استاد کی اہمیت

وحید اسیرؔ، ایم اے بی ایڈ (عثمانیہ)

قدیم زمانے سے ہی دنیا کے ہر ملک اور قوم میں استاد کو ایک خاص مقام اور خصوصی درجہ حاصل رہا ہے۔ کیوں کہ استاد ’گرو‘ یا مرشد کی بارگاہ میں نسل انسانی کی پرورش ہوتی ہے۔ یعنی اساتذہ قوموں کے ماضی، حال اور مستقبل کے معمار رہے ہیں اور دنیا کی جتنی عظیم شخصیتیں گزری ہیں وہ سب کی سب اپنے استاد کی تربیت یافتہ اور استاد کی نظر کا فیض اٹھائی ہوئی تھیں۔ اس معاملہ میں صرف پیغمبروں کو مستثنیٰ رکھا گیا ہے۔ کیوں کہ ان کا علم خدائی وحی و الہام کی وجہ سے ہوتا ہے۔ انسانی معاشرے میں استاد کی اہمیت کے مدنظر ہر مذہب میں استاد کی عزت اور احترام کرنے کی تعلیم ملتی ہے اور کہا جاتا ہے کہ صرف رسمی احترام اور دکھاوٹی عزت ہی نہیں بلکہ اساتذہ سے حقیقی محبت اور قلبی تعلق پیدا کرنا طالب علم کا فریضہ ہے اس کے بغیر علم ناممکن ہے۔ دنیا کے جتنے مہاتما، سادھو منی، صالح بندے اور اولیا بزرگ یا دینی علوم کے زبردست علماء یا دنیاوی علوم کے زبردست ماہر گزرے ہیں، سبھی نے استاد کے آگے زانوے ادب تہہ کیا ہے۔ اس کے بغیر ان کی روحانیات، اخلاقیات یا عقلیات کے بلند درجوں پر پہنچنا ناممکن تھا۔ چنانچہ مولانا روم جیسے زبردست صوفی اور فلسفی شاعر کہتے ہیں:
مولوی ہرگز نہ شد مولائے روم
تا غلام شمس تبریزی نہ شد

