از حیدرآباد تا دلّی

مرزا فرحت اللہ بیگ
ایک انگریزی مثل ہے کہ ’’بعض واقعات قصہ کہانیوں سے بڑھ جاتے ہیں‘‘ حیدرآباد چلتے وقت مجھے سان گمان بھی نہ تھا کہ ایسا کوئی واقعہ خود مجھے پیش آنے والا ہے۔
۳۶ گھنٹے کے لگاتار سفر سے وحشت تو ضرور تھی مگر یہ کیا خبر تھی کہ راستہ میں یہ وحشت دہشت کارنگ اختیارکرلے گی۔۲۷؍ نومبر کو گھر سے چلا اسٹیشن پر یاردوست چھوڑنے آئے۔گھنٹی بجی گارڈ نے سیٹی دی ۔انجن نے چیخ ماری۔پہیوں نے گردش کی۔گاڑی چلی اور ہم حیدرآبادی سے دلی والے بننے شروع ہوگئے۔بعض دوستوں نے دور ہی سے سلام علیکم کھینچ ماری۔بعض ریل کے ساتھ ساتھ چلتے اور ہاتھ ملاتے رہے۔مگر کہاں تک۔ذرا سی دیر میں’’ایک میں تھا ایک خدا کی ذات تھی‘‘ معلوم نہیں مسافروں کو مجھ سے کیا دشمنی تھی کہ ایک بھلا آدمی بھی میرے درجہ میں نہیں آیا اور حیدرآباد سے لگاکر دہلی تک میں رہا اور چار قدم لمبا اور تین قدم چوڑا درجہ۔بعض مسافر ایسے بھی ہوتے ہیں جو خالی درجہ پاکر خوش ہوجاتے ہیں۔لیکن ان کو اگر وہ واقعہ پیش آئے جو مجھے پیش آیا ہے تو یقین مانیئے کہ وہ خالی درجہ میں بیٹھنے سے اتنا ہی ڈریں جتنا یو۔ پی کے زمیندار آج کل نئے قانون اراضی سے ڈر رہے ہیں۔

ہاں۔صاحب توخیرگاڑی چلی،ہم کھڑکی میں سے جھانکتے اور دیکھتے رہے کہ فلاں صاحب کا گھر سامنے سے گزر گیا۔فلاں صاحب کا بنگلہ نکل گیا۔خیریت آباد کا اسٹیشن آیا۔حسین ساگر جنکشن آیا اور گھِس گھِس، گھِس گھِس کر کے ریل سکندرآباد پہنچ ہی گئی۔کہنے کو تو یہ گاڑی گرانڈ ٹرنک اکسپرس کی دم ہے۔مگر شاید ہی کوئی اسٹیشن ہوگا جہاں یہ سستانہ لیتی ہو۔شوال کی پانچویں شب تھی۔تھوڑی دیر میں چاندنی غائب ہوگئی۔اس لئے ناچار کچھوے کی طرح گردن کھڑکی کے اندر کرلی۔جھلملیاں چڑھا دیں۔بستر پر سے کوئلہ کے ریزوں کو جھٹکا اور چادر اوڑھ سونے کی تیاری کی۔مگر جو شخص رات کے گیارہ بجے سوتا ہو۔اس کو بھلا نو بجے نیند کیوں آنے لگی۔تھوڑی دیر لوٹے پوٹے۔خیال آیا کہ اوہو ابھی تک نماز تو پڑھی ہی نہیں۔لاو وہ بھی پڑھ لیں۔غسل خانہ میں جاکر وضو کیا اور نماز کو کھڑے ہوگئے مگرریل کے جھٹکوں کی وجہ سے بیٹھ جانا پڑا۔خیر نماز تو ہوگئی مگر کیسی ہوئی اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔کتاب اُٹھائی کہ شاید پڑھنے ہی میں کچھ وقت کٹ جائے مگر سمجھ ہی میں نہیں آیا کہ اس میں لکھا کیا ہے۔اس وقت خیال آیا کہ یار اگر اس وقت افیم ساتھ ہوتی تو مزا آجاتا۔