محمد مبشرالدین خرم
فلسطین کی مظلومیت کو اگر مسلم ممالک سمجھنے لگتے ہیں اور آزادیٔ فلسطین کیلئے جدوجہد کا حصہ بنتے ہوئے اتحاد کا مظاہرہ کرتے ہیں تو ایسی صورت میں مخالفین اسلام کو شکست سے دوچار کیا جاسکتا ہے۔ امریکہ کی پشت پناہی سے جاری اسرائیلی دہشت گردی جو عموماً ہر سال ماہِ رمضان المبارک کے آ غاز کیساتھ ہی شروع ہوجاتی ہے ۔ اس مرتبہ بھی اسرائیل نے فوجی دہشت گردی کا آغاز کرتے ہوئے مسلم دنیا کو ایک مرتبہ پھر چیلنج کیا ہے کہ اگر ان میں جرأت ہے تو مظلوم فلسطینیوں کے حق کیلئے آواز اٹھاکر دکھائیں۔ غزہ میں معصوم فلسطینیوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس شہر پر اسرائیلی طیارے فضائی حملے کرتے ہوئے تاحال 127 افراد کو شہید کرچکے ہیں۔
اسرائیلی درندوں کا دعویٰ ہے کہ غزہ سے حماس کے فوجی تل ابیب پر حملے کر رہے ہیں اور ان راکٹ حملوں کے نشانہ میں اسرائیلی نیوکلیئر پلانٹ بھی شامل ہے۔ اسرائیلی فوج کے اس مضحکہ خیز دعویٰ پر دنیا کی خاموشی یہ دلیل پیش کر رہی ہے کہ اسرائیلی و امریکی درندگی کو دنیا نے کھلی چھوٹ دے رکھی ہے ، چونکہ جس وقت امریکہ نے عراق پر کیمیائی ہتھیار رکھنے کا الزام عائد کرتے ہوئے حملہ کیا تھا اور صدر عراق کو معزول کرتے ہوئے عراق میں کٹھ پتلی حکمرانی قائم کی تھی ، اس وقت بھی لاکھوں بے گناہ افراد کی اموات پر امریکہ سے کسی نے کوئی سوال نہیںکیا بلکہ عراق میں امریکی درندگی کے بدترین مظاہرہ پر خاموشی اختیار کرلی ۔ اب جبکہ عالم عرب کے حالات تیزی سے تبدیل ہوتے جارہے ہیں، ایسے میں نہ صرف مغربی ممالک ان حالات کی تبدیلی میں اپنا اہم رول ادا کرنے کے متمنی ہیں بلکہ وہ عالم عرب کو مزید گمراہی کی راہ پر برقرار رکھنے کی تگ ودو میں مصروف ہیں۔ عراق میں حالات کی تبدیلی اور الدولۃ الاسلامیہ فی العراق والشام کی جانب سے اسلامی حکمرانی کے اعلان کے بعد اچانک اسرائیل کی فلسطین کے خلاف جنگی سرگرمیوں سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مغربی ممالک دنیا کی توجہ فوری طور پر عراق سے ہٹاتے ہوئے فلسطین منتقل کرنا چاہتے ہیں چونکہ عراق میں اسلامی حکومت کے اعلان کے فوری بعد دنیا کے بیشتر ممالک میں موجود خلافت اسلامیہ میں قیام کے خواہشمندوں نے عراق و شام کا رخ کرنا شروع کردیا تھا
جس کا یہ ثبوت ہے کہ فرانس نے عراق اور شام کے سفر پر اپنے شہریوں کیلئے پابندی عائد کردی ہے اور فرانس نے واضح کیا ہے کہ وہ اپنے شہریوں کو عراق یا شام جانے کی اجازت نہیں دے گا۔ یوں تو ہندوستان میں عراق کے سفر پر پابندی عائد کرنے کا اعلان کیا گیا ہے اور کہا کہ عراق جانے کے خواہشمند ہندوستانیوں کو ایمگیریشن کلیرنس نہیں دیا جائے گا لیکن فرانس اور ہندوستان کی جانب سے عائد کردہ پابندیوں کا مقصد بالکلیہ طور پر علحدہ ہے۔ ہندوستان اپنے شہریوں کی حفاظت کیلئے انہیں عراق کے سفر سے روک رہا ہے جبکہ فرانس واضح طور پر یہ کہہ رہا ہے کہ فرانس نہیں چاہتا کہ اس کے شہری عراق و شام میں داعش کی افواج کا حصہ بنیں۔ یوروپ ، برطانیہ ، آسٹریلیا ، امریکہ کو درپیش خطرات سے آگاہ ان ممالک کے ساتھ مشرق وسطی کے بیشتر ایسے ممالک بھی مستقبل قریب میں پیش آنے والے حالات کو سمجھنے میں مصروف ہیں۔ چونکہ انہیں بھی اب اس بات کا اندازہ ہونے لگا ہے کہ جو تبدیلی کی لہر رونما ہوئی ہے، اس کے اثرات نہ صرف شاہی پر مرتب ہوں گے بلکہ یہ تبدیلی امریکی و صیہونی قوتوں کے ذہنی غلاموں کو بھی تباہ کردے گی۔ امریکہ یہ کہہ رہا ہے کہ داعش مشرق وسطی کیلئے سب سے بڑا خطرہ ہے جبکہ اسرائیل حماس کو مشرق وسطی میں امن کے بگاڑ کا ذمہ دار قرار دینے کی کوشش کر رہا ہے لیکن کسی بھی مسلم مملکت کی جانب سے ان مظلوم فلسطینیوں کیلئے آواز نہیں اٹھائی جارہی ہے جو نہ صرف اپنے خطہ ارض کیلئے جدوجہد کر رہے ہیں بلکہ قبلۂ اول کے تحفظ کی ذمہ داری بھی ممکنہ حد تک پوری کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ داعش کے خلاف امریکی فوجی کارروائی سے جو حالات پیدا ہوں گے اس کا اندازہ کرنے کی اسرائیل کی شرانگیز ی کو عروج بخشا جارہا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ غزہ پر کی جانے والے اسرائیلی دہشت گردی پر عالم اسلام کی خاموشی کا جائزہ لینے کے بعد صیہونی قوتیں ، ایک مرتبہ پھر عراق کو اپنی جنگی تجربہ گاہ بنانے میں پس و پیش نہیں کریں گے۔ صیہونی قوتوں کی جانب سے مسلمانوں کے درمیان مسلکی اختلافات کو ہوا دیتے ہوئے انہیں منتشر رکھنے کی کوشش کی جارہی ہے اور ان کوششوں میں انہیں بڑی حد تک کامیابی اس وقت حاصل ہورہی ہے جب ان سازشوں سے نا واقف لوگ مسلک کی بنیاد پر جذبات کو بھڑکانے سے گریز نہیں کر رہے ہیں۔ امریکہ و اسرائیل اس بات سے اچھی طرح واقف ہیں کہ ان کے زوال کا ایک معین وقت ہے لیکن اس وقت کو وہ ٹالنے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں۔
امریکہ نے جب عراق پر حملہ کیا تو اس وقت اسے کیمیائی ہتھیار برآمد نہیں ہوئے لیکن سرزمین عراق پر ایک کٹھ پتلی حکومت حاصل ہوگئی ۔ اسی طرح امریکہ کو مستقبل میں بھی کسی ملک کے امن و امان سے زیادہ دلچسپی اپنے اقتدار کو بالواسطہ طور پر ہی سہی توسیع دینا ہے۔ مغربی ذرائع ابلاغ مسلم ممالک کے ذہنوں میں یہ بات پیدا کرنے کی کوشش میں مصروف ہے کہ مشرق وسطی کیلئے داعش سب سے بڑا خطرہ ثابت ہوسکتی ہے ، بالواسطہ طور پر یہ ذرائع ابلاغ ادارے یہ کہنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ خلافت اسلامیہ کا اعلان مسلمانوں بالخصوص مسلم ممالک کیلئے نقصاندہ ثابت ہوسکتا ہے اور جو دلائل دیئے جارہے ہیں، ان میں یہ دعویٰ کیا جارہا ہے کہ داعش دیگر ممالک کے سرحدوں کو بھی عبور کرسکتی ہے۔ عرب حکمرانوں کے دلوں میں اس خوف کو پیدا کرتے ہوئے مغربی ذرائع ابلاغ ان کے جنگی جنون کو ہوا دینے کی کوشش کر رہے ہیں جس کے نتیجہ میں سعودی۔عراق سرحد پر فوج کو چوکس کردیا گیا ہے ۔ مسلم ممالک کے حکمرانوں کو جہاں اپنی اقتدار کی فکر حاصل ہے ،
وہیں کئی مرتبہ یہ دیکھا گیا ہے کہ ان میں حمیت ایمانی بھی موجود ہے۔ اس کی کئی ایک مثالیں دی جاسکتی ہے لیکن موجودہ حالات میں جو رویہ مسلم ممالک نے اختیار کر رکھا ہے اس سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ ممالک اپنی ذمہ داریوں سے فرار اختیار کرنے میں ہی اپنی عافیت محسوس کر رہے ہیں۔ عراق میں حالات کی تبدیلی سے قبل جب مصر میں اخوان المسلمین کو اقتدار حاصل ہوا، اس وقت بھی مغربی دنیا کو فکر لاحق ہوچکی تھی لیکن عرب دنیا آنے والے خطرات محسوس کرتے ہوئے نہ صرف سربراہ اخوان المسلمین و منتخبہ صدر مصر محمد مرسی سے تعلقات استوار کرنے میں عجلت کا مظاہرہ کیا
