اردو کی کہاوتیں زبان و ادب میں کہاوتوں کی اہمیت

حبیب محمد بن عبداللہ رفیع المرغنی
ہمارے محاورے اور ہماری کہاوتیں زمانے کی تیزرفتار ترقی کے باوجود آج بھی محفوظ ہیں جو اُن کی عظمت کا نمایاں ثبوت ہے ۔
زبان و ادب میں کہاوتوں کی اہمیت مسلم ہے ، اُن میں ہردلعزیز بذلہ سنجی کا جوہر ، عام پسند دانش مندی کا خزانہ اور انسانی تجربات کاگوہر یکتا پنہاں ہے ۔ یہ کہاوتیں سینہ بہ سینہ اور پھر کتابوں کے ذریعے ایک نسل سے دوسری نسل تک پہنچتی رہی ہیں۔ یہ کہاوتیں انسان کی نسلی تاریخ کی اُس منزٖ پر وجود میں آئیں جہاں عوامی گیتوں کو جنم ملا ، ان کارشتہ پہیلیوں اور دانسوں سے ملتا ہے ۔ دنیا کی تمام زبانوں میں کہاوتوں کا بہت کچھ سرمایہ موجود ہے ۔ خصوصاً انگریزی زبان میں کہاوتوں کی خاص اہمیت رہی ہے ۔ سولھویں صدی اور سترھویں صدی میں ادب اور خطابت میں کہاوتوں کا استعمال انتہائی بلندی پر تھا ۔ چناں چہ ملکہ الزبتھ کے عہدِ حکومت میں ایک مقرر نے دارالعوام میں اپنی پوری تقریر صرف کہاوتوں میں کرڈالی تھی ۔ اس دور میں کہاوتوں کو کتابوں میں محفوظ رکھنے کا کام بھی نہایت اہتمام سے کیا گیا ۔ 1635 ء کے ایک انگریزی ایڈیشن میں چار ہزار سے زیادہ یونانی اور لاطینی کہاوتیں جمع کی گئیں ۔ اس کے بعد نامور اہل قلم مختلف زبانوں کی کہاوتوں پر کتابیں مرتب کرتے رہے ہیں۔
کہاوت کی تخلیق کی صحیح تاریخ اور اصل مصنف کا نام بتانا تو مشکل ہے لیکن عام خیال یہی ہے کہ اس کی ابتداء پیغمبر اور سلطانِ جہاں ’’سلیمانؑ ‘‘ سے ہوئی ۔ عہد نامۂ عتیق میں ’’کتاب امثال ‘‘ ثبوت کے طورپر پیش کی جاتی ہے ۔ اگرچہ بعض عالموں کے نزدیک اس میں تمام کہاوتیں پیغمبر سلیمانؑ کی نہیں ہیں۔

کہاوتوں کی خصوصیت اور افادیت پر نظر کیجئے تو خوشی اور حیرت کے ساتھ یہ بھی ماننا پڑتا ہے کہ وہ زبان و ادب میں پھول کی مہک ، نزاکت ، رنگ اور تازگی کا مقام رکھتی ہیں ۔ ان میں قومی خصوصیات کے اشارے ہیں ۔ تمدن کی جھلک ہے اور مختلف تاریخی عہد نظر کے سامنے آجاتے ہیں۔ بہت سی کہاوتیں قانونی نوعیت کی ہیں اگر وہ آئین اور ضابطے اب منسوخ ہوچکے ہیں ۔ بعض کہاوتوں سے قدیم رسم و رواج کا پتہ چلتا ہے ۔ ان سے طبی مشوروں نیز موسم سے متعلق عقیدوں کی جانکاری ہوتی ہے ۔ کہاوتوں میں توہمّات بھی رچ بس گئے ہیں۔ بعض شاعروں نے متروکات کی طویل فہرستیں شائع کی ہیں لیکن یہ بات قابل توجہ ہے کہ کہاوتوں نے متروک الفاظ کو محفوظ رکھا ہے ۔

غور کیجئے تو کہاوتیں اب کو بیجا لمبی لمبی تشریحوں سے بچاکر کفایت وقت ، ایجاز اور تاثیر کا فیض پہنچاتی ہیں۔ ان کا نمایاں وصف صاف گوئی ہے جس طرح آئین کی نظر میں ادنا اور اعلیٰ کا امتیاز باقی نہیں رہتا اسی طرح کہاوت کی نگاہ میں تمام انسانی طبقات برابری کا درجہ رکھتے ہیں۔کہاوت میں شخصیت پرستی نہیں ہوتی ، یہاں خوبیوں اور خامیوں کو خلوص اور انصاف کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے ۔ تمام انسانی طبقات کی نادانی اور دانشوری کا علم سچائی کے ساتھ قاری تک پہنچتا ہے ۔ کہاوت جس فرد کو نشانہ بناتی ہے اس کو چھلنی کردیتی ہے ۔ اسی گہرے تاثر اور خلوص کی بناء پر کہاوتوں کو قبول عام کی سند ملی ہے اور ان کی اہمیت برقرار ہے ۔