میں اوپر کے درجہ میں سفر کرنے والوں کو صلاح دیتا ہوں کہ وہ سفرمیں اپنے ساتھ افیم کی دوچار گولیاں رکھ لیا کریں تاکہ اگر سفر دور کا ہو اور درجہ خالی ملے تو یہ گولیاں’’داشتہ آید بکار‘‘ بن سکیں۔ جعفرزٹلی فرماتے ہیں’’گندم اگر بہم نرسد بھس غنیمت است‘‘ سوچے کہ لاؤ افیم نہ سہی سگریٹ ہی سے اس کمی کو پورا کریں۔ڈبہ پاس تھا۔کھولا اور سگریٹ پر سگریٹ دھنکنے شروع کئے۔لیکن اس کے دھوئیں نے دماغ میں وہ خشکی پیدا کی کہ رہی سہی نیند اور بھی اُڑ گئی۔دس بجے قاضی پیٹ پہنچے۔وہاں ہماری گاڑی گرانڈ ٹرنک اکسپرس میں جڑنے والی تھی اور اس گاڑی کے آنے میں دیر تھی۔اس لئے پلیٹ فارم پر ٹہلنا شروع کیا مگر یہ چہل قدمی چالیس قدم کے اندر ہی رہی۔کیونکہ جانتے تھے کہ ذرا اِدھراُدھر ہوئے اور مال دوستوں کا ہوگیا۔خدا خدا کرکے مدراس کی گاڑی آئی اور ہم مشرق کی بجائے شمال کی طرف چلنے شروع ہوئے۔

یہاں جس حصہ ملک میںسے ریل گزرتی ہے اس میں انسانوں سے زیادہ جانور آباد ہیں اور چونکہ وہ مسافروں کو اُتار نے چڑھانے بہت کم آتے ہیں اس لئے یہ اسٹیشن اکثر سنسان کف دشت میدان بنے رہتے ہیں۔ہاں اگر کبھی کوئی شیر یا چیتا ادھر آنکلتا ہے تو ذراچہل پہل ہوجاتی ہے۔ بہرحال ریل چلتی رہی اور ہم بنچ پر لوٹ مارتے رہے۔اسٹیشن آتا تو کھڑکی کھول کر ذرا جھانک لیتے اور اگر کوئی اللہ کا بندہ نظر آجاتا تو اس سے پوچھ بھی لیتے کہ’’بھئی یہ کونسا اسٹیشن ہے‘‘ مگر وہ ذات شریف کچھ ایسے لہجہ میں جواب دیتے کہ اس کا سمجھنا ہماری عقل سے باہر ہوتا ۔خدا خدا کرکے رات کے چار بجے بلہار شاہ اسٹیشن آیا اور اس وقت ذرا طبیعت بحال ہوئی کہ چلو اب صبح قریب ہے اور کچھ نہیں تو کم سے کم آدمیوں کی شکلیں تو دکھائی دیں گی۔کوئی گھنٹہ دیڑھ گھنٹہ بعد پوپھٹی۔مشرق کے کنارے سرخ ہوئے اور پھٹ سے صبح ہوگئی۔۔اس روز صبح ہونے کی جس قدر خوشی مجھے ہوئی ہے وہ بیان نہیں ہوسکتی۔رات کی ساری کلفت دور ہوگئی۔میں اکثر سوچا کرتا تھا کہ شاعر شب فراق اور عالم تنہائی کا رونا اس قدر روتے ہیں مگر جب دیکھو تو تازہ دم مونچھوں پر تاؤ دیتے نظر آتے ہیں۔ریل میں اس رات کے گزارنے کے بعد یہ مسئلہ باسانی حل ہوگیا اور پتہ چلا کہ واقعی شب فراق ان بیچاروں پر سخت گزرتی ہے مگر صبح کی آمد پھر ان کوجیسے کا ویسا کردیتی ہے۔ کوئی آٹھ ساڑھے آٹھ بجے واردھے کا اسٹیشن آیا۔آج کل اس اسٹیشن نے ریل کی آمدنی بہت بڑھادی ہے۔ذرا کہیں کچھ گڑبڑ ہوئی اور چل مرے یار واردھے کو۔
