مظلوم فلسطینی عوام نے ظلم و بربریت کا سامنا کرنے کا ہر وقت دلیرانہ مظاہرہ کیا ہے۔ فلسطینی عوام کے حقوق کو تسلیم کرنے میں کوتاہی کرنے والی عالمی طاقتیں اس حقیقت کو نظرانداز کرتی آرہی ہیں کہ اسرائیل اپنی زیادتیوں کے ذریعہ فلسطینیوں کی سرزمین پر ناجائز قبضے کرنے کے علاوہ فلسطینیوں کے جان و مال کا دشمن بنا ہوا ہے۔ گزشتہ 3دن سے فلسطینیوں کا عرصہ حیات تنگ کرنے والی کارروائیوں کے بعد فلسطینیوں نے حوصلہ کا مظاہرہ کرتے ہوئے تیسرے مرحلہ کا انتفادہ تحریک شروع کرنے کا اشارہ دیا ہے۔ دو ہفتوں سے مسجد اقصیٰ القدس اور مغربی کنارہ میں اسرائیلی فوج اور فلسطینی عوام کے درمیان جھڑپیں ہورہی تھیں مگر پیر کے دن اس خطہ میں بدامن بڑھتی جارہی ہے۔ ماضی میں فلسطینیوں کی انتفادہ تحریک کے سامنے اسرائیل کی مسلح افواج بھی دم توڑنے والے واقعات کے تجربات سے دوچار ہوئی ہے۔ پہلی انتفادہ تحریک 1987 ء تا 1993 ء اور دوسری تحریک 2000 ء تا 2005 ء کے درمیان چلائی گئی تھی۔ اسرائیلی اور فلسطینیوں میں روزانہ تشدد کے واقعات رونما ہوتے تھے۔ فلسطینیوں نے حالیہ اسرائیلی جارحیت کے خلاف اپنے غم و غصہ کا شدید ردعمل ظاہر کیا ہے۔ یروشلم، غزہ پٹی اور مقبوضہ مغربی کنارہ میں اسرائیلی فوج نے نہتے فلسطینی نوجوانوں کو گولیوں کا شکار بنایا ہے۔ فلسطینیوں نے اسرائیل کے خلاف یوم غضب منایا ہے جبکہ عرب اسرائیلیوں نے فلسطینیوں کی حمایت میں ہنگامی اجلاس طلب کرنے کا فیصلہ کیا۔ فلسطینی لبریشن آرگنائزیشن سکریٹری جنرل صائب ارکات نے اسرائیل کے خلاف بین الاقوامی فوجداری عدالت میں نئی درخواستیں داخل کرنے کا اعلان کیا مگر اس بین الاقوامی عدالت میں بھی اسرائیل کے خلاف مظلوم عوام کی فریاد کو سنی ان سنی کردی جاتی ہے ۔ بیت المقدس اور وسط اسرائیل میں تشدد کے دوران 17 فلسطینی ہلاک ہوئے ہیں۔ اسرائیل اپنی بیجا پالیسیوں اور فلسطینیوں پر عائد کردہ پابندیوں کے ذریعہ فلسطینی عوام کو پریشان کررہا ہے ۔ وحشیانہ طاقت کا استعمال حد سے زیادہ بڑھتا جارہا ہے ۔ اسرائیلی پولیس کو پتھراؤ کرنے والے فلسطینیوں پر گولیاں برسانے کی اجازت دی گئی ہے ۔ عالمی برادری نے صرف صبر و تحمل کی درخواست کی ہے لیکن اسرائیل کی جارحیت کو روکنے کی کوشش نہیں کی ۔ مسجد اقصیٰ کے تعلق سے اسرائیل اپنے قوانین تبدیل کرکے یہودیوں کو بھی مسجد کے احاطے میں داخل ہونے کی اجازت دینا چاہتا ہے جس کو فلسطینی عوام اور سارا عالم اسلام ہرگز قبول نہیں کرسکتا ۔ اسرائیل اگر اس طرح کی تبدیلیاں کرنا چاہتا ہے تو عدم استحکام کے گہرے اور شدید اثرات مرتب ہوں گے ۔ فلسطینیوں نے اپنی انتفادہ تحریک کا دوبارہ آغاز کرنے کا عزم کرلیا ہے تو اسرائیل اس مرتبہ اپنی جارحیت کا رخ مزید سخت کرسکتا ہے ۔ ایسے میں انسانی جانوں کا اتلاف ہوگا ۔ آنے والے دنوں میں مشرق وسطیٰ کو مزید خون ریز واقعات سے بچانے کیلئے ضروری ہے کہ اقوام متحدہ اور دیگر عالمی طاقتیں فوری حرکت میں آکر اسرائیلی اشتعال انگیزی کو ختم کرادیں اور فلسطینیوں کو امن کا ماحول فراہم کریں۔ اسرائیل ایک طرف مذہبی اُمور میں مداخلت کررہا ہے تو دوسری طرف فلسطینیوں کی جان کا دشمن بنا ہوا ہے ۔ یہودی ایشیاء پر چھاتے جارہے ہیں ۔ وہ بھی ایک وقت تھا جب دنیا کے بیشتر ممالک پر مسلمانوں کی حکمرانی ہوا کرتی تھی ۔ اس وقت دنیا بھر میں یہودیوں کی جملہ آبادی ایک کروڑ چالیس لاکھ کے قریب ہے جبکہ ساری دنیا میں مسلمانوں کی آبادی ایک ارب 58 کروڑ سے زیادہ ہے ۔ دنیا کی 20 فیصد آبادی مسلمانوں پر مشتمل ہے مگر اس وقت دنیا میں ایک ہندو کے مقابلے میں دو مسلمان ہیں جبکہ بدھ مت میں بھی یہی تناسب ہے مگر ایک یہودی شخص کے مقابلے میں ایک سو 7 مسلمان ہیں اس کے باوجود ایک کروڑ 4 لاکھ یہودی دیڑھ ارب سے زائد مسلمانوں سے طاقتور کیوں ہیں یہ سوال اہم ہے ۔