کہاوتوں کے مواد میں اتحاد ، قومی یکجہتی اور انسان دوستی کی فضا جلوہ گر ہے ۔ دنیا کی مختلف زبانوں کی کہاوتوں کے مطالعے سے اس بات کی سچائی کا ثبوت مل جائے گا ۔ ہم سب جانتے ہیں کہ اُردو ہندی کے بیشتر محاوروں اور تمام تر کہاوتوں میں قدرِ مشترک پائی جاتی ہے ۔ اس سلسلے میں ایک مثال ملاحظہ فرمائیے : اردو ، ہندی : انگھیر نگری چوپٹ راجا ، ٹکے سیر بھائی ٹکے سیر کھاجا ۔
پنجابی : انہی نگری بیداد راجا
فارسی : وزیرے چُنیں ، شہریارے چُناں
انگریزی : Such as the priest so is the clerk ۔
مختصر یہ کہ کہاوتیں انسان کی سچی ہمدرد ہیں ۔ وہ زندگی کے نشیب و فراز میں مشعل ہدایت بنتی ہیں ۔
جس طرح شعر و شاعری میں صنائع و بدائع، تراکیب و بندش، تشبیہات و استعارات، الفاظ کی نشست وبرخواست وغیرہ لطف زبان و بیان، معنی آفرینی، اثر پذیری، چاشنی اور چٹخارے کے لئے استعمال کئے جاتے ہیں اسی طرح نثر میں کہاوتیں، ضرب الامثال اور محاور ے بھی مستعمل ہیں۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ منظومات میں ان کا استعمال نہیں ہوتا ہے۔ منظومات ( خصوصاً قصائد، ہجویات، مثنوی، مراثی، شہر آشوب، واسوخت وغیرہ) میں ان کا استعمال عام ہے۔ فی زمانہ ان اصناف سخن کی جانب لوگوں کی توجہ نہ ہونے کے برابر ہے چنانچہ کہاوتیں اور ضرب الامثال وغیرہ آج کی منظومات میں خال خال ہی نظر آتے ہیں۔ یہ دَور غزل کا دَور ہے اور غزل اپنے رنگ و آہنگ، زبان و بیان، موضوعات اور انداز سخن کی وجہ سے کہاوتوں اور ضرب الامثال کے لئے زرخیز میدان فراہم نہیں کرتی ہے۔ جدید غزل تو اس معاملہ میں کچھ زیادہ ہی بے نیاز ثابت ہوئی ہے کہ پرانی روایات سے اس کو بہت کم علاقہ ہے۔ البتہ محاورہ ایسی چیز ہے جس کے بغیر زبان و بیان کا تصور مشکل ہے۔ بغیر محاوروں کی بیساکھی کے کوئی زبان دو قدم بھی نہیں چل سکتی۔ چنانچہ کیا نثر اور کیا نظم اُردو ادب بھی محاوروں کی دولت سے مالا مال ہے۔

پرانے زمانہ میں کہاوتیں اور ضرب الامثال بہت مقبول تھیں اور عام بول چال کے علاوہ ہمارے ادب کا بھی ایک اہم حصہ ہوا کرتی تھیں۔ لوگوں کی روز مرہ کی زندگی سیدھی سادی تھی، آج کل کی طرح سامان آسائش میسر نہیں تھے اور نہ ہی ضروریات زندگی بہت زیادہ یا پیچیدہ تھیں۔ لوگ اپنی تہذیبی، سماجی و لسانی روایات و زَمین سے بہت قریب ہوا کرتے تھے اور انہیں اپنی خاندانی روایات اور معاشرتی اقدار کا بھی بہت خیال رہتا تھا۔