استاذ حدیث دارالعلوم حیدرآباد ایک لاثانی فتنہ

مولانا سید احمد ومیض ندوی
موجودہ دور کو اگر دور فتن کہا جائے تو شاید اس کی اس سے بہتر ترجمانی نہ ہوگی۔ یہ وہی دور ہے جس کے تعلق سے آقائے رحمت ﷺ نے کثرت سے فتنوں کے ظہور کی پیش گوئی فرمائی تھی۔ آقائے رحمت ﷺ نے فرمایا تھا کہ ایک زمانہ آئے گا جب دنیا میں فتنے بارش کے قطرات کی طرح پے درپے برسیں گے ۔ بعض احادیث میں فتنوں کے تسلسل کو تسبیح کے بکھرتے دانوں سے تشبیہ دی گئی ہے۔ تسبیح کی لڑی ٹوٹنے کی صورت میں جس طرح تیزی اور تواتر کے ساتھ دانے بکھرتے ہیں اسی طرح فتنوں کا ظہور تسلسل کے ساتھ ہوگا۔ احادیث شریفہ میں قرب قیامت کے دور میں جہاں فتنوں کے کثرت ظہور کی پشن گوئی کی گئی ہے وہیں فتنوں کی شدت اور مسلمانوں پر ان کے شدید اثرات کا بھی ذکر کیاگیا ہے۔ بعض روایتوں میں فتنوں کی شدت کو تاریک رات کے ٹکڑوں سے تشبیہ دی گئی ہے۔ پھر اس کا اثر یہ ہوگا کہ اہل ایمان کاایمان متزلزل ہوگا۔ آدمی صبح کو ایمان کی حالت میں تھا تو شام ہوتے ہوتے اس کا دل ایمان سے خالی ہوجائے گا۔ شام کو صاحب ایمان تھا تو کفر کی حالت میں صبح کرے گا۔

احادیث میں مذکور پیشن گوئیوں کی روشنی میں جب آپ عصر حاضر کا جائزہ لیں گے تو اسے دور فتن کہنے میں کسی قسم کا تامل نہ ہوگا۔ اس وقت دنیا بھر میں فتنوں کی یلغار دکھائی دیتی ہے۔ ہر طرف فتنوں کا بازار گرم ہے۔ ویسے فتنوں کی فتنہ سامانیوں سے سارے عالم میں حشر بپا ہے۔ لیکن عالم اسلام کا خطہ سب سے زیادہ فتنوں کی آماجگاہ بنا ہوا ہے۔ مسلم ملکوں کا جائزہ لیجئے ۔ اس وقت ساری اسلامی دنیا فتنوں کی لپیٹ میں ہے۔ آئے دن نت نئے فتنے سر اٹھارہے ہیں۔ اس پر مستزاد یہ کہ یہود و نصاریٰ اوردشمنانِ اسلام کی جانب سے ایسے فتنوں کی بھر پور حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔ بہت سی نام نہاد مسلم شخصیتوں کو اہلِ مغرب آلہ کار بناکر فتنے برپا کرنے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ ماضی قریب میں اس کی متعدد مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں۔ مرزا غلام احمد قادیانی نے انگریزوں کا آلہ کار بن کر فتنہ قادیانیت کی بنیاد رکھی۔ بہت سی شخصیتوں نے بطور خود یا کسی مغربی طاقت کی شہ پر خود کے مہدی ہونے کا دعویٰ کیا اور امت مسلمہ میں انتشار کا باعث بنے۔ اس وقت ہندوستان میں شکیل بن حنیف نام کا شخص بھی دشمنانِ اسلام کا آلہ کار بن کر فتنہ شکیلیت کو فروغ دے رہا ہے اور ملک بھر میں اس فتنہ کی گونج سنائی دے رہی ہے۔ اس وقت پڑوسی ملک پاکستان میں ایک نام نہاد صوفی مسعود احمد صدیقی لاثانی سرکار کے فتنہ کا خوب چرچا ہے۔ فیصل آباد کے ایک محلہ سے تعلق رکھنے والا مسعود احمد صدیقی خود کو لاثانی سرکار قرار دے کر مختلف باطل اور گمراہ دعوے کرکے اہل اسلام کے لئے فتنہ کی شکل اختیار کرچکا ہے۔ کم علم اور جاہل عوام کی ایک بڑی تعداد اس کے جھنڈے تلے جمع ہورہی ہے اور یہ گمراہ شخص سادہ لوح مسلمانوں کے دین و ایمان پر ڈاکہ ڈالتا جارہا ہے۔ یہ لاثانی سرکار نہیں شیطانی سرکار ہے۔ اس کے افکار و خیالات انتہائی باطل اور گمراہ کن ہیں جنہیں وہ کھلے عام پھیلاتا جارہا ہے۔ مسعود احمد صدیقی کا فتنہ جب حد سے زیادہ بڑھنے لگا تو علماء کرام اس کے خلاف کمربستہ ہوگئے، چنانچہ خود اسکی کتابوں کے حوالہ سے علماء نے اس کے باطل نظریات اور مشرکانہ خیالات کے خلاف فتاویٰ صادر کئے۔ دو فتاویٰ بہت مفصل ہیں۔ ایک دارالافتاء اہل سنت مکتبہ المدینہ لاہور کی جانب سے ۱۱؍شعبان ۱۴۳۹ھ مطابق ۸؍مئی ۲۰۱۷ء کو صادر ہوا جو پانچ صفحات پر مشتمل ہے۔ دوسرا فتویٰ مفیانِ اہلِ سنت و جماعت کی جانب سے صادر ہوا۔ یہ تقریباً ۲۰ صفحات پرمشتمل ہے جس کے اخیر میں ۱۸ مفتیانِ کرام کے دستخط ان کے دارالافتاؤں کی مہر کے ساتھ ہیں۔
مسعود احمد صدیقی کا یہ فتنہ کس قدر گمراہ کن اور دین و ایمان کے لئے تباہ کن ہے اس کا اندازہ ان افکار اور نظریات سے لگایاجاسکتا ہے جن سے اس کی کتابیں بھری پڑی ہیں اور بہت سے ویڈیو کلپس میں اس نے انتہائی گستاخانہ خیالات کا اظہار کیا (جسے یوٹیوب پر سنا اور دیکھا جاسکتا ہے) ۔ ایک ویڈیو کلپ میں اس نے نہ صرف جبرئیل و میکائیل علیہما السلام کی شان میں گستاخی کی ہے بلکہ ذاتِ خداوندی کے ساتھ بھی استہزاء ہے گویا اس کے اختیارات اللہ کے اختیارات سے ماورا ہیں۔ خود کو خدائی اختیارات کا حامل سمجھنا کیا فرعونی حرکت نہیں ہے؟ اپنے ویڈیو اور کتاب میں لاثانی خود کو ملائکہ سے افضل قرار دیا ہے۔ میکائیل علیہ السلام کے کان کھنچوانے کا دعویٰ کررہا ہے ۔ اس میں ایک بلند مرتبہ مقرب فرشتے کی کسقدر توہین ہے۔ مسعود احمد صدیقی کی ایک اور کفریہ بکواس ملاحظہ کیجئے، وہ اپنی کتاب ’نوری کرنیں‘ میں لکھتا ہے ’ تمام روئے زمین فقیر کے قدموں کے نیچے ہوتی ہے اس کو پیروں کے نیچے دیکھنے کی ضرورت نہیں‘ ۔ اس اقتباس میں وہ در پردہ دعویٰ کررہا ہے کہ تمام روئے زمین اس کے قبضہ میں ہے۔ اس شخص کی کتابیں پڑھنے سے واضح ہوتا ہے کہ یہ شخص اپنے بارے میں ان صفات کا مدعی ہے جو اللہ تعالیٰ کے لئے خاص ہیں۔ مثلاً ، ہرجگہ حاضر و ناظر ہونا اور دین میں رد و بدل کا حق وغیرہ۔ اس کی ایک کتاب ’ مرشد اکمل‘ کے عنوان سے ہے اس میں وہ لکھتا ہے: ’ لوگ سمجھتے ہیں کہ ہم کچھ نہیں جانتے ہم دور سے ان کے حال دیکھ لیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی شکلیں ہمیں دکھادیتا ہے۔ جتنے لوگ یہاں موجود ہیں کسی کی شکل کتے جیسی ہے تو کسی کی بندر جیسی اور یہ جو تم نے اپنے چہروں پر داڑھیاں لٹکائی ہوئی ہیں یہ داڑھیاں نہیں جھاڑیاں ہیں جو دکھاوے کے لئے چہروں پر سجا رکھی ہیں۔ دل میں داڑھی ہونی چاہئے ۔ اللہ چہروں کو نہیں دلوں کو دیکھتا ہے۔ جو کوئی بات پوچھنا چاہتے ہو ہم سے پوچھ لو۔ ہم سے اپنے فوت شدہ لوگوں کا شجرہ نہیں ان کے حالات پوچھ لے ۔ قبروں میں ان کے ساتھ جو ہورہا ہے ہم سے وہ پوچھ لے۔ جو لوگ ہمارے سلسلے میں داخل ہوں گے قیامت تک آنے والے ان لوگوں کے نام ان کے آباء و اجداد کے نام ہم سے پوچھ لے ان کے نام ان کے والدین اور آباء و اجداد کے نام ہمیں پتہ ہیں۔‘ (مرشد اکمل ص :۹۰)

مذکورہ بالا اقتباس میں داڑھی کا صریح مذاق اور ظاہر شریعت کا انکار ہے۔ جبکہ داڑھی تمام انبیاء علیہماالسلام کی سنت ہے۔ اتناہی نہیں اپنی کتاب ’ نوری کرنیں‘ میں اس نے اپنے متعلق ہر جگہ حاضر و ناظر ہونیکا بھی دعویٰ کیا ہے۔ لکھتا ہے ’ خانیوال سے خالد محمود اپنی بیٹی کا ایک واقعہ لکھتا ہے کہ میری بیٹی نے ایک ضعیف عورت سے قبلہ لاثانی سرکار کا ذکر کیا۔ بوڑھی عورت کے دل میں قبلہ لاثانی سرکار سے عقیدت پیدا ہوئی۔ میری بیٹی نے بیعت کے لئے اس سے کہا۔ وہ تیار ہوگئی۔ جمعہ سے پہلے ہی میں اپنی بیٹی کو واپس خانیوال لے آیا۔ چند دن بعد پتہ چلا اس ضعیف عورت کا انتقال ہوگیا۔ میری بیٹی نے خواب میں دیکھا کہ ان کی قبر بہت کشادہ ہے اور قبلہ لاثانی سرکار بھی وہاں تشریف فرما ہیں۔ ان کی قبر میں تین کھڑکیاں لگی ہوئی ہیں دو مکمل کھلی ہوئی ہیں اور ان سے جنت کا نظارہ کررہی ہیں۔ تیسری آدھی کھلی ہوئی ہے ۔ قبلہ لاثانی سرکار نے فرمایا کہ اس کے دل میں ہماری محبت و عقیدت پیدا ہوگئی تھی اور بیعت کے لئے بھی تیار تھی ، اس لئے مرنے کے بعد ہم فوراً اس کی قبر میں آئے ۔ اللہ تعالیٰ سے اس کی بخشش کروائی۔ اگر بیعت ہوجاتی تو جنت کی طرف سے تیسری کھڑکی بھی کھول دی جاتی۔ (نوری کرنیںص ۲۲۷)
اس سے آگے بڑھ کر وہ خدائے رب العالمین پر بہتانِ عظیم باندھتے ہوئے کس قدر جرأت کرتا ہے ملاحظہ فرمائیں۔ اپنی ایک کتاب میں لکھتا ہے ’ بہت سے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ رنگ دار چیزیں فیشن کے طورپر استعمال کرتا ہوں۔ میں نے اپنی مرضی اور خواہش سے نہیں بلکہ اللہ و رسول اللہ ﷺ کے حکم سے شروع کیا ہے۔ آج سے کئی سال پہلے میرے مالک ومعبود اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا ’ تم سرخ سبز سیاہ سفید سنہری اور جوگیا رنگ پہنا کرو۔ پھر چند سال بعد اللہ تعالیٰ نے دوبارہ کرم فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا : اپنے پرانے کپڑے اور جوتے استعمال نہ کیا کرو ، یہ تقسیم کردیا کرو، ہم چاہتے ہیں کہ تمہارا لباس جوتا ، رہائش کی جگہ اور دیگر استعمال کی چیزیں برتن ،بستر وغیرہ بہت اچھے بیش قیمت ہوں۔ ( رہنمائے اولیاء مع روحانی نکات ص ۲۳۲)

بھلا بتائیے کہ یہ کیسا خدا پر بہتان باندھ رہا ہے ؟ اللہ نے کیسے اس شخص کو ایسی باتوں کی اجازت دی جسے نبی کریم ﷺ کی شریعت میں ممنوع قرار دیاگیا ہے۔ پھر وہ درپردہ خدا تعالیٰ سے احکام پہنچنے کا بھی دعویٰ کررہا ہے۔ العیاذ باللہ ، یہ کسقدر دریدہ دہنی کی بات ہے۔ مسعود احمد صدیقی نے بلا حجاب اللہ تعالیٰ کے دیدار کا بھی دعویٰ کیا۔ چنانچہ، وہ اپنی کتاب ’وارث فقیر‘ میں لکھتا ہے ’ فقراء (مقربین و واصلین) تجلیاتِ الہٰیہ میں رہتے ہیں یعنی کبھی تو وہ خود انوار الٰہی میں گم (غرق) ہوتے ہیں اورکبھی اللہ اور رسول ﷺ کی طرف سے ان پر مختلف انوارات و تجلیات کا نزول ہوتا ہے۔ یوں کہاجاسکتا ہے کہ علماء ظاہر اکثر مجاہدات و حجابات میں ہیں اور عارفین و مقربین و اصلین اکثر مشاہدات یا نورانی پردوں کے پیچھے سے کلام و زیارت سے نوازے جاتے ہیں۔ (وارث فقیر ص ۶)اس عبارت میں وہ صاف طورپر دعویٰ کررہا ہے فقیر جو کہ نبی نہیں ہوتا لیکن بلا حجاب اللہ تعالیٰ کا دیدار کرلیتا ہے۔
مسعود احمد صدیقی کی انہی کفریہ باتوں کو سامنے رکھ کر پاکستان کے مفتیانِ اہل سنت و جماعت نے اس کے خلاف فتویٰ صادرکیا ہے جس میں انہوں نے لکھا ہے کہ : ہم نے اس کی ویڈیو اور کتاب ’وارث فقیر‘ کا بڑی باریک بینی سے جائزہ لیا ۔ ان سب چیزوں کو دیکھنے کے بعد ہم اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ مذکورہ شخص شریعت مطہرہ کا باغی ہے۔ اس کی ویڈیوز اور اس کی کتاب ’ وارث فقیر‘ میں اللہ تعالیٰ ، انبیاء کرام علیہما السلام کی شان و عظمت کے خلاف باتیں، معزز فرشتوں کی توہین، کفریہ اقوال، اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کی طرف منسوب کرکے گھڑی ہوئی متعدد جھوٹی باتیں ، غیر شرعی عبارات ، جھوٹے خواب اور ایسے دعوے ہیں جو پوری امت میں کسی سے ثابت نہیں۔ جبکہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کی طرف جھوٹی باتیں منسوب کرنا خود کو جہنمی کرنے والے اعمال ہیں۔ اس کتاب میں ستر سے زائد ایسے مقامات ہیں جہاں راست اللہ تعالیٰ سے کلام ہورہا ہے ،معاذ اللہ ۔ انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کے اس دور میں ہر اٹھنے والا فتنہ پوری دنیا میں عام ہوجاتا ہے۔ ایسی شخصیات دراصل اسلام دشمن طاقتوں کی آلہ کار ہوتی ہیں۔ انہیں مکمل تحفط فراہم کیا جاتا ہے تاکہ وہ مسلمانوں کے ایمان پر ہلہ بولیں۔ اس لئے عامۃ المسلمین کو اس فتنہ چوکنا رہنا چاہئے۔