اردو کی روٹی یا چغلی، دانشوروں کا طرہ امتیاز

تلنگانہ / اے پی ڈائری خیر اللہ بیگ
حکومت کو آیا ٹیکس کے ذریعہ وصول کی جانے والی عوامی رقم کو من مانی طریقہ سے دینے انتخابی وعدوں کو پورا کرنے اور غیر سیکولر و مذہبی سرگرمیوں پر خرچ کرنے کا اختیار حاصل ہے؟ یہ بحث ان دنوں تلنگانہ میں چیف منسٹر کے چندر شیکھر رائو کی جانب سے بھگوانوں اور مندروں کے لئے جاری کئے جانے والے فنڈس پر کئی سوال اٹھ رہے ہیں۔ چیف منسٹر نے حال ہی میں تروملا اور ورنگل کے بشمول کئی مندروں کو بھینٹ دینے کے لئے سونے کے زیورات بنانے کا جی او جاری کیا تھا۔ اقتدار پر فائز کسی بھی سیاسی پارٹی یا حکمران گروپ سے وابستہ افراد کے درمیان ایک بات مشترک ہوتی ہے کہ وہ عوامی خزانے کے سرکاری خرچ کو من مانی طریقے سے استعمال کرتے ہیں۔ اپنے اقتدار اور ذاتی خواہشات کے تناظر میں عوامی فنڈس کا بیجا استعمال کرتے ہیں۔ تلنگانہ کے سیاسی منظرنامے میں نئے رجحانات ابھر رہے ہیں۔ پرانی سیاسی جماعتوں اور سیاسی قیادتوں کو اپنی ناکامیوں کے باعث سخت دبائو کا سامنا ہے

اس لئے کانگریس کے قائدین حکومت یا حکمران کی من مانی کا بھی نوٹ لینے سے قاصر ہیں۔ ایسا محسوس ہورہا ہے کہ ملک کی سب سے قدیم سیاسی پارٹی ایک صدی لکیر عبور کرجانے کے بعد بھی نووارد سیاستدانوں نے عجلت پسندی اور مصلحت پسندی کا مقابلہ کرنے سے قاصر ہے۔ کے چندر شیکھر رائو کی پالیسیوں پر اف تک نہ کرنے والی کانگریس پارٹی اور اس کے قائدین کو حالات نے حالت نزع تک پہنچادیا ہے۔ کانگریس کے شہزادہ خود پارٹی کی ذمہ داریوں سے دور بھاگ رہے ہیں تو ریاستی صدور اور قائدین کو مثالیت پسندی سے کام لینے کی بھی فکر نہیں ہورہی ہے۔ ایسے میں اگر چندر شیکھر رائو نے کچھ غلطیاں کی ہیں تو اس میں کیا حرج ہے، آندھراپردیش اور تلنگانہ کی دونوں حکومتوں نے بھی اب تک غلط قدم اٹھائے ہیں تو کیا برا ہے۔ ماضی میں وائی ایس راج شیکھر ریڈی نے بھی عوامی فنڈس کا بیجا استعمال کیا تھا۔ انہوں نے عیسائیوں کے لئے یروشلم یاترا شروع کی تھی تو موجودہ حکومت گنیش فیسٹول ، بونالوں، مہاکالی یاترا بتکماں وغیرہ پر کروڑہا روپئے خرچ کررہی ہے تو برا کیا ہے؟ گوداوری پشکرالو پر بے تحاشہ روپیہ کیوں خرچ کیاگیا اس پر کسی نے سوال نہیں کیا۔ یہ بھی نہیں پوچھا گیا کہ آخر تروپتی میں برہما اتسوم ویملواڑہ، کنکا درگم، سری سیلم ، بھدراچلم اور اسی طرح دیگر مقامات پر عوامی فنڈس کی کثیر رقم کو کیوں خرچ کیا گیا۔

ایک سکیولر ریاست اور جمہوریت میں کوئی حکومت عوامی فنڈس کا اپنے انتخابی وعدوں کی تکمیل کے لئے بے تحاشہ یا بے جا استعمال کرتی ہے تو وہ ناقابل گرفت نہیں ہوتی۔ چیف منسٹر کے چندر شیکھر رائو نے جب اسپورٹس شخصیتوں جیسے ثانیہ مرزا کو ان کے کارناموں کی خاطر کروڑہا روپئے کی گرانٹ جاری کی تو کئی سوال اٹھائے گئے تھے۔ اسی خطوط پر اگر مندروں کو ڈونیشن دیا جاتا ہے تو یہ بھی ایک لحاظ سے طبقاتی خدمت ہے۔ ریاست کے مختلف مندروں کو سونے کے زیورات کا چڑھاوا کرنے کے لئے 5.59 کروڑ روپئے جاری کئے جاتے ہیں تو یہ ان لوگوں کے لئے حیرت کی بات ہے جو حکومت کی اسکالرشپ نہ ملنے کے باعث تعلیم سے محروم ہورہے ہیں۔ کے سی آر کو ان کے بھگوان نے جب ان کی آرزوئوں کو پورا کیا ہے تو وہ اپنے بھگوان کو خوش کرنے کے لئے عوامی رقومات کو خڑچ کرنے میں کوئی پس و پیش کرنا نہیں چاہتے جبکہ ریاست کی مالی حالت ابتر ہے اور حکومت تلنگانہ کو عام آدمی کے مفاد میں معاشی ترجیحات پر توجہ دیتی ہے مگر اس خالی خزانے کی حقیقت کو تسلیم کرنے کے باوجود تلنگانہ حکومت کے ایک ہی جھٹکے میں پولیس والوں کے لئے سینکڑوں کی گاڑیاں خریدی ہیں۔ یہ پولیس والے بھی اپنے چیف منسٹر کے مرہون منت و شکر گزار ہوں گے کہ انہیں ’’انووا کی شکل میں لکژری کاروں کا تحفہ دیا گیا ہے جس میں بیٹھ کر وہ شہر یا محلوں کی گشت بڑے شان سے کرتے ہیں۔ سائرن بجاکر عوام کی توجہ اپنی جانب مبذول کراتے ہیں تو دیکھیو صاحب کتنی شاندار کار میں گھوم رہے ہیں،