آج کی طرح جدیدیت کی وَبا اُس وقت تک اِس بُری طرح نہیں پھیلی تھی اور لوگوں کو رشتوں کی قدرو قیمت، چھوٹوں کی عزت، بزرگوں کا احترام،اقربا کی حرمت، زبان و بیان کے آداب اور آپس کے روابط و مراسم کی پاسداری کا شدت سے احساس تھا۔ اب سے چند سال قبل تک اُردو ادب (خصوصاًسماجی منظومات، مثنویوں، افسانوں، انشائیوں ، ناولوں اور خاکوں ) میں جا بجا کہاوتوں اور ضرب الامثال کا دلفریب اور ماہرانہ استعمال نظر آتا تھا۔ یہ عبارت میں صرف زیبِ داستاں کے لئے ہی استعمال نہیں ہوتی تھیں بلکہ ان سے بات میں زور، لطف اور چٹخارہ بھی پیدا کیا جاتا تھا۔ نیز ان کے ذریعہ تحریر کی معنویت اور ا ثر پذیری میں نمایاں اضافہ بھی ہوتا تھا۔ اب اول تو ایسی کہانیاں اور افسانے ہی کم نظر آتے ہیں جو ہمارے معاشرہ کی قدیم روایتوں سے وابستہ ہوں اور دوم یہ کہ اس مشینی دور میں جب جدیدیت نے ترقی پسندی کے نام پر چاروں طرف اپنے جھنڈے گاڑ رکھے ہیں بھلا کہاوتوں کی جانب متوجہ ہونے کی کس کو فرصت یا فکر ہے؟ اب نہ وہ لوگ باقی ہیں اور نہ وہ باتیں    ؎
زمینِ چمن گل کھلاتی ہے کیا کیا
بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے
اس مرحلہ پر محاور ہ، کہاوت اور ضرب المثل کی تعریف، ان کی مختصر تشریح اور ان کے مابین فرق و امتیاز کی وضاحت ضروری معلوم ہوتی ہے۔ عام طور پر محاورہ اور کہاوت کا فرق تو کم و بیش لوگوں پر ظاہر ہے لیکن ضرب المثل اور کہاوت کے درمیان فرق و تفاوت اکثر لوگوں کے ذہن میں کچھ مبہم سا ہے۔ محاورہ الفاظ کے ایسے مجموعے کو کہتے ہیں جس کے الفاظ کی ترتیبِ معین ہوتی ہے اور شکل یا ہیئت مقرر۔ محاورہ کا استعمال نظم اور نثر دونوں میں نہایت عام ہے اور ان کے بغیر زبان و بیان کی فصاحت و بلاغت کا تصور ممکن نہیں ہے۔ محاورہ تحریر کی معنویت بڑھاتا ہے اور اس میں چاشنی،نکھار اور جاذبیت پیدا کرتا ہے۔یہ بڑے سے بڑے مضامین کو چند الفاظ کے مختصر کوزے میں بند کرنے کا کردار ادا کرتا ہے اور عام تحریر و تقریر کو ادب لطیف کے مقام پر فائز کرتا ہے۔محاوروں کی ترتیبِ الفاظ یا شکل میں تصرف عام طور پر ان کے آہنگ و اثر پذیری کو نسبتاًکم یا ختم کر دیتا ہے اور اکثر محاورہ کے حق میں سم قاتل ثابت ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر ’’عقل کے ناخن لینا‘‘ ہوش میں آنے یا سمجھ سے کام لینے کے معنی میں لکھا جاتا ہے۔ اس کو بدل کر اگر ’’ہوش کے ناخن کترنا‘‘ لکھا جائے تو یہ بے معنی، غلط اور ٹکسال باہر ہو جائے گا۔