یعنی وہ اعتراف کرتے ہیں کہ ان کا سارا علم اور صلاحیتیں محض استاد کی غلامی کی دین تھیں۔ اسی طرح حضرت امام ابو حنیفہؒ فرماتے ہیں ’’میں نے زندگی بھر استاد کے گھر کی طرف پیر نہیں کئے۔ علامہ اقبال کے بارے میں آتا ہے کہ آپ نے حکومت سے’’ سر‘‘کا خطاب اس وقت تک قبول نہیں کیا، جب تک اپنے استاد مولوی میر حسن صاحب کو شمس العلماء کا خطاب نہ دلوایا۔ اسی طرح مولانا شبلی کے بارے میں آتا ہے کہ آپ اپنے استاد مولوی فاروق چریا کوٹی کی ایسی خدمت کرتے تھے کہ اپنے استاد کو پانی گرم کرکے نہلاتے تھے۔
الگزینڈر یونان کا بادشاہ اپنے استاد کی غیر معمولی عزت کرتا تھا۔ درباریوں نے اس سے دریافت کیا کہ حضور والا اپنے والد کی اتنی عزت نہیں کرتے جتنی کہ استاد کی۔ الگزینڈر نے جواب دیا میرے باپ نے غیر مستقل زندگی عطا کی جبکہ میرے استاد نے مجھے علم کی روشنی دی۔ ہر آن مجھے ایک نئی زندگی ملتی ہے۔ اس کے علاوہ میرا باپ مجھے جنت سے اس دنیا میں کھینچ لایا لیکن میرا استاد مجھے اس فانی دنیا میں جنت کے قابل بنادیا۔ اس لئے استاد کی میں بہت عزت کرتا ہوں۔ ایک اور واقعہ ہے کہ ایک نوجوان کو ایک دفعہ بادشاہ کے دربار میں جانے کا اتفاق ہوا۔ بادشاہ نے اس نوجوان سے مخاطب ہوکر کہا ’’اے نوجوان‘‘! اس کے جواب میں نوجوان نے کہا کہ کیا ہے جناب؟ اس کے اس انداز جواب پر بادشاہ نے اس سے دریافت کیا کہ کیا تمہاری تعلیم و تربیت تمہارے باپ نے کی؟ تو نوجوان نے جواب دیا کہ ہاں میری تعلیم و تربیت میرے باپ نے کی ہے۔ اس واقعہ کا ماحصل یہ ہے کہ اگر نوجوان کی تعلیم و تربیت کسی استاد کے زیر اثر ہوتی تو وہ بادشاہ کی مخاطبت پر میرے آقا۔ میرے سرکار! غلام بہ سر و چشم حاضر ہے کہتا۔ یعنی وہ آداب دربار سے واقف رہتا۔ اسلام استاد کو روحانی باپ کہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مامون اور امین ایک زبردست خلیفہ ہارون رشید کی اولاد ہونے کے باوجود اپنے استاد کی جوتیاں سیدھا کیا کرتے تھے اور اس عمل کو اپنے لئے باعث عزت سمجھتے تھے۔ ایک مرتبہ مامون اور امین استاد کے پاس بیٹھے پڑھ رہے تھے کہ استاد کسی کام کی خاطر باہر جانے کے لئے اٹھے۔ یہ دیکھ کر دونوں شاگرد استاد کی جوتیوں کو سیدھا کرکے رکھنے کے لئے دوڑے اور آپس میں جھگڑ نے لگے کہ جوتیاں کون سیدھی کرے۔ آخر میں یہ تصفیہ ہوا کہ ہر ایک لڑکا ایک ایک جوتی سیدھی کرکے رکھ دے۔ جب ہارون رشید کو یہ معلوم ہوا تو وہ اپنے بچوں سے بہت خوش ہوا اور ان کو انعام دیا۔ یہی مامون اور امین بڑے ہوکر بادشاہ ہوئے اور آج تک ان کے نام دنیا میں مشہور ہیں۔ایک بار مشہور خلیفہ مہدی نے اپنے دونوں بیٹوں ہادی اور ہارون کو حکم دیا کہ امام صاحب سے مؤطا پڑھیں۔ شاہزادوں نے امام صاحب کو بلا بھیجا۔ انہوں نے کہلا بھیجا کہ لوگ علم کے پاس آتے ہیں۔ علم لوگوں کے پاس نہیں آتا۔ آخر شاہزادوں کو خودا ٓنا پڑا۔
حیدرآباد فرخندہ بنیاد جہاں کی شرافت، تہذیب و شائستگی ساری دنیا میں مشہور ہے یہاں کی بھی اعلی ہستیوں کا حال سنئے۔ نواب علی یاور جنگ بہادر (مرحوم) سابق گورنر مہاراشٹرا جبکہ آپ عثمانیہ یونیورسٹی کے وائس چانسلر تھے۔ آپ کے دفتر کے ایک عہدہ دار نے چانسلر کی جانب سے لکھا ہوا ایک خط جو سنٹرل گورنمنٹ کو بھجوانا تھا، لے کر نواب صاحب کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا کہ چانسلر کی جانب سے لکھا ہوا خط ہے اس میں ایک جگہ قواعد (گرامر) کی غلطی ہے۔ آپ بنا دیجئے، کیوں کہ یہ مراسلت سنٹرل گورنمنٹ سے ہورہی ہے۔ اس پر نواب صاحب نے جواب دیا کہ ’’خطائے بزرگاں گرفتن خطاست‘‘ بڑوں کی غلطی پکڑنا بھی ایک غلطی ہے۔ چنانچہ جوں کا توں خط روانہ کردیا گیا۔ اس سے نواب صاحب (مرحوم) کی اعلی ظرفی کا پتہ چلتا ہے۔ جو اعلی تعلیم اور اچھی تربیت کی مرہون منت ہے۔ غرض ان مثالوں سے یہ ثابت کرنا مقصود ہے کہ استاد کا مقام کیا تھا اور کیا ہوگیا ہے۔ بقول اکبرؔ الہ آبادی:
وہ دن گئے کہ خدمت استاد کے عوض
جی چاہتا تھا ہدیۂ دل پیش کیجئے
بدلا زمانہ ایسا کہ لڑکا پس از سبق
کہتا ہے ماسٹر سے کہ بل پیش کیجئے