واستو کے نام پر یہ حکمراں اور لیڈر بھاری لاگت سے اپنے چیمبرس اور آفسوں کو تبدیل کررہے ہیں۔ اپوزیشن کی نظروں میں پائی جانے والی مذکورہ بالا تمام خرابیوں کے باوجود حکمراں طبقہ کے افراد اپنے آقا کی تعریف و ستائش کے لئے کوئی لمحہ کوئی موقع ضائع ہونے نہیں دیتے۔ ڈپٹی چیف منسٹر کی حیثیت سے ڈاکٹر ٹی راجیا کی برطرفی کے بعد کے سی آر کابینہ کے تمام وزراء اتنے محتاط ہوگئے ہیں کہ کے سی آر کی تعریف میں بلند بانگ ستائشی کلمات کی ادائیگی کو اپنا فرض اولین متصور کرنے لگے ہیں۔ اب ڈپٹی چیف منسٹر محمد محمود علی کو لے لیجئے وہ ہر عمل میں بہ بانگ دہل کہہ رہے ہیں کہ کے سی آر کی قیادت میں ریاست تلنگانہ تیزی سے ترقی کررہی ہے۔ مختلف شعبوں میں مختصر وقفہ کے اندر اتنی تیزی سے ترقی ماضی میں ہرگز نہیں دیکھی گئی یہاں تک کہ وزیراعطم نریندر مودی نے بھی ریاست کی ترقی کو دیکھ کر اپنے دانتوں تلے انگلی دبالی ہے۔ اس میں دور رائے نہیں کہ جن ناقدین نے کے سی آر کی حکومت کو تلنگانہ میں 6 ماہ کی مہمان قرار دیا تھا اب وہ ہی معترف ہیں کہ کے سی آر نے ریاست کے حصول میں کامیابی کے ساتھ اپنے وعدوں کو پورا کرنے کا بھی دیانتدارانہ مظاہرہ شروع کیا ہے۔ ڈپٹی چیف منسٹر محمد محمود علی نے تلنگانہ یونیورسٹی کے اردو فیسٹیول 2015 تقریب میں بحیثیت مہمان خصوصی شرکت کی اور یہاں پر اردو کی جو درگت بنائی گئی اس پر انہوں نے افسوس کا اظہار نہیں کیا۔ اردو فیسٹول میں تلگو میں تقاریر کرتے ہوئے فیسٹیول کے مقررین نے یہ ثبوت دے دیا ہے کہ کے سی آر حکومت میں اردو کا کیا حال ہورہا ہے۔

ڈپٹی چیف منسٹر بھی اس اردو کی بے عزتی پر خاموش رہے۔ اسی لئے اردو والوں کو کچھ زیادہ حیراں ہونے کی ضرورت نہیں ہے کیوں کہ ریاست میں اردو والوں کو اپنے دانتوں کے دکھنے، ہلنے اور سر کے بالوں کے گرنے یا سفید ہونے اور جھڑنے کی رفتار میں اضافہ کی تو پریشانی لاحق نہیں ہے تو اردو کے زوال کی کیوں کر فکر ہوگی وہ اپنے خوراک کی فکر میں اتنے ملوث ہیں کہ اردو کے فاقہ کشی کہاں نظر آئے گی۔ بتایا جاتا ہے کہ جب کوئی شخص کسی دوسرے شخص کو موت کے گھاٹ اتارنے کا فیصلہ کرتا ہے تو وہ سب سے پہلے اپنے اندر کے انسان کو موت کے گھاٹ اتار چکا ہوتا ہے۔ اسی طرح اردو والے بھی سب سے پہلے اندر کی اردو کو موت کے گھاٹ اتارچکے ہیں تو ریاست اور اس کی حکومت اس کو بے آبرو کرنے کے لئے اردو فیسٹول میں تلگو بولنے والوں کو چھوڑ دیتی ہے۔ یہاں موجود مسلم لیڈر بھی اردو کو بے آبرو ہوتا دیکھ کر خاموشی سے نکل آتے ہیں تو اسے روشن خیالی کہیں یا بے غیرتی یہ بات اچھے قاصے سینئر اور سمجھدار لوگ ہی نہیں اردو فیسٹیول میں شریک نووارد طلباء بھی سمجھ سکتے ہیں لیکن مجھے یقین ہے کہ ہمارے اردو کے حلقوں میں یا کسی ’’ٹاک شو‘‘ یا ہوٹل کی میز پر سجنے والی محفلوں میں ، سینئر تجزیہ کار اور اردو کا دم بھرنے والے اسے موضوع نہیں بنائیں گے بلکہ وہی گھسی پٹی رٹی رٹائی اردو کے زوال کی چغلی چغلائی کو جاری رکھیں گے۔ ہمارے اردو دانشوروں کا طرہ امتیاز یہی ہے کہ ہم ہر ایک کو جانے دو یار کہہ کر معاف کردیتے ہیں۔ کیا حکومت کی غلطیاں بھی اردو والوں کی معافی کے مستحق ہے۔
kbaig92@gmail.com