محاور ے کا استعمال زبان میں استعاراتی انداز سے ہوتا ہے یعنی محاور ے کے الفاظ اپنے لغوی معنی سے ہٹ کر کسی اور ہی مضمون یا حقیقت کی جانب اشارہ کرتے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں یہ کہہ سکتے ہیں کہ محاور ے کے الفاظ اکثر مجازی معنوں میں استعمال ہوتے ہیں۔ مثلاً ’’پاؤں توڑکے بیٹھ جانا‘‘ مایوس ہو جانا، ہمت ہار جانا، کوشش نہ کرنا کے معنی میں لکھا جاتا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہاں پاؤں توڑنا اپنے اصل معنی نہیں رکھتا ہے۔ اسی طرح ’’عقل کے گھوڑے دَوڑانا‘‘( فکر تدبر کرنا، سوچ بچار کرنا) کو گھوڑے دوڑانے سے لغوی نسبت نہیں ہے۔ البتہ یہ بات قابل توجہ ہے کہ محاوروں کے الفاظ سے ان کے اصل معانی کا واضح اشارہ ملتا ہے جیسے پاؤں کا ٹوٹ جانا معذوری اور عقل کے گھوڑے دوڑانا سوچ کی تیز رفتاری پر دلالت کرتا ہے۔

محاور ے عام طور پر مصدری حالت میں ہوتے ہیں یعنی ان سے کسی فعل کا صدور ظاہر ہوتا ہے۔ اُردو کے قاعدے کے مطابق اُس کے مصادر ’’نا‘‘ پر ختم ہوتے ہیں (آنا، رونا، بکھرنا، رینگنا )۔ چناچہ اُردو کے تقریباً سبھی محاور ے بھی ’’نا‘‘ پر ہی ختم ہوتے ہیں مثلاً آنکھیں دکھانا (غصہ کا اظہار کرنا) ، آنکھیں لڑانا (عشق بازی)، سورج کو چراغ دکھانا (کسی بڑے شخص کی تعریف میں کسی چھوٹے شخص کا کچھ کہنا)، اللّے تللّے اُٹھانا (فضول خرچی ) وغیرہ۔
ایک بات اور غور طلب ہے کہ محاورہ اپنے معنی بیان کرنے میں مکمل فقرہ یا جملہ نہیں ہوتا بلکہ اپنے ما فی الضمیر کی تکمیل و ترسیل کے لئے کسی دوسری الحاقی عبارت یا جملے کا محتاج ہوتا ہے۔مثال کے طور پر ’’ڈنڈے بجانا‘‘ آوارہ گردی یا بے کار مار ے مارے پھرنے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔اس کا پورا مطلب بات کو کسی الحاقی عبارت سے پورا کرنے پر ہی ادا ہوتا ہے جیسے ’’فلاں شخص دن رات ڈنڈے بجایا کرتا ہے‘‘۔
کہاوت عام طور پر کسی سبق آموز واقعہ کی جانب اشارہ کرتی ہے، پند و نصیحت کرتی ہے، انسانی فطرت و خصلت کی صورت گری دل نشیں اور بعض اوقات شوخ اور چٹخارہ دار زبان میں کرتی ہے یا انسانی زندگی کے حقائق سے پردہ اُٹھاتی ہے۔ یہ عین ممکن ہے کہ جس واقعہ، حادثہ، سانحہ یا تاریخی حکایت کی جانب کہاوت میں اشارہ کیا گیا ہو وہ گردش زمانہ سے اُڑائی ہوئی وقت کی دھول میں ایسا دَب گیا ہو کہ اس کا نام و نشان بھی باقی نہ رہا ہو۔ کہاوتوں کی اصل یا ماخذ معلوم کرنا کہ کس کہاوت نے کس طرح جنم لیا یا کون سا واقعہ اس کی نمود کا سبب ہوا مشکل ہی نہیں بلکہ اکثر نا ممکن ہوتا ہے۔ چنانچہ کسی سند یا دستاویزی ثبوت کی عدم موجودگی میں لوگوں نے اکثر کہاوتوں کے پیچھے قیاس سے فرضی قصے، حکایتیں یا واقعات گھڑ لئے ہیں۔ یہ قصے من گھڑت ضرور ہیں لیکن کہاوت میں ان کا کردار کافی اہم ہے کیونکہ ایک تو یہ زیب داستان کا کام دیتے ہیں اور دوسرے ان کی مدد سے قاری ایک لمحہ کے لئے اس مصنوعی اور فرضی دُنیا میں پہنچ سکتا ہے جہاں سے کہاوت کا خمیر اٹھا ہے اور وہ اس ممکنہ صورت حال کو اپنی چشم تصور سے دیکھ سکتا ہے جس پر کہاوت مبنی ہوسکتی ہے۔

