اردو ہے جس کا نام …

محمد عبدالمعز صدیقی

اردو کئی زبانوں سے مل کر پیار ، محبت ، باہمی میل ملاپ اور رابطے کی زبان کی حیثیت سے وجود میں آئی ہے ۔ اس کے مقام پیدائش کے بارے میں مختلف محققین نے اپنے اپنے دلائل کی مدد سے اپنی رائے کا اظہار کیا ہے ۔ میں یہ کہتا ہوں کہ اس کا مقام انسانی دل ہے ۔ یہ انسانوں کے دل میں بستی ہے اور محبت و اخوت کی جوت جگاتی ہے ۔ اردو زبان بھید بھاؤ ، ذات پات اور علاقہ پرستی سے ابا کرتی ہے اور مذہب ،علاقہ اور ملک کے بالاتر ہے ۔ جہاں انسان بستے ہیں وہاں یہ مقام بنالیتی ہے ۔
ہم اس وقت متحدہ عرب امارات میں ہیں جہاں نہ صرف اردو بولی جاتی ہے بلکہ لکھی اور پڑھی جاتی ہے ۔ آئے دن منعقد ہونے والے مشاعرے ، ادبی و دینی محافل ، تقریری و تحریری مقابلے ، مقابلہ نعت خوانی اور اسلامی و ادبی کوئز وغیرہ اس بات کی غمازی کرتے ہیں کہ یہاں اردو کا فروغ اپنے شباب پر ہے ۔ یہاں مقامی عرب حضرات بھی اردو میں بات چیت کرتے ہیں اردو ڈامے اور فلمیں ذوق شوق سے دیکھے جاتے ہیں ۔
اس لحاظ سے نئی نسل بھی اردو شناس بنتی جارہی ہے ۔ متحدہ عرب امارات کے مقامی باشندے ڈاکٹر زبیر فاروق صاحب جو عرب ہیں انہوں نے اردو میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی اور بہت معروف اور مقبول شاعر بھی ہیں۔ اردو کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ عربی زبان کے بعد اسلامی کتابوں کا ذخیرہ اردو ادب میں ہے ۔ قرآن کے تراجم و تفاسیر ، سیر نبوی کی کتب ، صحابہ و صحابیات ، ادوار خلفائے راشدین اور مختلف عنوانات پر بے شمار کتابیں شائع ہوچکی ہیں ۔اردو تفریحی و مزاحیہ ادب ، سائنس و تحقیق ، الکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کی مقبول زبان ہے ۔ اس لحاظ سے ہر شعبے کی ’’بہار‘‘ اور ہر دل کی چاہت ہے ۔
اردو زبان و ادب صرف گل وبلبل تک محدود نہیں ہے اب اس کا دائرہ وسیع تر ہوگیا ہے ۔ اس میں سمندر کی سی وسعت ، ہمالیہ کی سی بلندی دریا کی سی روانی ہے اور اس کے خمیر میں پیار اور محبت کی چاشنی بدرجہ اتم موجود ہے ۔ اب لکھنے والے کی ذہنی وسعت پر منحصر ہے کہ وہ اس سے کس انداز سے اور کتنا استفادہ حاصل کرسکتا ہے ۔
بعض لوگ کہتے ہیں کہ اب زمانہ بہت آگے نکل چکا ہے اب اردو زمانے کا ساتھ نہیں دے سکتی ۔ یہ زبان تحقیق اور سائنس کی زبان نہیں بن سکتی اس لئے اس زبان کو اب لطف ومزاح کی زبان بنادیا جائے ، ان لوگوں سے ادباً گذارش ہے کہ وہ اس زبان کی وسعت پر قدغن عائد نہ کریں وہ اپنا کام کریں اور اردو زبان کے فروغ کے لئے کوشاں لوگوں کو اپنا کام کرنے دیں ۔ عثمانیہ یونیورسٹی حیدرآباد دکن اس بات کا بین ثبوت ہے کہ اردو زبان میں بلا کی وسعت ہے ۔ دنیا جانتی ہے کہ اس یونیورسٹی کا ذریعہ تعلیم اردو رہا ہے ۔ یہاں میڈیکل اور انجینئرنگ کی تعلیم ہو یا کسی اور مضمون کی تدریس اور سائنسی یا تحقیقی کام ہو اردو زبان میں کیا گیا ہے اور کیا جاسکتا ہے ۔