یہاںہم نے وہ کنکنا بادامی رنگ کا پانی پیا جس کو عرف عام میں چائے کہا جاتاہے۔کوئی بیس برس کی بات ہے کہ ہمارے محلہ میں ایک شخص کافی بیچنے آتا اوربڑے سخت لہجہ میں آواز لگایا کرتا تھا کہ’’کافی ایٹ گرم‘‘ چنانچہ اس کا نام ہی’’کافی ایٹ‘‘ پڑ گیا تھا۔خوب بِکری ہوتی تھی مگر خدا معلوم کیا بات ہوئی کہ اس نے یہ چلتا ہوا دھندا چھوڑ ہمارے ہاں نوکری کرلی۔ایک دن سب نے اس سے فرمائش کی کہ کافی بناؤ اس نے پانی دیگچی میں چڑھا خدا معلوم کیا کیا الا بلا ڈال کافی بنا،ہمارے سامنے لارکھی۔آپ یقین مانیئے کہ اس کافی کے تھے تو دس بارہ اجزاء مگر اس میں بُن نام کو نہیں ہے۔اس نمونہ کی وہ چائے ہوتی ہے جو اسٹیشنوں پر ملتی ہے اور زہر مار کی جاتی ہے۔ میں پالیٹکس سے ہمیشہ دور رہتا ہوں مگر خبر نہیں کہ یہ وادرھے کی چائے کا زور تھا یا وہاں کی آب وہوا کا اثر کہ ایک دفعہ ہی میرے خیالات پولٹیکل ہوگئے اور ان خیالات کا وہ زور بندھا کہ بڑی مشکل سے یہ زور ساڑھے نو بجے ناگپور کے سنتروں کی ترشی سے اُترا۔میں ہر اس مسافر کوجوناگپور سے گذرتا ہے آگاہ کئے دیتا ہوں کہ اسٹیشن پر سنتروں کی جوٹوکریاں بکنے آتی ہیں ان کو ذرا دیکھ بھال کر لیاکریں۔ورنہ بھئی وہ جانیں اوران کاکام جانے۔انگریزی کی ایک مثل ہے کہ’’ہر وہ چیز جوچمکتی ہے سونا نہیں ہوتی۔‘‘ اسی طرح سمجھ لو کہ ہر وہ چیز جو ان ٹوکریوں میں ہوتی ہے سنترہ نہیں ہوتی۔ ہم نے یہی ایک ٹوکری خریدی پہلے بارہ آنے مانگے گئے۔آخر جب ریل چلنے لگی تو دوآنہ پر تصفیہ ہوا۔چلتی گاڑی سے ہم نے دوانی باہر پھینکی اور اس نے سنتروں کی ٹوکری اندر لڑھکادی۔ٹوکری میں سے جوسنترے نکلے وہ بس دیکھنے کے قابل تھے۔کھانے کے کام کے تو تھے نہیں۔ہاں خاصہ بھلا چنگا آچار تھا اوپر کی تہ ذرا اچھی تھی۔سوچے کہ چلو دوآنے میں چھ سنترے ہی کیا بُرے رہے۔ایک کو چھیلا پھانک کو صاف کیا۔بیج نکال کر پھینکے۔ پھانک منہ میں رکھی اس کے بعد کچھ نہ پوچھو کہ کیا ہوا۔بس یہ سمجھ لو کہ کھٹاس افعل التفضیل کے صیغہ کے ساتھ منہ میں داخل ہوگئی۔گھبراہٹ میں بغیر سوچے سمجھے کلی کی۔نتیجہ یہ ہوا کہ دانت بیکار ہوگئے۔ذوق مرحوم فرماتے ہیں۔دشنام ہوکہ ترش وہ مجھ کو ہزاروں یہ وہ نشہ نہیں جسے ترشی اتاردے اگر جاڑے مں استاد مرحوم ناگپور کے سنترے کھاتے تو ہر گز یہ شعر نہ کھتے ذرا میں بھی تو دیکھوں کہ وہ کونسے عاشق ہیں جو جاڑے میں ناگپور کے سنترے کھائیں اور اس ترشی سے ان کا نشہ عشق ہرن نہ ہوجائے۔

