ارون شوری کے ریمارکس

سابق مرکزی وزیر ارون شوری نے مودی حکومت پر کڑی تنقید کی ہے ۔ انہوں نے مودی حکومت کے طرز کارکردگی کو نشانہ بنایا اور خاص طور پر خود وزیر اعظم پر شدید ریمارکس کئے ہیں۔ ارون شوری کا کہنا تھا کہ نریندر مودی ملک میں ایک رکنی صدارتی طرز حکومت چلا رہے ہیں اور حکومت جس سمت میں پیشرفت کر رہی ہے وہ ملک کیلئے خطرناک ہے ۔ اس کے علاوہ ان کا کہنا تھا کہ مودی حکومت کی دو سال کی کارکردگی کا تجزیہ کرنے کے بعد ان کا یہ خیال ہے کہ آئندہ تین سال اور بھی خطرناک ہوسکتے ہیں۔ ان تین برسوں میں ملک میںسیول لبرٹیز ( شہری حقوق ) کو کچلنے کی کوششیں اور بھی تیز اور شدید ہوجائیں گی ۔ مودی حکومت ہندوستان میں دو سال قبل قائم ہوئی اور اس کے بعد سے سماج کے مختلف طبقات میں بتدریج جو بے چینی پیدا ہو رہی ہے وہ سب پر عیاں ہے لیکن اس بے چینی اور اضطراب کی کیفیت کو صحیح معنوں میں ارون شوری نے اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے ۔ یقینی طور پر گذشتہ دو سال میںشہری حقوق کو کچلنے کے جو اقدامات ہوئے ہیں جو حکمت عملی اختیار کرتے ہوئے سماج کے مختلف طبقات کو جو نشانہ بنایا جا رہا ہے وہ ساری دنیا کے سامنے ہے ۔ ہر کوئی اس بات سے واقف ہے کہ نریندر مودی معمولی سا بھی اختلاف برداشت کرنے کو تیار نہیں ہیں ۔ کوئی ان کی رائے سے یا ان کے خیال سے اختلاف کرتا ہے تو پھر یہ شخصی انا کا مسئلہ بن جاتا ہے اور شخصیت پرستی کی انتہا تک پہونچ کر اس کے خلاف اقدامات شروع ہوجاتے ہیں۔ خود بی جے پی کے سینئر قائدین میں اس بات کا احساس ہے کہ مودی جمہوری طرز میں صدارتی انداز میں حکومت چلا رہے ہیں اور اسی کو آگے بڑھایا جا رہا ہے ۔ سماج میں جو بے چینی پیدا ہوگئی ہے اور نفرت و تقسیم کے ماحول کو جس انداز سے ہوا دی جا رہی ہے وہ بھی سب پر عیاں ہے اور یقینی طور پر کہا جاسکتا ہے کہ یہ سب کچھ ملک کیلئے اچھا نہیں ہے اور یہ ملک کے حق میں مضر ثابت ہوسکتا ہے ۔ حکومت کسی کی رائے کو قبول کرنے یا تسلیم کرنے تو دور کی بات ہے سننے کو بھی تیار نہیں ہے ۔ نہ کسی سے مشورہ کیا جا رہا ہے اور نہ کسی کی تجاویز کو قبول کیا جا رہا ہے ۔ حکومت اپنے طور پر ہر طرح کے فیصلے کرتی چلی جا رہی ہے اور اس پر عمل بھی کیا جا رہا ہے ۔

نریندر مودی کے مرکز میں برسر اقتدار آنے کے بعد سے ملک میں نفرت و تقسیم کا ماحول پیدا کردیا گیا ہے ۔ اس ماحول کو مختلف گوشوں سے ہوا دی جا رہی ہے ۔ گذشتہ دنوں امریکہ کے ایک ادارہ کی رپورٹ میں واضح ہوگیا ہے کہ نفرت پھیلانے والی تنظیموں اور اداروںکو بی جے پی قائدین کی خاموش تائید حاصل ہے ۔ یہ تائید ایسی ہے جس سے ان تنظیموں کی مزید حوصلہ افزائی ہو رہی ہے ۔ ملک میں رواداری اور تحمل کا ماحول ختم کردیا گیا ہے ۔ جانوروں کے حق کی بات کرنے والے انسانوں کو ہلاک کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کر رہے ہیں۔عوام کے کھانے کے فیصلے بھی حکومتیں کرنے لگی ہیں۔ حکومت کی پالیسیوں اور اس کے اقدامات سے اتفاق نہ کرنے والے نوجوان طلبا کو خود کشی پر مجبور کیا جا رہا ہے یا پھر اس کے خلاف آواز اٹھانے والوں کو غدار قرار دیتے ہوئے جیلوں کو منتقل کیا جا رہا ہے ۔ کسی مخصوص غذا کو ترجیح دینے والوں کو پڑوسی ملک پاکستان چلے جانے کے مشورے دئے جا رہے ہیں ۔ کسی کی حب الوطنی کی دلیل محض متنازعہ نعروں تک محدود کردی گئی ہے ۔ سرحدات کی حفاظت کی ذمہ داری نبھانے والے فرزند کے والد کو محض بیف رکھنے کے شبہ میں قتل کیا جا رہا ہے ۔ ان سب کے باوجود حکومت کسی کی رائے سننے کو تیار نہیں ہے اور نہ ہی حالات کو بہتر بنانے اور ملک کو درپیش سنگین مسائل کی یکسوئی کو یقینی بنانے کسی سے کوئی مشورہ کیا جا رہا ہے ۔ محض من مانی انداز میںحکومت چلائی جا رہی ہے جو مناسب نہیں ہے ۔

ارون شوری نے جو تبصرے کئے ہیں وہ یقینی طور پر ان کی اپنی ذاتی رائے ہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ یہی رائے خود بی جے پی کے کئی قائدین کی ہے ۔ کئی سینئر قائدین ایسے ہیں جو بی جے پی میں ہی دم گھٹنے کی شکایت کا شکار ہیں لیکن وہ حالات کو دیکھتے ہوئے اپنے آپ میںایسا حوصلہ پیدا نہیں کر پا رہے ہیں کہ زبان کھولیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ آئندہ دنوں میں مزید قائدین ارون شوری کی تقلید کرتے ہوئے زبان کھولنے پر مجبور ہوجائیں کیونکہ وہ بھی زیادہ عرصہ تک گھٹن کے ماحول کو برداشت نہیں کرپائیں گے ۔ خود حکومت کیلئے ارون شوری کا تبصرہ آنکھیں کھولدینے کیلئے کافی ہے ۔ حکومت کو اپنے انداز اور طرز کارکردگی میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے ۔ ہندوستان میں جمہوری اور وفاقی طرز حکمرانی ہے ۔ یہاں سبھی گوشوں کو اور خاص طور پر اپوزیشن کو بھی فیصلہ سازی اور عوام کی بہتری کے اقدامات میں حصہ دار بنانے اور ساتھ لے کر چلنے کی روایت رہی ہے اور نریندر مودی حکومت کو اس روایت کے انحراف سے گریز کرنا چاہئے ۔