آج مولانا ابوالکلام آزاد اردو یونیورسٹی حیدرآباد بھی اسی راہ پر رواں دواں ہے ۔ اس یونیورسٹی کا ذریعہ تعلیم اردو ہے ۔ یہاں مختلف کورسز اردو میں ہی پڑھائے جاتے ہیں ۔ ہندوستانی طلبہ و طالبات کی ایک بڑی تعداد اس یونیورسٹی سے استفادہ کررہی ہے اور اسی طرح کراچی اردو یونیورسٹی پاکستان نے بھی اس میدان میں اپنا لوہا منوالیا ہے ۔
آج بھی لسانی تعصب کے باوجود ہندوستان سے ایک میگزین شائع ہوتا ہے جس کا نام ’’سائنس کی دنیا‘‘ ہے جس میں تحقیقی اور سائنسی مضامین شائع ہوتے ہیں ۔ انگریزی اصطلاحات کا استعمال کرتے ہوئے بہترین مضامین شائع کرنے کا اعزاز اس میگزین کو حاصل ہے ۔ کئی ڈاکٹرز اور سائنسداں اس کے مستقل ممبر اور ذمہ داران بھی ہیں ۔ اسی طرح کئی اردو رسالے شائع ہوتے رہتے ہیں ۔ مولانا وحید الدین خان نے ’’مذہب اور دور جدید کا چیلنج‘‘ کے موضوع پر کتاب لکھ کر اس بات کا ثبوت فراہم کیا ہے کہ سائنسی وتحقیقی مضامین سادہ اور سلیس اردو میں قلمبند کئے جاسکتے ہیں اور اسی طرح سہ ماہی ’’تحقیقات اسلامی‘‘ اور دوسرے اردو رسائل اپنے اپنے انداز میں شائع ہوتے ہیں اور اردو کی آب و تاب میں اضافہ کرتے اور اس کی شہرت کو چار چاند لگاتے ہیں ۔
خواجہ الطاف حسین حالی ، سرسید احمد خان اور ان کے ساتھی ، مولانا شبلی نعمانی ، مولانا سلیمان ندوی ، علامہ اقبال ، مولانا عبدالحسن علی ندوی ، ڈاکٹر سید عبداللہ اور بہت سے دوسرے ادباء نے اپنی کاوشوں کے ذریعے گیسوئے اردو سنوارنے کی بھرپور کوشش کی ہے ۔ علی گڑھ تحریک یا ترقی پسند تحریک ،ادبی و دینی تنظیمیں اور ادارے و دیگر مدارس نے اردو زبان و ادب کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا ہے اور اس کے درخشندہ مستقبل کی لو آنکھوں میں سجائے تاحال سرگرداں ہیں ۔
مرزا غالب نے شاعری کے ساتھ ساتھ اردو زبان کو جدید اسلوب سے نوازا ہے ۔ خطوط غالب اس بات کا زندہ ثبوت ہیں ۔ مولانا ابوالکلام آزاد قلعہ احمد نگر میں جیل میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرتے ہوئے روزانہ تہجد کے وقت اٹھتے اور اپنے احباب کے نام خطوط لکھا کرتے تھے ۔ ان خطوط کا مجموعہ’’غبار خاطر‘‘ کے نام سے منظر عام پر آچکا ہے ۔ بابائے اردو مولوی عبدالحق نے اپنی ساری زندگی اردو کی ترویج کے لئے وقف کردی تھی ۔
اس طرح اردو کے فروغ میں کئی قدیم و جدید ادباء ، شعراء ، علماء ، محققین ، سیرت نگار اور اولیائے کرام اور بزرگان دین کی کاوشیںشامل ہیں ۔ اب محبان اردو کا فریضہ ہے کہ اس کی ترویج میں عملاً حصہ لیں ۔ اردو رسالے ، اخبارات اور کتابیں خریدنے کے علاوہ اپنے بچوں کو کم از کم بحیثیت اختیار مضمون اردو پڑھائیں تاکہ ہمارے بچے اردو کتابوں کی صورت میں موجود خزینہ اردو سے فیض یاب ہوسکیں ۔