ناگپور سے آگے جو اسٹیشن پڑتے ہیں ان کو معناً اس لئے تو اسٹیشن کہا جاسکتا ہے کہ وہاں گاڑی ٹھہرتی ہے ورنہ بغیر دوربیں کے ان کو دیکھنا کچھ آسان کام نہیں ہے۔ہاں سنترے ہر جگہ ملتے ہیں اور خدا کے فضل سے کھائے بھی جاتے ہیں بھلا ناگپور کے سنتروں کا مزہ چکھنے کے بعد میری کیا ہمت ہوسکتی تھی کہ ان کے خریدنے کا خیال بھی دل میں لاسکتا اس لئے دور ہی سے ان کا نظارہ کرتا اورکھانے والوں کے کام ودہن کی تعریف کرتا رہا۔وقت کسی طرح کاٹے نہ کٹتا تھا اس لئے ناول نکالا۔ایک آدھا صفحہ پڑھا تھا کہ پان کا خیال آیا یہ کچھ عجیب بات ہے کہ جب تک پان منہ میں نہ ہو میں نہ کچھ لکھ سکتا ہوں اور نہ پڑھ سکتا ہوں۔دانتوں کی حالت مجھے معلوم تھی۔لیکن مرتا کیا نہ کرتا۔ڈبیامیں سے پان نکالا۔ڈرتے ڈرتے منہ میں رکھا۔پان منہ میں رکھنا تھا کہ دانت ’’کِر کِر‘‘ کرنے لگے آخر پوپلوں کی طرح منہ چلایا۔تھوڑی دیر میں ترشی کا اثر ذرا دور ہوا اور پڑھنے میں دل لگنے لگا۔کوئی بارہ ساڑھے بارہ بجے ہوں گے کہ پیٹ نے فریاد بلند کی کہ’’بیارید ہرچۂ دارید‘‘ کھانے کی گاڑی ریل میںلگی ہوئی تھی دوسرے ہی اسٹیشن پر کھانا منگوایا۔یہ تو خدا ہی کو خبر ہے کہ اس میں تھیں کیا کیا چیزیں مگر بھوک کا وہ زور تھا کہ’’زرخوردن‘‘ کی گردان کرتے کرتے ساری رکابیاں صاف کردیں۔
اس کے بعد اطمینان ہوا، پان کھایا،سگریٹ سلگایا اور ناول پڑھنا شروع کیا۔پانچ بجے کے قریب اٹارسی پہنچے۔یہاں خوب ڈٹ کر چائے پی۔ہوشنگ آباد پہنچتے پہنچتے شام ہوگئی۔۷ بجے بھوپال آیا۔یہاں میرے ایک عزیز اپنی عنایت سے بہت مرغن کھانا لائے۔کھانا اپنی رکابیوں میں اُلٹ ان کی پلیٹیں ان کے حوالہ کیں۔پھوپال سے نکلنے کے بعد خیال آیا کہ کھانا کھاکر اب لوٹ ماراور چوبیس پچیس گھنٹے کے جاگے ہوئے ہوکہیں ایسا نہ ہو کہ بیمار پڑجاؤ۔کھانا کھایا عشاء کی نماز پڑھی۔کھڑکیاں چڑھائیں دروازوں کے کھٹکے لگائے روشنی گل کی۔کمبل تانا اور اپنے آپ کو نیند ڈالا۔نیند توراہ دیکھ ہی رہی تھی جھٹ آنکھ لگ گئی۔خدا معلوم وہ کونسی جگہ تھی اور کیا وقت تھا کہ ایک دروازہ کی کھڑکی پٹ سے گری اور اس آواز کے ساتھ ہی میری آنکھ کھل گئی۔کیا دیکھتا ہوں کہ کھڑکی میں سے کالے دستانے پہنا ہوا ایک ہاتھ نکلا۔ساتھ ہی آہستہ آہستہ دروازہ کھلا اور ایک صاحب سیاہ اور کوٹ پہنے۔نقاب منہ پر ڈالے،ایک پستول ہاتھ میں لئے اند رتشریف لائے اندر آکر انہوں نے بجلی تونہیں کھولی۔ہاں ان کے دوسرے ہاتھ میں جو چھوٹی سی بیٹری تھی اس کو روشن کیا۔مگر روشنی کا رُخ نیچے کی طرف رکھا اور نہایت متانت سے کہا کہ’’اُٹھئے‘‘ میں اُٹھ بیٹھا کہنے لگے۔’’لاؤ،تمہارے پاس کیا ہے۔‘‘میں نے کہا’’تین روپئے،چھ آنہ نوپائی اور دِلّی کا ٹکٹ‘‘کہنے لگا۔’’