بلکہ مصر کے جمہوری نظام کی سراہنا میں بھی کوئی دقیقہ نہیں چھوڑا جس کے نتیجہ میں امریکی ، اسرائیلی و صیہونی قوتوں نے ایک مرتبہ پھر چوکسی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مصر میں اخوانی حکومت کے خلاف جدوجہد کا آغاز کردیا جس کے نتیجہ میں مصر کئی ماہ تک سیاسی شورش کا شکار رہا اور بالآخر صیہونی قوتوں نے اپنے مقصد میں کامیابی حاصل کرتے ہوئے مصر میں بھی اپنے ہی حواری کو اقتدار پر لایا اور عبدالفتح السیسی کو اقتدار دلوایا، اس کے فوری بعد عرب ممالک نے مصر کے نئے صدر سے تعلقات استوار کرنے شروع کردیئے ۔ مصر میں اخوانی سربراہ محمد بدیع الدین اور صدر مصر محمد مرسی کی حراست کے بعد پیدا شدہ شورش کے دوران ترکی نے اپنی دینی حمیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اخوان کی تائید کا اعلان کیا تھا لیکن جیسے جیسے صیہونی طاقتو ںکو مصر میں کامیابی حاصل ہوتی گئی اسی رفتار سے ترکی میں طیب اردگان کے خلاف ماحول تیار ہوتا گیا لیکن فی الحال ان حالات پر سکوت طاری ہے اور دنیا کی توجہ عراق ، ایران ، فلسطین ، غزہ ، اسرائیل ، یمن کے علاوہ دیگر ممالک پر مرکوز ہے۔ عراق میں آئی تبدیلی کے فوری بعد عرب ممالک کا رویہ اور اسرائیل کی جارحیت سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ دنیا ایک ایسے موڑ پر قدم رکھنے جارہی ہے جہاں سے دنیا کے نقشہ میں تبدیلی کا وقت قریب آتا جارہا ہے۔ اسرائیلی جارحیت کے خلاف حماس کی جدوجہد اور القسام بریگیڈ کی جانب سے تل ابیب پر راکٹ حملوں کی توثیق کے بعد ایسا محسوس ہوتا ہے کہ عرب دنیا آزادیٔ فلسطین کے ایک نکاتی ایجنڈہ پر مسلکی اختلافات سے بالاتر ہوکر متحدہ ہونے تیار ہوجائے گی
چونکہ شام کو اسرائیل سے گولان کی پہاڑیاں واپس حاصل کرنی ہے جبکہ فلسطینی عوام کو اپنی تمام سرزمین جس پر اسرائیل ناجائز قابض ہے، اسے واپس حاصل کرنا ہے ۔ اسی طرح لبنان حزب اللہ کے نام سے آزادی مسجد اقصی کیلئے جدوجہد کرنے والے گروہ کو اپنے مذہبی فریضہ کو پورا کرنا ہے تو وہیں داعش کو غزہ کے محاذ پر اسرائیلی دہشت گردوں کا مقابلہ کر رہی حماس کی حمایت حاصل ہے۔ القسام بریگیڈ جو کہ اسرائیلی افواج کے خلاف عسکری جدوجہد کی اپنی طویل داستاں رکھتا ہے ، اسے حماس کی سرپرستی حاصل ہے۔ اس بات کو ذہن نشین رکھنا ضروری ہے کہ جس وقت اسرائیلی افواج نے ترکی سے روانہ ہونے والے غذائی جہاز ماوئی مارمہ (فلوٹیلہ) پر حملہ کیا تھا اور اسرائیل نے غزہ کے تمام علاقوں کی ناکہ بندی کردی تھی تو اس وقت مصر نے رفاہ کی سرحد کھولتے ہوئے یہ پیغام دیا تھا کہ مصر بھی فلسطینیوں کے حق کیلئے جدوجہد میں آگے رہے گا۔ اخوان المسلمین قائدین جو کہ سزائے موت اور عمر قید جیسی سزائیں بھگت رہے ہیں لیکن اخوان کا نظریہ السیسی کو اب بھی اسی طرح خوف زدہ کئے ہوئے ہیں جس طرح اسرائیل میں غاضبانہ حکومت کی نگرانی کے باوجود بنجامن نتن یاہو خوف زدہ ہے۔ اخوان ، داعش ، حزب اللہ ، حماس کے علاوہ دیگر عسکری تنظیمیں جو مختلف محاذوں پر جدوجہد کر رہی ہیں، ان عسکری تنظیموں کی بنیادوں کا جائزہ لینے پر یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ہر تنظیم کے منشور میں رہائی مسجد اقصیٰ بھی شامل ہے، اگر ان تنظیموں کے سربراہان اس ایک نکتہ پر اپنے مقصد کے حصول کیلئے متحد ہوتے ہیں تو مظلوم فلسطینیوں کی سب سے بڑی مدد ہوگی۔
infomubashir@gmail.com
@infomubashir