اردو یونیورسٹی کا اقلیتی کمیشن کو متنازعہ جواب

یونیورسٹی ریاستی کمیشن کو جوابدہ نہیں،سیول سرویس اکیڈیمی کے مسئلہ پر وضاحت طلبی، دھاندلیوں پر پردہ پوشی کی کوشش
حیدرآباد ۔ 11 ۔ جولائی (سیاست نیوز) مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی نے سیول سرویس کوچنگ اکیڈیمی کے بارے میں تلنگانہ اقلیتی کمیشن کی جانب سے وضاحت طلبی کا جواب دینے کے بجائے متنازعہ جواب دیا ہے ۔ یونیورسٹی کے رجسٹرار ڈاکٹر ایم اے سکندر نے کمیشن کو مکتوب روانہ کرتے ہوئے واضح کردیا کہ اردو یونیورسٹی ایک سنٹرل یونیورسٹی ہے جو تلنگانہ اقلیتی کمیشن کے دائرہ اختیار میں نہیں آتی جو کہ ریاستی ایکٹ کے تحت قائم کی گئی ہے۔ کمیشن کا دعویٰ ہے کہ وہ کسی بھی ریاستی یا مرکزی ادارے سے اقلیتوں کے مسائل بالخصوص ناانصافی کی صورت میں وضاحت طلب کرسکتا ہے لیکن مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی نے جواب دینے کے بجائے یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ وہ کمیشن کو جواب دہ نہیں ہے ۔ حالانکہ اقلیتی کمیشن نے جو مسئلہ اٹھایا ہے ، وہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ یونیورسٹی بھلے ہی سنٹرل ہو لیکن اس کی کارکردگی حیدرآباد میں ہے ، لہذا اقلیتی کمیشن کو کسی بھی مسئلہ پر وضاحت طلبی کا مکمل اختیار ہے۔ عوام اپنی شکایات کے سلسلہ میں قومی اقلیتی کمیشن سے دہلی میں رجوع نہیں ہوسکتے اور نہ ہی قومی اقلیتی کمیشن کا حیدرآباد میں دفتر ہے۔ رجسٹرار اردو یونیورسٹی نے جس انداز میں جواب روانہ کرتے ہوئے اقلیتی کمیشن جیسے دستوری ادارہ کی اہمیت گھٹانے کی کوشش کی ہے ، وہ انتہائی افسوسناک ہے۔ یونیورسٹی میں کسی بھی دھاندلی یا بے قاعدگی کیلئے جب ریاستی حکومت یا اس کے ادارہ سوال نہیں کریں گے تو پھر یونیورسٹی کی کارکردگی کس طرح بہتر ہوگی۔ یونیورسٹی کیلئے اراضی ریاستی حکومت نے الاٹ کی ہے، اس کے علاوہ دیگر انفراسٹرکچر سہولتوں کے سلسلہ میں ریاستی حکومت کا اہم رول ہے۔ دلچسپ بات تو یہ ہے کہ یونیورسٹی وقف اراضی پر قائم کی گئی ہے ۔ دراصل اپنی کوتاہیوں کو چھپانے کیلئے یونیورسٹی کے حکام اقلیتی کمیشن جیسے ادارہ کی اہمیت گھٹانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ تلنگانہ اقلیتی کمیشن نے رجسٹرار کے اس جواب کا سنجیدگی سے نوٹ لیا ہے ۔ اور وہ اس سلسلہ میں مزید کارروائی کی تیاری میں ہے۔ اقلیتی کمیشن چاہے تو وہ قومی اقلیتی کمیشن یا پھر صدر جمہوریہ سے یونیورسٹی کی کارکردگی کے بارے میں شکایت کرسکتا ہے۔ حالیہ عرصہ میں یونیورسٹی میں تقررات اور مختلف کاموں کے الاٹمنٹ کے سلسلہ میں بھاری بے قاعدگیوں کے معاملات منظر عام پر آئے ہیں۔ بعض اسکامس کی تحقیقاتی رپورٹ یونیورسٹی کو پیش کئے جانے کے باوجود خاطیوں کے خلاف کارروائی کے بجائے رپورٹ کو برفدان کی نذر کردیا گیا۔ سابق چانسلر سریش والا نے ایک سے زائد مرتبہ کھل کر یونیورسٹی کی کارکردگی پر عدم اطمینان کا اظہار کیا اور وائس چانسلر کے رویہ کی مرکزی وزیر فروغ انسانی وسائل پرکاش جاوڈیکر سے شکایت کی تھی۔ بتایا جاتا ہے کہ یونیورسٹی میں ایک منظم گروہ سرگرم ہیں ، جسے دہلی میں بیٹھے بعض سیاسی آقاوؤں کی سرپرستی حاصل ہے۔ یونیورسٹی بھلے ہی سنٹرل ایکٹ کے تحت ہو لیکن عوامی یونیورسٹی ہے اور وہ عوام کو جوابدہ ہے۔ چونکہ یہ اردو کے فروغ کیلئے قائم کی گئی لہذا ہر اردو داں یونیورسٹی حکام سے سوال کرنے کا حق رکھتا ہے۔ یونیورسٹی کے رجسٹرار نے جس مسئلہ پر کمیشن کو مکتوب روانہ کیا ، وہ سیول سرویس اکیڈیمی کی عدم تجدید کا معاملہ ہے ۔ یونیورسٹی گرانٹس کمیشن نے 31 مارچ تک سیول سرویس اکیڈیمی کی میعاد میں توسیع کی تھی جس کے بعد کوئی توسیع نہیں کی گئی۔ رجسٹرار نے بتایا کہ 13 مارچ کو یونیورسٹی کی جانب سے ریذیڈنشیل کوچنگ اکیڈیمی کی میعاد میں 2018-19 ء کے لئے توسیع دینے کی درخواست کی۔ یونیورسٹی کے پاس یہ معاملہ زیر التواء ہے۔ واضح رہے کہ سیول سرویس اکیڈیمی کی توسیع نہ دیئے جانے کے سبب اقلیتی امیدواروں کو سیول سرویسز کی کوچنگ متاثر ہوگی۔ یونیورسٹی کی اسی حالت کو دیکھتے ہوئے ایک سینئر بیوروکریٹ نے علحدگی اختیار کرلی۔ یونیورسٹی کو چاہئے تھا کہ وہ اقلیتی کمیشن کی طلب کردہ وضاحت کا تشفی بخش جواب دیتی ۔ برخلاف اس کے اس نے کمیشن کی اہمیت گھٹانے کی کوشش کی ہے۔