مذاق کرتے ہو۔‘‘میں نے کہا’’جناب والا! ایسی حالت میںکوئی بھلا آدمی مذاق کرسکتا ہے‘‘مگرنہ معلوم یہ کیا بات تھی کہ باوجود ایسا نازک موقع ہونے کے ان حضرت کا اثر مجھ پر کچھ زیادہ نہیں ہوا۔یہ ضرور ہے کہ پستول ایک خطرناک چیز ہے مگر جب یہ یقین ہوجائے کہ یہ کسی پلپلے آدمی کے ہاتھ میں ہے تو پھر اس کاڈر ورکچھ نہیں رہتا۔میں اسی ادھیڑبن میں تھا کہ انہوںنے پھر ذرا اونچی آواز میں کہا کہ’’نکالتے ہو یا نہیں۔‘‘میں نے کہا۔’’بہت اچھا۔نکالتا ہوں۔‘‘یہ کہہ کر میں ذرا جھکا۔بنچ کے نیچے میرا کالا پمپ شو پڑا تھا۔وہ میں نے اُٹھایا اور ایک دفعہ ہی زور سے کہا کہ۔’’ہیں یہ دروازہ میں کون ہے۔‘‘میری اس آواز پر انہوں نے دروازہ کی طرف دیکھا میں نے پمپ شو کے پچھلے حصہ کو مٹھی میں دبا اور اس کی نوک سامنے کرکے کہا۔’’رکھ دو پستول۔نہیں تو گولی ماردوں گا۔‘‘اب جو وہ میری طرف مڑ کر دیکھتے ہیں تو ایک زبردست پستول ان کے سینے کی طرف ہے۔بیٹری کی روشنی نیچے پڑرہی تھی اس لئے وہ میرے پستول کی ماہئیت کو نہ سمجھ سکے۔آہستہ سے اپنا پستول میرے سامنے والے بنچ پر ڈال دیا بیٹری نیچے پھینک دی اور دونوں ہاتھ اونچے کرکے کھڑے ہوگئے۔میں نے بنچ پر سے ان کا پستول اُٹھایا۔اُٹھ کر بجلی کابٹن دبایا۔اس وقت ان کو معلوم ہوا کہ ان کے پستول سے زیادہ میرا جوتا بکارآمد ثابت ہوا۔میں نے بہت ڈانٹ کر کہا۔’’سامنے بنچ پر بیٹھ جاؤ۔‘‘وہ حضرت یا تو اس زوروں سے آئے تھے

یا تھرتھر کانپنے لگے اور بنچ پر بیٹھ گئے۔میںنے اُٹھ کر چاہا کہ خطرہ کی زنجیر کھینچوں کہ انہوں نے رونا شروع کیا اورکہا کہ’’خدا کے لئے زنجیر نہ کھینچئے۔میں گاڑی سے کود کرجان دیدوں گی۔‘‘ ہیں! جان دیدوں گی‘ ایں چہ معنی دارد میں نے کہا کہ ’’تم ہو کون‘‘ انہوںنے کہا۔’’عورت‘‘ میں نے کہا’’نام‘‘ کہا’’راسخہ‘‘ میں نے کہا سبحان اللہ۔آپ کو دیکھئے اور آپ کے کرتوتوں کو دیکھئے اللہ کی بندی تجھے گھر میں بہو بیٹی بن کر بیٹھنا تھا یا اس طرح ڈاکے ڈالتے پھرنا۔کہنے لگی۔’’مصیبت سب کچھ کراتی ہے اور رفتار زمانہ سب کچھ سکھاتی ہے۔‘‘میں نے کہا۔’’نقاب اُتارو۔‘‘کہنے لگی۔’’نہیں‘‘میں نے کہا۔’’نہیں؟ تو اچھا میں زنجیرکھینچتا ہوں۔‘‘آخر نا چار ہوکر بیچاری نے نقاب اُٹھائی خاصی اچھی شکل کی جوان عورت تھی مگرآنکھوں کے نیچے کی کالی کالی لکیریں بتارہی تھیں کہ مصیبت زدہ ہے۔بڑی دیرتک ہم ایک دوسرے کو دیکھتے رہے معلوم ہوتا ہے کہ وہ میرا تیو ردیکھ کر سمجھ گئی کہ میرا ارادہ اس کو پولیس کے حوالہ کرنے کا نہیں ہے کیونکہ وہ ایک دفعہ ہی کھڑی ہوگئی اور کہا کہ’’خدا حافظ‘‘ میں نے پستول کا رُخ اس کی طرف کرکے کہا کہ’’بیٹھ جاؤ‘‘ اس نے ایک قہقہہ مارا اور کہا کہ پہلے پستول کو تو دیکھ لیجئے کہ یہ چلتا بھی ہے یا نہیں۔آپ نے جوتے کے پستول سے لکڑی کا پستول چھین کر کوئی بڑا کمال نہیں کیا۔‘‘اب جو میں نے غور سے پستول کو یکھا تو واقعی لکڑی کا ٹکڑا تھا گوشکل وصورت میں عین پستول تھا میں نے کہا۔’’کچھ حرج نہیں۔پستول کا م دے یا نہ دے۔میرے ہاتھ پاؤں تو کام دیتے ہیں اب بیٹھتی ہے یا میں اُٹھوں۔‘‘یہ سن کر وہ بیٹھ گئی اور کہنے لگی۔’’آخر اس سے آپ کا مطلب۔‘‘میں نے کہا کہ’’میں تمہاری داستان سننا چاہتا ہوں۔‘‘پوچھا’’یہ کیوں۔‘‘میں نے کہا۔’’مضمون لکھنے کو۔‘‘کہنے لگی۔’’تو،اچھا آپ مضمون نگار ہیں اور آپ کا اسم شریف۔‘‘ میں نے کہا۔’’فرحت اللہ بیگ۔‘کہنے لگی ۔ ’’اوہو،آپ ہی مرزا صاحب ہیں آداب عرض کرتی ہوں۔آپ کے مضمون پڑھتی تھی ۔آپ کو دیکھنے کا شوق تھا چلو وہ بھی اللہ نے پورا کردیا۔اجی مرزا صاحب میں کیا بتاوں کہ میں کون ہوں۔ایک مصیبت زدہ عورت ہوں۔ایف۔ اے تک تعلیم پائی ہے۔چھوٹی عمرمیں شادی ہوئی۔دوہی برس کے بعد وہ مرگئے۔سسرال والوں نے ان کے مرنے کا سبب مجھ کو ٹھہرایا۔الزام یہ تھا کہ میں سسرال والوں پر بھاری ہوئی کہ ایک ہی سال میں ایک چھوڑ چار کو کھاگئی۔میکہ میں آکر رہی وہاں سوتیلے بھائیوں نے ٹکنے نہ دیا۔آخر ایک بھلے آدمی سے نکاح کرلیا۔وہ اللہ کے فضل سے ڈاکو نکلے۔دن کو گھر میں رہتے اور رات کو خدا معلوم کہاں کہاں جاکر ڈاکہ ڈالتے۔مجھے بچپن ہی سے ڈاکوؤں اور سراغ رسانوں کے قصے پڑھنے کا شوق تھا۔میں ان کے سر ہوگئی کہ مجھے بھی ساتھ لے چلا کرو۔پہلے تو وہ’’نہیں۔نہیں‘‘ کرتے رہے لیکن بعد میں راضی ہوگئے اور اس طرح تھوڑے ہی دنوں میں مجھے گھوڑے کی سواری بھی آگئی اور چلتی ریل میں چڑھنے اُترنے کی مشق بھی ہوگئی۔ابھی دیڑھ سال کی بات ہے کہ تبارک پور کے گاؤں والوں نے ان کو گھیرلیا اور گولی مار کر شہید کردیا۔‘‘ میں نے کہا۔’’شہید کردیاکی بھی بہت ہوئی یہ کیوں نہیں کہتی جہنم واصل کردیا۔‘‘کہنے لگی۔’’مرزا صاحب دیکھئے خدا کے لئے ایسی باتیں نہ کیجئے۔میں سب کچھ برداشت کرسکتی ہوں،مگر ان کے متعلق اگر آپ نے کوئی بُرالفظ زبان سے نکالا تو اچھا نہ ہوگا۔‘‘تو بیگم صاحبہ آپ چاہتی ہیں کہ میں ایک ڈاکو کی تعریف کروں۔ کہنے لگی۔’’ساری دُنیا ڈاکو ہے کوئی اپنی عقل سے دُنیا کو لوٹتا ہے۔کوئی اپنے ہاتھ پاؤں کے زور سے۔ ایک کی آپ تعریف کرتے ہیں اور دوسرے کی مذمت۔ورنہ ہیں دونوں ڈاکو۔‘‘

