ارکان مقننہ کی وکالت پر امتناع سے سپریم کورٹ کا انکار

نئی دہلی،25ستمبر(سیاست ڈاٹ کام )سپریم کورٹ نے منگل کو یہ التزام کیا کہ اراکین پارلیمنٹ اور اراکین اسمبلی کو وکالت کا پیشہ کرنے سے نہیں روکا جاسکتا۔چیف جسٹس دیپک مشرا،جسٹس اے ایم کھانولکر اور جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ کی بینچ نے بھارتیہ جنتا پارٹی کے لیڈر اور پیشہ سے وکیل اشونی کمار اپادھیائے کی متعلقہ عرضی خارج کردی۔عدالت نے کہا کہ بار کونسل آف انڈیا(بی سی آئی)کی دستورالعمل کااصول -49 صرف تنخواہ پانے والے فل ٹائم ملازمین پر نافذ ہوتا ہے ۔اس کے دائرے میں اراکین پارلیمنٹ اور اراکین اسمبلی نہیں آتے ۔مسٹر اپادھیائے نے اپنی عرضی میں مطالبہ کیاتھا کہ بی سی آئی دستورالعمل کے سیکشن چھ کے مطابق اراکین پارلیمنٹ اور اراکین اسمبلی کے اپنے عہدے پر رہنے کے دوران وکالت کرنے پر پابندی عائد کی جانی چاہئے ۔انہوں نے اسی ضمن میں دستوالعمل کے اصول -49 کو غیر آئینی قرار دینے کا بھی مطالبہ کیا تھا۔مسٹر اپادھیائے کی جانب سے سینئر وکیل شیکھر نفاڈے نے دلیل دی تھی کی اراکین پارلیمنٹ اور اراکین اسمبلی کو بھی تنخواہ ملتی ہے اور انہیں پریکٹس کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔اس پر بی سی آئی نے بھی اراکین پارلیمنٹ اور ارکین اسمبلی کو نوٹس جاری کئے تھے ۔مرکزی حکومت کی جانب سے ایٹرنی جنرل کے کے وینوگوپال نے حالانکہ اس عرضی کی یہ کہتے ہوئے مخالفت کی تھی کہ اراکین پارلیمنٹ اور اراکین اسمبلی عوامی خدمات ادا کرتے ہیں۔وہ منتخب نمائندے ہوتے ہیں اس کے نتیجے میں انہیں حکومت کا فل ٹائم ملازم نہیں مانا جاسکتا اور اسی لئے انہیں وکالت کے پیشہ سے بھی نہیں روکا جا سکتا ۔