محمد مبشر الدین خرم
بین الاقوامی سطح پر چھوٹے و بڑے تمام ممالک کا جائزہ لینے پر یہ بات سامنے آرہی ہے کہ دنیا ایک ایسے دوراہے پر گامزن ہوچکی ہے جہاں سے کوئی بڑی تبدیلی رونما ہونے کے آثار پیدا ہونے لگتے ہیں۔ عرب ممالک، مشرق وسطی ، افریقی ممالک کے علاوہ دنیا کے دیگر خطوں بالخصوص مغرب کی صورتحال کچھ اس طرح سے تبدیل ہورہی ہے کہ ہر ملک اپنے مستقبل اور عالمی سطح پر قیام امن کے متعلق متفکر نظر آرہا ہے۔ گزشتہ 20 یوم سے غزہ میں جاری صورتحال نے جہاں اسرائیل کو دنیا کی نظر میں دہشت گرد قرار دینے کوئی کسر باقی نہیں رکھی ہے وہیں فلسطین کی مظلومیت کا احساس بھی انسانیت نواز عوام کو ہونے لگا ہے۔ دنیا کے ہر خطہ میں فلسطینی عوام کی حمایت میں مظاہروں سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ فلسطین پر اسرائیل کی جارحیت و ظالمانہ کارروائی سے ہر دردمند دل تڑپ اٹھا ہے۔
ہندوستان نے اسرائیل و فلسطین کے درمیان جاری جنگی صورتحال پر جو موقف اقوام متحدہ میں اختیار کیا ہے، اس سے ہندوستان کی کچھ ساکھ بچی ہے لیکن ہندوستان ہمیشہ جس طرح فلسطین کے حقوق کیلئے جدوجہد کرتا رہا ہے، ہندوستان اپنا وہی موقف پیش کرنے میں ناکام نظر آرہا ہے ۔ سرزمین ہند میں جہاں فلسطینی کاز کی حمایت تقریباً ہر سیاسی جماعت کیا کرتی تھی، اب وہ موقف سیاسی جماعتوں میں بھی محسوس نہیں ہورہا ہے۔ کمیونسٹ جماعتیں ہوں یا پھر کانگریس یا دیگر مخالف اسرائیل سیاسی جماعتیں ہوں ، سب کی سب غزہ میں جاری ظالمانہ کارروائی کے خلاف معمولی مظاہروں و احتجاجی بیانوں پر اکتفا کر رہے ہیں۔ ہندوستان نے اسرائیل کے وجود کو جس وقت تسلیم کیا تھا، اس وقت ملک میں کانگریس برسر اقتدار تھی اور گزشتہ دس برسوں کے دوران ان تعلقات میں استحکام کیلئے کافی کوششیں ہوئی ہیں جو پودے نرسمہا راؤ نے لگائے تھے، ان پودوں کو گزشتہ دس سال میں خوب سینچا گیا تھا مگر اب اس کے ثمرات ہندوستان کا مخالف گاندھی نظریہ حاصل کرنے جارہا ہے ، اسی لئے اس جنگی صورتحال کو جس میں اسرائیلی کارروائیوں نے اب تک 900 سے زائد جانیں تلف کی ہیں جن میں تقریباً 200 سے زائد معصوم بچے ہیں جنہیں اسرائیل نے اپنے دفاع کے نام پر شہید کیا ہے۔ اس کے باوجود بھی ہندوستانی حکومت کی جانب سے انسانیت نوازی کا ثبوت نہ دیا جانا اس بات کی دلیل ہے کہ ہندوستان نے اسرائیل کے اثرات کو قبول کرلیا ہے۔ وزارت خارجہ کی جانب سے یہ کہا جانا کہ اگر ہندوستان فلسطین و اسرائیل کے درمیان کسی ایک کی حمایت کرتا ہے تو دوسرے سے تعلقات متاثر ہوں گے ، ناقابل فہم ہے۔ چونکہ ہندوستان کے امریکہ سے تعلقات ہمیشہ ہی بہتر رہے ہیں۔ اس کے باوجود بھی امریکہ و عراق کے مابین ہونے والی جنگ میں ہندوستان نے مخالف امریکہ موقف اختیار کرتے ہوئے نہ صرف امریکہ کے خلاف قرارداد منظور کی بلکہ اس قرارداد کو ہندوستان کی تمام سیاسی جماعتوں کی تائید حاصل رہی لیکن امریکہ سے تعلقات میں کشیدگی نہیں آئی۔