کہاوتیں اکثر اپنے لغوی یا لفظی معنوں سے ہٹ کر بھی اپنا مفہوم ادا کرتی ہیں یعنی ان کے الفاظ سے ایک بات ظاہر ہوتی ہے لیکن ان سے مقصود کچھ اور ہی ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر ’’ آدھا تیتر، آدھا بٹیر‘‘ ایک کہاوت ہے جو بظاہر کسی جانی پہچانی چیز کی جانب اشارہ نہیں کر رہی ہے کیونکہ ایسا کوئی پرندہ ہے ہی نہیں جو آدھا تیتر اور آدھا بٹیر ہو۔ اس کہاوت سے در اصل ایسا آدمی مقصود ہے جو ہر لمحہ رنگ بدلتا ہو اور اپنی خصلت میں ڈانوا ڈول یا غیر معتبر ہو۔ یہ خصوصیت کہاو توں کی دل پذیری کا ایک نہایت اہم اور خوشنما پہلو ہے۔ اس طرح کہاوتیں زبان کی وسعت اور معنویت میں خوبصورت اضافہ کرتی ہیں ، بیان میں نکھار، چٹخارہ اور تیکھا پن پیدا کرتی ہیں اور چند الفاظ میں بڑی سے بڑی بات کہہ جاتی ہیں۔ یہ حقیقت اظہر من اشمس ہے کہ اُردو کئی زبانوں کے اجتماع اور باہمی ربط و ضبط سے وجود میں آئی ہے۔ ساتھ ہی اس نے مقامی زبانوں اور بولیوں سے بھی گہرے اور ہمہ گیر اثرات قبول کئے ہیں۔ چنانچہ اُس میں علاقائی اور مقامی زبانوں اور بولیوں کی کہاوتیں بھی ملتی ہیں، شستہ اور ثقہ اُردو بھی دکھائی دیتی ہے اور عربی و فارسی سے مستعار لی ہوئی کہاوتیں بھی ضرب الامثال کی شکل میں نظر آتی ہیں۔ اس طرح کہاوتیں اُردو کی اُن گہری لسانی، تہذیبی، ثقافتی، ادبی اور معاشرتی روایات کی پاسدار ہیں جو اس کے خمیر کا جزو لا ینفک ہیں۔ کہاوتیں عام طور سے ایک مکمل اور جامع بیان یا فقرہ کی شکل میں ہوتی ہیں اور مصدری حالت میں شاذ و نادر ہی نظر آتی ہیں۔ وہ اپنے مطلب کی ادائیگی میں کسی الحاقی جملہ یا عبارت کی محتاج نہیں ہوتی ہیں بلکہ متعلقہ عبارت میں معنویت اور نکھار پیدا کرتی ہیں۔ مثال کے طور پر ’’شروعات ہی غلط ہوئی‘‘ کے بجائے اگر یہ کہا جائے کہ ’’ بسم اللہ ہی غلط ہوئی‘‘ تو بات کا مزا ہی بدل جاتا ہے۔ کہاوتیں مصرعوں یا شعروں کی شکل میں بھی ہو سکتی ہیں جب کہ محاور ے کبھی اس صورت میں نہیں ہوتے۔ ایسے مصرعے یا شعر ضرب الامثال کہلاتے ہیں۔ کہاوتوں اور ضرب الامثال کو متبادل یا ایک ہی چیز تصور کیا جاتا ہے لیکن یہ صحیح نہیں ہے۔ کہاوتیں اپنے لب و لہجہ، انداز فکر و بیان اور مضامین میں عوامی ہوتی ہیں کیونکہ عوام ہی ان کی نمود و پرداخت کے ذمہ دار ہیں۔ بہت سی کہاوتیں دیہاتوں کی زندگی کی عکاسی کرتی ہیں اور وہیں کی زبان میں ہوتی بھی ہیں۔ گویا کہاوتوں کا تعلق معاشرہ کی کم تعلیم یافتہ آبادی سے ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر یہ کہاوتیں دیکھئے ’’گھی بنائے سالنا، بڑی بہو کا نام…  کام کا نہ کاج کا،دُشمن اناج کا…ناچ نہ آئے آنگن ٹیڑھا… ماروں گھٹنا پھوٹے آنکھ… جاٹ مرا تب جانئے جب تیرھویں ہو جائے… بھُس میں ڈال چنگاری جمالو دور کھڑی۔‘‘ صاف ظاہر ہے کہ ایسی کہاوتوں کا خمیر عوام کا مرہون منت ہے۔ وہی ایسی باتیں کر سکتے ہیں اور جن واقعات یا باتوں کی جانب کہاوتوں میں اشارہ ہے وہ انھیں کی زندگی میں پیش بھی آتے ہیں۔  (باقی آئندہ)