میں نے کہا۔’’اللہ رے تیری منطق۔اچھا اس جھگڑے کو تو چھوڑ و اور اپنا قصہ ختم کرو۔‘‘کہنے لگی۔’’اس کے بعد اب قصہ میں رہ ہی کیا گیا ہے۔ان کے مرنے کے بعدسال بھر تک تو اپنی جمع پونجی پرگذارہ کرتی رہی۔ جب وہ ختم ہوگئی تو میں نے اِکّادُکّا مسافروں کو لوٹنا شروع کیا۔چنانچہ خوش قسمتی سے آج آپ سے نیاز حاصل ہو گیا۔اچھا اب اجازت ہے۔میں نے کہا۔’’راسخہ ! بڑے افسوس کی بات ہے کہ تم شریف اور تعلیم یافتہ ہوکر اپنی ڈاکہ زنی پر فخر کرتی ہو۔‘‘کہنے لگی۔’’اجی مرزا صاحب! مثل مشہور ہے کہ بھوکے شریف اورپیٹ بھرے رزیل سے ڈرنا چاہئے مگر میں کہتی ہوں کہ یہ دونوں ایسے خطرناک نہیں ہوتے جتنے بگڑے ہوئے تعلیم یافتہ شریف۔یقین مانیئے کہ اگر ان لوگوں میں ذرا سی ہمت کا اضافہ ہوجائے تو یہ دُنیا کو ہلادیں۔وہ تو کہو کہ خدا نے گنجے کو ناخن ہی نہیں دیئے۔ورنہ کھجا کھجا کر خدا معلوم اپنا کیا حال کرلیتا۔آپ فرماتے ہیں کہ یہ پیشہ چھوڑ دو ۔میں کہتی ہوں کہ لو۔میں آج ہی چھوڑ ے دیتی ہوں۔مگر میرے کھانے پینے کا تو بندوبست کردو۔‘‘میں نے کہا۔’’پھر کسی سے نکاح کرلو۔‘‘کہنے لگی۔’’کس سے! آپ سے۔‘‘میں نے کہا۔’’مجھ سے نکاح کرنا کچھ آسان کام نہیں ہے۔میری بیوی پکی مغلانی ہے۔میں نے تو تا پستول کا کام لیا تھا مگر و ہ چپل سے اُسترے کا کام لے گی۔‘‘ یہ سن کراس نے ایک قہقہہ مارا اور کہا۔’’مرزا صاحب! آپ کی باتوں میں آج مزا آگیا۔ہاں۔لایئے سیدھے ہاتھ سے اب کچھ دلوائیے۔خدا کی قسم میرے پاس کھانے کو ایک پیسہ نہیں ہے کل سے بھوکی ہوں۔‘‘میں نے بٹوہ کھول اس کے سامنے کردیا۔بٹوہ میں کئی نوٹ تھے۔مگر اس اللہ کی بندی نے صرف دوروپیہ نکال لئے اور کہا۔’’شکریہ۔چلو چلتے چلتے آپ پر بھی ہاتھ صاف کرہی دیا۔اچھا فی امان اللہ۔‘‘یہ کہہ کر دروازہ کھول ریل سے اس طرح نیچے اُتر گئی کہ کوئی گارڈ بھی کیا اُترے گا۔چلتے چلتے اپنی بیٹری اورپستول بھی اُٹھا کر لے گئی۔میں سوچتا تھا کہ بارِ الہٰ۔جب شریف زادیاں اس طرح ڈاکہ ڈالنے پر اُتر آئی ہیں تو یہ دُنیا کیا رنگ پکڑنے والی ہے۔گھبراکر بنچ سے اُٹھا۔کیا دیکھتا ہوں کہ دروازہ کا کھٹکا اندر سے لگا ہوا ہے۔سمجھ میں نہیں آیا کہ ہو نہ ہو یہ سب کچھ تیرے ۲۴ گھنٹے تک جاگنے۔ثقیل غذا کھانے اور سخت بنج پر پڑے رہنے کا نتیجہ ہے۔ورنہ شریف زادیاں تو شریف زادیاں ہی ہوتی ہیں ان کو بھلا ایسے کاموں سے کیا واسطہ۔لیکن یہ سمجھ میں نہیں آیا کہ میرے بٹوہ میں سے دوروپئے کیوں کم ہوگئے۔