ڈاکٹر امیر علی
ظہیر دہلوی اردو زبان کے نامور شاعر ہیں۔ وہ دلی روایات کے بے مثل امین اور دبستان دلی کے مایہ ناز اور منفرد شاعر ہیں۔ انہوں نے شاعری کی ابتداء ایک ایسے دور میں کی جس وقت اردو شاعری کو پروان چڑھانے میں غالب ، مومن، ظفر اور ذوق کی شاعری کا ہر طرف طوطی بول رہا تھا اوران شعراء کے فکر و فن کی ہر طرف دھوم تھی ۔ ظہیر دہلوی شاعری میں ذوق کے شاگرد ہوئے اور شاعری میں اپنے استاد کا نام روشن کیا اور آخری دم تک اردو زبان و ادب کی گراں قدر خدمات انجام دی ہے۔ ظہیر دہلوی کا اصل نام سید ظہیرالدین حسین رضوی ہے اور آپ کی عرفیت نواب مرزا تھی ۔ ’’داستان غدر‘‘ سے پتہ چلتا ہے کہ بہادر شاہ ظفر نے انہیں ’’راقم الدولہ‘‘ کا خطاب عطا فرمایا تھا۔ ’’گل رعنا‘‘ میں عبدالحئی نے ان کے نام کے ساتھ ’’خان بہادر ‘‘ لکھا ہے ۔ ظہیر دہلوی کا سلسلہ نسب حضرت شاہ نعمت اللہ کے توسط سے حضرت علی کرم اللہ وجہیہ تک پہنچتا ہے۔ یہ وہی نعمت اللہ ہیں جن کے پوتے نور اللہ کو بہمنی حکمران احمد شاہ بہمنی نے دکن آنے کی دعوت دی تھی ۔ جب ا یران میں شاہ نعمت اللہ کا انتقال ہوگیا توان کے بیٹوں شاہ خلیل اللہ اور شاہ حبیب نے دکن کا رخ کیا اور سبھی لوگوں نے اپنی خداداد صلاحیتوں کا لوہا منوایا اور بہمنی سلطنت میں عزت و توقیر حاصل کی اور اعلیٰ عہدوں پر فائز ہوئے ۔ نصیرالدین ہاشمی ’’دکن میں اردو‘‘ میں اس طرح رقمطراز ہیں کہ ان دونوں کا عقد دو بہمنی شہزادیوں سے ہوا تھا ۔
ظہیر دہلوی کے والد سید جلال الدین حیدر اپنے عہد کے اچھے خوش نویسیوں میں شمار ہوتے تھے اور اعلیٰ اخلاق کے مالک تھے ۔ اُن کی شخصیت سے متاثر ہوکر مغل شہنشاہ بہادر شاہ ظفر نے انہیں خوش نویسی میں اپنا استاد مقرر کیا اور شاہی دربار سے خطاب بھی عطا کیا ۔ ظہیر دہلوی 1251 ھ مطابق 1835 ء کو دلی میں پیدا ہوئے ۔ نو (9) برس کی عمر میں والدہ کی شفقت و سرپرستی سے محروم ہوگئے تو والد کا لاڈ و پیار پہلے سے زیادہ ہوگیا۔ پتنگ بازی ، کبوتر بازی اور بٹیر بازی سے ظہیر کو دلچسپی تھی ۔ گھوڑ سواری کا بھی بہت شوق تھا جس کی تربیت کے لئے والد نے ایک ماہر گھوڑ سوار کو مقرر کیا تھا ۔ ظہیر کے والد نے دوسری شادی کرلی مگر ظہیر بڑے خوش نصیب تھے کہ ان کی سوتیلی ماں نے ان کے ساتھ حسن سلوک کیا اوران کی ناز برداری میں کوئی کمی نہ کی اور ان کی والدہ کی کمی کو محسوس ہونے نہ دیا ۔ اس طرح ظہیر کو والد اور والدہ دونوں کا پیار ملا۔ شیخ مقدر علی ، ظہیر کے اتالیق مقرر ہوئے تھے جن سے انہوں نے قرآن مجید کی قرأت میں مدد لی اور ’’گلستان بوستان ، بہار دانش اور یوسف زلیخا‘‘ کا درس لیا ۔ سہ نثر ظہوری ، رسائل ملا طغرا ، قصائد عرفی اور وفائع نعمت خان علی دوسرے استادوں سے درس لیا ۔ مشہور غزل گو ممنون کے بھتیجے سے عربی اور فارسی کی تعلیم حاصل کی اور اس کے بعد تعلیم کا سلسلہ ترک کر کے ملازمت اختیار کی لیکن شاعری کا سلسلہ جاری رہا ۔ ظہیر نے اپنے خاندانی پیشہ فن خوش نویسی میں کمال حاصل کیا ۔ ظہیر اپنے والد کے ہمراہ قلعہ معلیٰ جایا کرتے تھے اور بہادر شاہ ظفر کو اپنا شاگرد بنایا اور خوش نویسی سکھائی ۔ بہادر شاہ ظفر ، ظہیرؔ کی شخصیت سے بڑے متاثر تھے اور ان کو ہونہار سمجھتے تھے ۔ اسی زمانے میں ظہیرؔ نے شاعری کی ابتداء کی ۔ ’’داستان غدر‘‘ ظہیر کی خود نوشت سوانح عمری ہے ، اس سے پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے ذوق کے آگے زانوے ادب تہہ کیا اور مرزا غالب کی صحبت سے بھی مستفید ہونے کا موقع ملا تھا ۔ اس زمانے میں ظہیر کا کہا ہوا کلام 1857 ء کے ہنگاموں کی نذر ہوگیا اور فروری 1857 ء میں ظہیر کی شادی ہوگئی ۔ ظہیر کی اولادوں میں تین بیٹیوں اور بیٹے سجاد مرزا کا نام ملتا ہے۔
ظہیر دہلوی بہادر شاہ ظفر کے قریبی ساتھیوں میں شمار ہوتے تھے ۔ ظہیر کا معمول یہ تھا کہ بادشاہ کے ساتھ اہم معاملات میں شریک رہتے تھے ۔ شاہی دیوان خانے میں احباب کے ساتھ ادبی محفلیں اور نشست ہوتی تھی جس میں دلی کے نامور شعراء شریک ہوتے تھے ۔ داغؔ، مجروحؔ، مہدیؔ قادر بخش صابرؔ اور شہرت وغیرہ شامل ہوتے۔ ظہیر شہر کی شرفاء ، علماء اور اہل کمالوں کی صحبت میں رہتے اور ان کی صحبت سے فائدہ ا ٹھاتے تھے ۔ ایک جگہ ظہیر اس طرح رقمطراز ہیں ’’ہماری ادبی محفلوں میں صرف شعراء علماء اور معزمین ہی شرکت کرتے تھے لیکن 1857 ء کے ہنگاموں نے ان محفلوں کو درہم و برہم کردیا اور دلی کے امراء و شرفاء بے یار و مددگار ہوگئے‘‘ ۔ فرحت اللہ بیگ ’’دہلی کی آخری شمع‘‘ میں ظہیر کی وجاہت اور شکل و صورت کی بڑی تعریف کی ہے ۔ غدر 1857 ء کے ہنگاموں میں ظہیر کا مال و اسباب سب تباہ ہوگیا اور خود بہادر شاہ ظفر کی بادشاہت ختم ہوگئی ۔ ان حالات میںظہیر کو ناخوشگوار حالات کا سامنا کرنا پڑا ۔ ظہیر نے لٹ لٹاکر دلی سے پانی پت کا رخ کیا اور یہاں گھوڑوں کی تجارت سے کچھ نفع بھی کمایا مگر وقت کی گرم ہوائیں ان کو پانی پت میں بھی چین سے رہنے نہ دی کیونکہ منجر دلی والوں کی تلاش کر کے ان کے نام فوج میں لکھوا رہے تھے ۔ ظہیر جان بچاکر جمنا پار مصطفی آباد پہنچے اور پھر فیروز آباد اور لکھنو سے ہوتے ہوئے بریلی پہنچے۔ ظہیر کو یہاں پر ایک عجیب و غریب حالات کا سامنا کرنا پرا ۔ فوج کے جرنل نے انہیں توپ سے باندھ دیا ۔ بتی دکھانا باقی تھا کہ خواجہ تاش داروغہ میر فتح علی خان گھوڑا دوڑاتے ہوئے پہنچ گئے اور ظہیر کی رسی کاٹ دی گئی اور ڈرامائی طور پر ان کی جان بچ گئی۔ غالباً بہادر شاہ ظفر کے قرب کی وجہ سے بھی انگریز ظہیر سے بدظن تھے ۔اس واقعہ کے بعد ظہیر رام پور چلے گئے ۔ یہ 27 اپریل 1857 ء کی بات ہے۔ یہاں انہوں نے چار سال تک قیام کیا اور اسی اثناء میں انگریزوں نے دلی کے باشندوں کے لئے عام معافی کا اعلان کیا اور ظہیر اپنے وطن دلی واپس آگئے ۔ ظہیر کے والد کی موت اور گھر کی نیلامی نے کمر توڑ دی تھی مگر انہوں نے ہمت اور حوصلے سے کام لیا اور ادبی شغل جاری رکھا ۔اگست 1862 ء میں انہوں نے ’’نگارستان سخن‘‘ مرتب کیا جس میں ذوقؔ ، غالبؔ اور مومنؔ کا کلام یکجا کیا گیا تھا ۔ کچھ عرصہ بعد ظہیر نے دلی کو خیر باد کہا اور الور ، جئے پور اور ٹونک میں قسمت آزمائی کی ۔
حیدرآباد (دکن) قدیم دور سے ہی علم و ادب اور تہذیب کا گہوارہ رہا ہے اور یہاں کے لوگوں کی مہمان نوازی اور رواداری مشہور ہے ۔ عوام کے علاوہ یہاں کے حکمراں بھی ادب نواز ، رعایا پرور گزرے ہیں۔ نظام دکن اعلیٰ حضرت میر محبوب علی خان بہادر کا دور حکمرانی عوام کے لئے باعث رحمت ثابت ہوا کیونکہ آپ کے دور حکمرانی سے ہی تمام شعبوں میں ترقی ہوئی ۔ آپ ایک کامیاب اور رعایا پرور حکمراں تھے ۔ ریاست میں ہر طرف امن وامان تھا اور تمام رعایا خوشحال تھی۔ آپ کی علم دوستی اور رعایا پروری کی وجہ سے ملک کے مختلف علاقوں سے لوگ دکن کو آنے لگے۔ خود نظام دکن اعلیٰ حضرت اردو کے پر گو شاعر تھے اور شاعری میں آصفؔ تخلص فرماتے تھے ۔ نظام دکن میر محبوب علی خان والی حیدرآباد کی مہربانیوں اور قدردانیوں نے علمی اور ادبی شخصیتوں کی حوصلہ افزائی کی۔ شاہ استاد داغؔ ، شبلیؔ ، نظم طباطبائی ، جوشؔ ، امیرؔ اور جلیلؔ وغیرہ نے حیدرآباد میں قیام کیا ۔ یہ سب اردو زبان و ادب اور تہذیب کے علمبردار تھے ۔ آصف جاہی دور خاص کر نواب میر محبوب علی خان بہادر اور نواب میر عثمان علی خان بہادر کے دور حکمرانی میں علم و ادب ، تہذیب اور دوسرے شعبوں میں نمایاں ترقی ہوئی جس کے اجلے نقوش آج بھی موجود ہیں۔ ان حکمرانوں کا دربار علماء ، شعراء اور اہل کمالوں کا ملا و ماوا تھا ۔
ظہیرؔ حیدرآباد (دکن) آکر داغؔ کے مہمان ہوئے۔ داغؔ نے اپنے دیرینہ رفیق کا بہت خیال رکھا ۔ وہ دل سے ظہیرؔ کا احترام کرتے تھے ۔ مگر ظہیرؔ کو حیدرآباد کی آب و ہوا راس نہ آئی اور انہوں نے 17 ربیع الاول 1329 ھ مارچ 1911 ء کو رحلت فرمائی اور یہیں ابدی نیند سورہے ہیں۔ کہاں کی مٹی کہاں لے گئی اور کہاں سپرد خاک ہوئے ۔ ظہیر نے تین دیوان اپنی یادگار چھوڑے ہیں۔ پہلا دیوان ’’گلستان سخن‘‘ کے نام سے 1316 ھ ، 1899 ء میں ٹونک میں مرتب کیا ۔ ’’سبنلستان عبرت‘‘ اور ’’دفتر خیال‘‘ حیدرآباد میں مرتب ہوئے ۔ ظہیر کی نثری کاوشوں میں ’’داستان غدر‘‘ ایک نہایت اہم تصنیف ہے۔ یہ مشہور کتاب 1910 ء میں مکمل ہوئی اور اس نے ظہیر کو بقائے دوام عطا کیا ۔ داستان غدر ، 1857 ء کے ہنگاموں کی ایک قابل قدر اور معتبر تاریخی دستاویز ہے اور خود ظہیر کی ایک مستند خود نوشت سوانح ہے۔ احسن اللہ کی فرمائش پر ظہیر نے مشہور قصہ ممتاز کو فارسی سے اردو میں منتقل کیا تھا ۔ فارسی میں محمد رفیع الدین اس کے مصنف تھے ۔ ظہیرؔ نے اس مشہور قصے کا سلیس اردو میں ترجمہ پیش کیا تھا جو کافی سراہا گیا ۔ یہ عجیب بات ہے کہ ظہیر نے شاعری میں ذوقؔ کی شادگردی اختیار کی تھی لیکن ان کی غزلوں میں مومنؔ کا رنگ جھلکتا ہے اور خود ظہیر کو اس بات کا احساس تھا وہ اس طرح کہتے ہیں۔ مومن کی پیروی نے میرے اشعار کو جلا بخشی ہے ؎
طرز مومن ؔ سے نہ آگاہ تھا جب تک کہ ظہیرؔ
سچ تو یہ ہے کہ کبھی رنگ غزل نے نہ دیا
ظہیر نے مومنؔ کی شگفتگی و رنگینی ، اعلیٰ تخیل ، نازک خیالی اور بلند پروازی کو اپنا یا تھا اور غزل گوئی کے تیکھے انداز ان ہی سے سیکھے تھے ۔ ظہیر، ذوق کی استادی کے معترف ، غالب کی دیدہ وری کے مداح اور مومنؔ کی طرز ادا کے شیدا تھے ۔ ان اساتذہ سخن سے اثر پذ یری ظہیر کے کلام میں اکثر جگہ نمایاں نظر آتی ہے۔ ظہیر نے بڑے عمدہ قصائد ، رباعیات اور مخمس و قطعات بھی لکھے ہیں لیکن ان کے کلام کی آب و تاب ان کی غزلوں کی رہین منت ہے ۔ ظہیرؔ اپنے عہد کے معیار شعر سے اگاہ تھے اور اس راز سے اچھی طرح واقف تھے کہ شعر میں الفاظ کی نشست محاورے کے برجستہ استعمال ، روز مرہ کے جادو اور تخیل کی گلی کاری کی کیا قدر و قیمت ہوتی ہے ۔ ظہیرؔ ، ذوقؔ ، غالبؔ اور مومنؔ جیسے بلند پایہ شعراء کی شعری صحبتوں سے مستفید ہوئے تھے اور ان کے کلام میں کلاسیکی روایات کا پر تو نظر آتا ہے اور اُن کو زبان و بیان پر بڑی دسترس تھی ۔ ان اشعار سے ظہیرؔ کے رنگ سخن کا اندازہ کیا جاسکتا ہے ۔
کچھ تو ہوتے ہیں محبت میں جنوں کے آثار
اور کچھ لوگ بھی دیوانہ بنادیتے ہیں
وہ جھوٹا عشق ہے جس میں فغاں ہو
وہ کچی آگ ہے جس میں دھواں ہو
فلک سے موت گر مانگوں تو عمر خضر ملتی ہے
یہ کج رفتار جب چلتا ہے الٹی چال چلتا ہے
تم تھے جہاں جہاں وہیں دل بھی ضرور تھا
میں بدگمانیوں سے بہت دور دور تھا
ظہیرؔ دہلوی کے کلام میں غالبؔ ، ذوقؔ اور مومنؔ کی خوش گوئی اور ان کی انفرادی آوازوں کی گونج صاف سنائی دیتی ہے ۔
کیا کہوں کس طرح کٹتی ہے شب مہتاب غیر
ذبح کرتی ہے مجھے بن بن کے خنجر چاندنی
سودائے محبت میں جو سر جائے تو اچھا
یہ بوجھ میرے سر سے اُتر جائے تو اچھا
یہ کانٹا بھی نکل جائے شب ہجر
کہ دم کے ساتھ کھٹکا ہے سحر کا
ظہیر دہلوی اپنے استاد ذوق کا دل سے احترام کرتے تھے۔ ذوقؔ بھی اپنے شاگرد کی شخصیت اور شاعری سے کافی متاثر تھے اور اُن کو ہونہار جانتے تھے ۔ظہیر نے اپنے استاد کے فیض کا کھلے دل سے اعتراف کیا ہے ۔ چنانچہ وہ ایک جگہ اس طرح فرماتے ہیں ۔
ہے جو یہ حسن بیاں میرے سخن میں اے ظہیرؔ
یہ مجھے فیضان صحبت ہے مرے استاد کا