فلسطینی کاز کی حمایت میں مظاہرے کرنے والے بزرگ، نوجوان، بچے ، طلبہ کے علاوہ تمام شعبۂ حیات سے تعلق رکھنے والے عوام غزہ کے درد کو محسوس کرتے ہوئے ان کی حمایت کر رہے ہیں لیکن ذرائع ابلاغ ادارے جو کہ اسرائیلی و امریکی زیر اثر ہیں، ان مظاہروں کے متعلق خبروں کو محدود کرتے ہوئے یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ فلسطینی عوام کو دنیا کا ہر طبقہ دہشت گرد تصور کر رہا ہے لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔ سوشیل میڈیا پر جو حقائق منظر عام پر آرہے ہیں ، اس سے عوام کے دل تڑپ رہے ہیں اور عوام خود اپنے طور پر احتجاج کا حصہ بننے لگے ہیں۔ ذرائع ابلاغ کا مشکوک رول اب واضح ہورہا ہے کہ کونسا ادارہ کس کی حمایت میں خدمات انجام دے رہا ہے یا پھر کس کے گلے میں غلامی کا طوق ہے اور وہ حقائق کو پیش کرنے میں کس طرح اپنا دامن بچا رہا ہے۔ مغربی ذرائع ابلاغ ادارے جو کہ اسرائیلی و صیہونی سرمایہ کاری کا اہم حصہ تصور کئے جاتے ہیں، وہ یہ تاثر دینے لگے ہیں جو جنگی صورتحال پیدا ہوئی ہیں ، اس کے لئے صرف اور صرف حماس ذمہ دار ہے اور اسرائیل کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ اسرائیل جو کارروائی کر رہا ہے وہ اپنے دفاع میں کر رہا ہے۔ امریکہ نے اسرائیل کی کارروائیوں کی راست حمایت کرتے ہوئے یہ ثابت کردیا ہے کہ امریکہ اسرائیل سے تعلقات کسی قیمت پر ختم نہیں کرسکتا بلکہ وہ اسرائیل کے وجود کی برقراری کیلئے ضرورت پڑنے پر اپنی افواج کا استعمال کرسکتا ہے۔ حماس قائدین نے یہ واضح کردیا ہے کہ جب تک غزہ کا محاصرہ ختم نہیں کیا جاتا ، اس وقت تک کوئی جنگ بندی نہیں ہوگی، جس سے حماس اور اس کی فوجی بریگیڈ القسام کے حوصلوں کا اندازہ ہوتا ہے۔ ذرائع ابلاغ ادارے خواہ کوئی نظریہ پیش کرے لیکن عوام اب ظالم و مظلوم فرق کو محسوس کرتے ہوئے مظلوم کی حمایت میں نکلنے لگے ہیں اور اپنے اپنے ممالک کے مقتدر طبقہ کو اسرائیل و فلسطین کے معاملے میں واضح موقف اختیار کرنے پر مجبور کر رہے ہیں۔
دنیا کے نقشہ میں مالدیپ ایک چھوٹا سا ملک ہے لیکن اس ملک نے بھی کئی نشیب و فراز دیکھے ہیں، اس کے باوجود مالدیپ نے اسرائیل کے ساتھ معاشی تعلقات منقطع کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے سرکاری طور پر اس کا اعلان کیا ہے جس کا ہر گوشہ سے خیرمقدم کیا جارہا ہے لیکن ترکی کی جانب سے کئے جانے والے اعلانات پر کسی کو اب بھی بھروسہ نہیں ہے مگر اس کے باوجود حماس کی قیادت ترکی اور قطر کو اپنا لازوال و بے مثال دوست تصور کرتی ہے۔ ترکی و قطر اگر اپنے رسوخ کا استعمال کرتے ہوئے عسکری امداد کیلئے آگے آتے ہیں تو ایسی صورت میں وہ دن دور نہیں کہ ’’درخت اور پتھر پکار کر کہیں گے کہ میرے پیچھے یہودی چھپے ہوئے ہیں‘‘۔ پاکستان نے جب پہلی مرتبہ جوہری طاقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ اعلان کیا تھا کہ پاکستان اب دنیا کی ان طاقتوں میں شامل ہوچکا ہے جو نیوکلیئر کہلاتی ہیں، اس وقت فلسطین نے مبارکباد پیش کرتے ہوئے یہ کہا تھا کہ پاکستان کا نیوکلیئر ہتھیار سے لیس ہونا فلسطین کی دفاعی و فوجی طاقت میں اضافہ کے مماثل ہے لیکن افسوس کہ پاکستان مسئلہ فلسطین پر اب بھی صرف بات چیت پر اکتفا کئے ہوئے ہیں۔ اسی طرح فلسطینی اتھاریٹی کے مرحوم قائد یاسر عرفات ہندوستان کو اپنی بہن کی مملکت قرار دیا کرتے تھے اور اندرا گاندھی کو اپنی بہن کہا کرتے تھے مگر افسوس کہ نہ بہن کی مملکت کھل کر بھائی کے ملک کی تائید کر رہی ہے اور نہ ہی نیوکلیائی قوت رکھنے والے ملک کو فلسطین کے مظلوم عوام نظر آرہے ہیں۔
پاکستان جو کہ اندرونی خلفشار کا شکار ملک بنتا جارہا ہے اور وزیرستان میں امریکی ڈرون کارروائی میں جاں بحق ہونے والوں کے افراد خاندان سے غم گساری کے بجائے انہیں ذرائع ابلاغ تک پہونچنے سے روکا جارہا ہے۔ پاکستان نہ صرف امریکی کارروائی کی حمایت کر رہا ہے بلکہ اندرون ملک سیاسی بحران کا سامنا بھی کر رہا ہے لیکن اس کے باوجود سرحد پر ہندوستان سے چھیڑ چھاڑ کے ذریعہ ایک نئی جنگ کی دعوت دینے کا مرتکب بنتا جارہا ہے۔
چند یوم میں عالم اسلام عید الفطر خوشیاں منائے گا لیکن فلسطین بالخصوص غزہ کے معصوم بچے اور دنیا کی سب سے بڑی کھلی جیل تصور کئے جانے والے ’’غزہ‘‘ میں رہنے والے عوام شاید اپنوں کے کھونے کے غم سے نڈھال رہیں گے چونکہ جس وقت عالم اسلام عید الفطر کی تیاری کر رہا تھا اور ماں باپ اپنے معصوم بچوں کیلئے عید کے نئے کپڑوں کی خریداری میں مصروف تھے ، اس وقت غزہ کے رہنے والے اپنے گھروں میں کفن جمع کر رہے تھے کہ پتہ نہیں کب کس وقت کسے اس کی ضرورت پیش آجائے۔ اسرائیل کی ظالمانہ کارروائیاں اب صرف غزہ تک محدود نہیں رہی بلکہ مغربی کنارہ، الشجاعیہ، خان یونس، غرب اردن کے علاوہ دیگر شہروں تک بھی اسرائیل یہ کارروائیاں پھیلتی جارہی ہیں۔ غزہ کے عوام فلسطینی اتھاریٹی کے صدر محمود عباس کو غدار تصور کرنے لگے ہیں چونکہ غزہ کے تحفظ کیلئے حماس صیہونی و طاغوتی قوتوں سے نبرد آزما ہے اور امریکی اسٹیٹ سکریٹری جان کیری جنگ بندی کے مذاکرات محمود عباس سے کر رہے ہیں۔ جنگ کرنے والے القسام بریگیڈ کے عہدیداروں پر اسرائیل یہ الزام عائد کر رہا ہے کہ وہ بچوں کو آگے کرتے ہوئے اپنا تحفظ کر رہے ہیں جبکہ القسام بریگیڈ کی جانب سے کی جانے والی کارروائیاں عالم اسلام کیلئے خوشخبری ثابت ہوتی جارہی ہے۔
جنگی ماہرین کا کہنا ہے کہ اسرائیل کو جاریہ جنگ میں جو جانی و مالی نقصان اٹھانا پڑے گا شاید اس کی تاریخ میں کوئی نظیر نہیں ملے گی چونکہ پہلی انتفاضہ تحریک کے دوران 160 اسرائیلی ہلاک ہوئے تھے جن میں 60 فوجی شامل تھے جبکہ 100 عام شہری تھے اور دوسری انتفاضہ تحریک کے دوران اسرائیل کو 301 فوجیوں کا نقصان ہوا تھا جبکہ 773 شہری ہلاک کئے گئے تھے لیکن اس مرتبہ مختصر مدت کارروائی کے دوران القسام بریگیڈ کے دعوؤں کے مطابق تاحال 70 سے زائد صیہونی فوجی ہلاک کئے جاچکے ہیں۔ علاوہ ازیں ایک فوجی جوان کو القسام بریگیڈ نے حراست میں لیا ہے اور اس کی رہائی کے بدلے ایک ہزار سے زائد فلسطینی جہد کاروں کی رہائی کا منصوبہ ہے۔ اسرائیلی افواج جو کہ جنگی مشقوں کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں اور تقریباً ہر سال ان صیہونیوں کو جنگ کی عادت سی پڑی ہوئی ہے لیکن اس کے باوجود اس طاقتور فوج سے القسام بریگیڈ کا مقابلہ ناقابل یقین حد تک بہتر ہوتا جارہا ہے، جس سے اسرائیلی اقتدار پر خوف طاری ہوچکا ہے جس کی مثال تل ابیب ایرپورٹ کی ویرانی ہے چونکہ دنیا بھر سے اسرائیل پہنچنے والی 20 ایرلائینس نے اسرائیل کیلئے پروازیں منسوخ کرتے ہوئے اسرائیل کو یکا و تنہا کردیا تھا لیکن امریکہ نے اندرون 48 گھنٹے پروازیں بحال کرتے ہوئے دنیا کو یہ پیغام دینے کی کوشش کی ہے کہ اسرائیل اب محفوظ ہے جبکہ تل ابیب ایرپورٹ کے القسام بریگیڈ کے نشانہ پر ہونے سے کوئی انکار نہیں کرسکتا۔
infomubashir@gmail.com
@infomubashir