اردو کی بقا و مستقبل

ڈاکٹر محمد ناظم علی
اردو کے معنی لشکر کے ہیں ، یہ زبان ہندوستان کے دو آبے میں پیدا ہوئی ۔ دلی کے اطراف و اکناف میں جنم ہوا ۔ یہ زبان کھڑی بولی سے نکلی ہے اور پورے ہندوستان میں شعر و شاعری نشر کے ذریعہ پھیل گئی ہے ۔ تاجر ، اہل صرف ، ولی اسد اور دیگر طبقات کے ذریعہ اس زبان کو پھیلنے کا موقع ملا اور برسہا برس کے عمل دخل کے بعد زبان تشکیل پاتی ہے۔ حضرت امیر خسرو اس کے پہلے شاعر مانے جاتے ہیں۔ شاعر اور نشر نگاروں نے اسکی ترویج و اشاعت میں اہم کردار ادا کیا ہے ۔ اب یہ زبان ہندوستان کی بے پایاں خدمت انجام دے رہی ہے۔ اس نے جنگ آزادی میں کلیدی رول ادا کیا ہے ۔ عصر حاضر میں مختلف محکموں شعبوں میں اس کا چلن کم ہوتے جارہا ہے ۔ تعلیمی محکموں میں انگلش میڈیم کے غلبہ سے اردو تعلیمی اداروں سے بتدریج ختم ہوتے جارہی ہے ۔ لوگ اور اردو داں طبقہ روزگار کیلئے انگلش میڈیم سے تعلیم حاصل کرنے کو ترجیح دے رہے ہیں ۔ تخلیقی اعتبار سے اس کے سوتے حشک نہیں ہوئے ، تخلیقی عمل یعنی شاعری اور نثر لوگ لکھ رہے ہیں۔عوام میں اس کا چلن بھی کمزور پڑگیا ہے۔ اردو کو عوام سے جوڑنا ناگزیر ہے ۔ جب تک اردو کو عوام سے ہم آہنگ نہ کریں گے ، وہ کیسے ترقی پائے گی۔ 1947 ء سے پہلے عوام میں مروج تھی ، سماج کے دیگر طباقت نے اسکو گلے لگایا ، اپنایا ، اس کو ا پنا اوڑھنا بچھونا بنایا لیکن آج یہ مبان سماج کے ایک ط بقہ تک محدود ہوگئی ہے ۔ اس کو بنیادی سطح سے فروع دینا ضروری ہے ، اردو کے ابتدائی اسکول بند ہورہے ہیں۔ ضلع پریشد اسکولوں میں اردو پڑ ھنے والوں کی تعداد کم ہوتے جارہی ہے ، اس کے ذمہ دار اردو والے ہیں، اردو والے ٹھوس پلان منصوبے نہیں بناتے اور نہ حکومت کے سامنے دانش مندانہ انداز سے پیش کرتے ہیں، ہر اردو اسکیم پر Discuss کر نا ضروری ہے ، اس کے منفی و مثبت اثرات پر غور کرنا ضروری ہے۔ اردو کا نیا سسٹم شروع کرنے سے پہلے پرانے سسٹم پر غور کرنا ہوگا ۔ اب حکومتوں کی مدد کے اعلان اہل اردو کی توجہ کی محتاج ہے۔ اردو والے اپنے بچوں کو اردو پڑھانا نہیں چاہتے۔ اردو کی نئی نسل انگریزی کی طرف مائل ہوتی جارہی ہیں۔ ایسے عمل کو روکنے کی ضرورت ہے۔ اردو سے محبت دم بھرنے والی تنظیمیں بہت زیادہ ہیں اور اردو کام و کاز کرنے کیلئے بہت سی تنظیمیں ہیں لیکن پھر بھی اردو کا وہ موقف نہیں ہے جو ماقبل آزادی تھا ، اس کی وجوہات پر غور کرنا ہوگا اور جو خامیاں و کمزوریاں ہیں ، اس کو دور کرنا ہوگا ۔ آج کے دور میں اردو پڑھنے والوں کا موقف معاشی اعتبار سے بہت کمزور ہے اور معاشی طور پر کمزور طبقہ کے بچے ہی اردو پڑھ رہے ہیں ۔ دولت مند لوگوں کے بچے انگریزی میڈیم سے تعلیم حاصل کر رہے ہیں ۔ اب اردو مسلمانوں کی زبان نہیں رہی ، یہ ملک و قوم کی زبان ہے لیکن اس کے پڑھنے والے کہاں ہیں ۔ اردو کے لئے اردو والوں کا تعاون نہ ہونے کی وجہ سے اردو سرکاری و خانگی ادارے بتدریج بند ہورہے ہیں ۔ اردو سے کسی کو حقیقی محبت نہیں۔ اردو والے اردو کے جلسے جلوس نکال کر خوش ہیں۔ اردو کے موقف کا باریک بینی سے جائزہ لینا ہوگا ۔ یہ زبان ٹکنالوجی سے مربوط ہوگئی ہے ، عصری تقاضوں سے ہم آہنگ ہے ۔ اردو کے جدید ادارے کوشاں ہیں لیکن کوئی اردو کی بنیادی جڑیں مضبوط کرنے کیلئے جدوجہد نہیں کر رہا ہے ۔ بنیادی مصبوط ہونا چاہئے ۔ ہندوستان میں اردو کا بنیادی کام باقی ہے ۔ بنیادی کام کی ٹھوس انداز سے ضرورت ہے۔ اردو والے ہی اردو کے خلاف ہے تو کون اردو کا ساتھ دے گا ؟ پتہ نہیں آئندہ کوئی مل جائے پاسباں مل گئے کعبہ کو صنم خانے سے

آئندہ مستقبل میں کسی اور طبقہ سے ہے ۔ اردو کی مدد کرنے والے مل جائیں گے ۔ اپنی زبان سے مخالفت نہیں کرنی چاہئے ۔ اردو بول چال کی حد تک محدود ہوجائے گی ۔ اب اردو کے قومی ریاستی سطح کے ہندو عنقا ہوتے جارہے ہیں حکومت کی سرپرستی بھی برائے نام ہوتی ہے۔ عصری دور میں اردو صحافت کے ذریعہ زندہ ہے۔ اگر پرنٹ میڈیا بھی کمزور پڑجائے تو اردو کی ترقی ماند پڑ جائے گی ۔ کوئی پرسان حال نہیں ہوگا ۔ اردو کی ہمہ جہت ترقی کیلئے اہل اردو ، اردو والے آگے آئیں اور اردو کو زندہ رکھیں ، دراصل اردو والے اردو سے دور ہوتے جارہے ہیں ۔ اس کے موقف پر نظر ڈالیں تو اردو پڑھنے والے سرکاری اسکول میں کم ملیں گے ۔ اردو کو حقیقی خدمات گار نہیں مل رہے ہیں۔ اردو میں صرف نمائش کام ہورہا ہے ۔ ٹھوس اور بنیادی معیاری کام کی ضرورت ہے ۔ اردو یونیورسٹی تو اردو کے درس وتدریس کی حد تک محدود ہوگئی ہے ۔ اردو کے بنیادی کام سے اردو کے اعلیٰ تعلیمی منصوبے مکمل ہوں گے ۔ ہندوستان کے ہر اسٹیٹ میں اردو کا موقف بہت کمزور ہے ۔ ہندی ریاستوں میں ہندی کا غلبہ ہے ۔ جنوب ، جنوبی زبانوں کا غلبہ ہے ، ریاستی و قومی سطح پر اردو کے فروغ کا ضروری ہے۔ اردو کو سیاسی مسئلہ بنایا گیا اور اردو کی مخالفت کی جاتی ہے ۔ باطنی طریقہ سے اردو کو ختم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ اردو کا تدریسی عملہ اگر محنت کرے تو اردو نئی نسل میں زندہ رہے گی ۔ تقویت و فروغ پائے گی ۔ اردو کا ادب بہت ہے لیکن اردو پڑھنے والے نہیں ہیں تو اردو تصانیف کتابیں کون پڑھے گا ۔ ایک زمانہ تھا ماحول میں اردو کی بہار تھی ، ہر کوئی اردو شاعری ، ناول ، کتب پڑھا کرتے تھے۔ اب نصابی کتب خرید کر پڑھنا ناگوار گزار رہا ہے۔