اسلامیہ انگلش اسکول ابو ظہبی نے آغاز ہی سے اردو کو نمایاں مقام دیا ہے ۔ لفظ ’’اسلامیہ‘‘ میں یہ بات پوشیدہ ہے کہ ہمارے اسکول کی آئیڈیالوجی اسلام ہے اور اردو بھی اس میں شامل ہوجاتی ہے وہ اس طرح کہ عربی زبان کے بعد اسلامی کتابوں کا ذخیرہ اردو میں ہے ۔ آج بھی برصغیر کے غیر مسلم قبول اسلام کرلیتے ہیں تو اسلام سمجھنے کے لئے سب سے پہلے اردو زبان سیکھتے ہیں ۔ اسلامیہ انگلش اسکول کے ذمہ داران اور اساتذہ اس لحاظ سے قابل تحسین ہیں کہ انہوں نے اردو کا بہترین نصاب تیار کیا ہے اور کمرہ جماعت میں طلبہ کو اردو شناس بنانے کی بھرپور کوشش کی جاتی ہے ۔ اگر کوئی طالب علم اردو سے بخوبی آشنا ہوجاتا ہے تو وہ خود بخود قرآن اور سیرت شناس ہونے کے ساتھ ساتھ عہد شناس بھی بن جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اگر کوئی قوم کو تباہ و برباد کرنا ہو تو اس قوم کو اس کی زبان سے جدا کردینے سے وہ قوم خود بخود ختم ہوجائے گی ۔ اس لئے محبان اردو سے گزارش ہے کہ اپنی زبان کی اہمیت کو محسوس کریں اور دامے ، درمے سخنے اس کے ارتقاء میں حصہ لیں ۔ایک زمانہ تھا کہ ہندوستان میں یہ کوشش کی گئی تھی کہ اردو رسم الخط کے بجائے دیوناگری زبان یعنی ہندی میں لکھا جائے لیکن محبان اردو نے اس تحریک کی سخت مخالفت کی اور اس تحریک کو ناکام بنادیا ۔ آج کل یہ دیکھا جارہا ہے کہ ہمارے بچے اردو کو ’رومن انگلش‘ میں لکھ رہے ہیں گویا ہم خود ہی اپنے ہاتھوں سے اپنی زبان کو ختم کرنے کا موجب بن رہے ہیں ۔اردو کے چاہنے والوں سے گزارش ہے کہ وہ اس جانب توجہ دیں اور اپنے بچوں کو اردو رسم الخط میں لکھنے کی تاکید کریں اور اس کو الکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے شعبے میں بھی ترقی دیں ۔
ڈاکٹر ذاکر حسین ، سابقہ صدر جمہوریہ ہند اپنے مضمون ’’اردو‘‘ میں لکھتے ہیں ’’اردو زبان کا دامن بہت وسیع ہے وہ دوسری زبانوں کے الفاظ کو اپنے دامن میں سمولیتی ہے‘‘ ۔ یہ اس بات کا علانیہ ثبوت ہے کہ اردو تمام زبانوں کا مجموعہ ہے ۔ آج اہل زبان کئی انگریزی الفاظ کو اپنا چکے ہیں مثلاً ٹی وی ، فریج ، کمپیوٹر ، انٹرنیٹ اور دیگر عام فہم اور عام مستعمل الفاظ اور اصطلاحات وغیرہ سے زبان میں وسعت پیدا ہوتی ہے رکاوٹ نہیں ۔ اس گنجائش سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اردو کو عام لوگوں کے لئے اظہار کا ذریعہ بناسکتے ہیں اور پھر اردو زبان پر عبور رکھنے والے نوجوانوں کو مستقبل میں الکٹرانک و پرنٹ میڈیا ، تجارت و کاروبار اور دوسرے شعبہ جات میں روزگار کے روشن امکانات حاصل ہوسکتے ہیں ۔
انشاء اللہ تعالی اردو مستقبل قریب میں دنیا بھر کی سب سے زیادہ بولی جانے والی زبانوں میں اولین مقام حاصل کرلے گی بقول داغ
اردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داغؔ
سارے جہاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے