یروشلم ، 20 مارچ (سیاست ڈاٹ کام) اسرائیل نے مشرقی یروشلم میں اسلامی تاریخ اورمسلم تمدن کے نمائندہ آثار کو منہدم کردیا ہے۔ ان آثارکی اسرائیلی محکمے کے ہاتھوں تباہی فلسطین کے پڑوس میں سلوان میں ہوئی ہے۔ مغربی کنارہ اور مشرقی یروشلم فلسطینی علاقے کا حصہ ہیں۔ بین الاقوامی سطح پر اس حقیقت کو 1967ء سے تسلیم کیا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں اقصٰی فاونڈیشن کا کہنا ہے کہ اسرائیل کی طرف سے ان آثار کے پاس کھدائی کا کام آخری مرحلے میں ہے۔ یہ جگہ وادی سلوان میں پرانے وال سٹی سے صرف بیس میٹر کے فاصلے پر ہے۔ اس کھدائی سے مسلمانوں کے عباسی دور سے پہلے کا ایک قبرستان اور اس کے آثار بھی متاثر ہوئے ہیں۔ اس سلسلے میں ڈیوڈ فاونڈیشن جسے عمومی طور ایلاد کے نام سے جانا جاتا ہے،
ان کھدائیوں کیلئے پیسہ مہیا کر رہی ہے۔ اس فنڈس کی فراہمی کا بنیادی مقصد سات منزلہ یہودی ثقافتی مرکز کا قیام ہے۔ اسرائیلی منصوبہ اسی علاقے میں بائبل پارک میں تجویز کیا گیا ہے۔ اس سے پہلے اسرائیل مسجد اقصٰی کے آس پاس زیر زمین کھدائیاں کر چکا ہے۔ اب اس سے اگلے قدم کی تیاری ہے۔ واضح رہے کہ مسلمانوں کا قبلہ اول اس کھدائی کے مرکز سے محض ایک سو میٹر کے فاصلے پر ہے۔ ڈیڑھ ایکڑ پر پھیلی اس کھودے جانے والی جگہ کو زیر زمین جانب بعض جگہوں پر بیس میٹر تک کھودا جا رہا ہے۔ دریں اثنا اسرائیل نے مشرقی یروشلم میں مزید 186 گھروں کی تعمیر کی بھی منظوری دی ہے۔
اسرائیلی وزیر کی معذرت خواہی
یروشلم ، 20 مارچ (سیاست ڈاٹ کام) اسرائیل کے وزیر دفاع نے اپنے امریکی ہم منصب سے واشنگٹن پر تنقید اور اُسے ایران کے نیوکلیئر پروگرام کے بارے میں اُس کے موقف کے معاملہ میں کمزور قرار دینے پر معذرت خواہی کی ہے۔ موشے یعلون کے دفتر سے کل دیر گئے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا کہ انھوں نے امریکی وزیر دفاع چک ہیگل کو فون کیا اور انھیں بتایا کہ اُن کا ارادہ دو قریبی حلیفوں کے درمیان تعلقات کو نقصان پہونچانا نہیں تھا ۔