اردو کی ادبی تحریکیں

ڈاکٹر منیر الزماں منیر
اردو کی ادبی تحریکوں پر نظر ڈالنے سے پہلے مغرب کی کچھ اہم ادبی تحریکوں پر بھی غور کیا جائے ۔ ان تحریکوں میں کلاسیکیت اور رومانیت کی تحریکیں زیادہ اہم ہیں جنھوں نے مغرب کی ادبی فضا کو ایک عرصے تک متاثر رکھا ۔
ہر اصطلاح کے پیچھے اس کی اپنی تاریخ ہوتی ہے ۔ کلاسیکیت اور رومانیت کی اصطلاحیں مغرب کی دین ہیں ۔ اس لئے اردو میں ان کے مفہوم کی جد بندی اس وقت ممکن ہے جب یہ طے ہوجائے کہ مغرب میں ان کا مفہوم کیا تھا ۔
کروچے نے کلاسیکل کی اصطلاح کو بے معنی قرار دیا تھا ۔ ایک مفکر رومانیت کے سلسلے میں یہ کہتا ہے کہ یہ لفظ اتنے معنوں میں استعمال ہوتا ہے کہ اب خود بے معنی معلوم ہوتا ہے ۔ انگریزی میں فطرت کے مظاہر گم ہونا بھی رومان ہے ، کسی عورت سے عشق کرنا بھی رومان ہے اور پہاڑوں میں خوفناک درندوں سے مقابلہ بھی رومانٹک ایڈونچر کہلائے گا ۔ اس طرح لفظ رومان بھی کہنے والے کے ہاتھ میں ایسا حربہ ہے جسے ہر موقع ہرمحل استعمال کیا جاتا ہے اور اس سے نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ لفظ کے کوئی محدود یا مخصوص معنی نہیں ہیں ۔ محل استعمال کی وجہ سے معنی پیدا ہوگئے ہیں لیکن اس ابہام کے باوجود یہ اصطلاحیں ادبی دنیا کا سکہ رائج الوقت ہیں ۔
پروفیسر یوسف سرمست لکھتے ہیں:
’’سب سے پہلی بات یہ کہ کلاسیکی اور کلاسکیت اور رومانی اور رومانیت میں جو فرق ہے اسے سامنے رکھنا بے حد ضروری ہے‘‘ (ادب کی مائیت منصب اور تعریف ، کلاسکیت اور رومانیت ۔ ادب برائے ادب ص 63)ٹی ایس ایلیٹ نے بھی اس فرق کی طرف اشارہ کیا ہے ۔
اگر لغوی اعتبار سے دیکھا جائے تو لفظ کلاسیکل ، یونان سے آیا جس میں لفظ (clasis) کے معنی ہی اعلی طبقے کے ہیں اس طرح کلاسیکل کے معنی اعلی درجے کی شاعری کے لئے گئے ۔ عموماً (Neo-classical) شاعری سے کلاسکیت مراد لی جاتی ہے اور اس کا سلسلہ سترھویں اور اٹھارویں صدی تک پھیلا ہوا ہے ۔ اس سلسلے کا سب سے اہم نام ڈرائیڈن کا ہے جو انگریزی تاریخ میں بازیابی (Restoration) کے دور میں ملٹن کے ساتھ یاد کیا جاتا ہے ۔
کلاسیکل شاعری کے سلسلے میں دانشوری ، ضبط اور نظم ، تغافل تنظیم ، تناسب اور وضاحت بہت اہم نکات ہیں ، دوسرے یوروپی نقادوں نے بھی کلاسکیت کی تعریف کی ہے اور یہ ساری تعریفیں تقریباً مشترک عناصر رکھتی ہیں ۔ ان میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ کلاسیکل ادب میں وہی تخلیق شامل ہوتی ہے جو ادبی روایت کا جزو بن جاتی ہے اور کلاسیک کو صرف اسی ادب تک محدود نہیں رکھنا چاہئے جس ادب سے وہ وابستہ ہے بلکہ کلاسیک کے ایسے آفاقی انداز ہوتے ہیں جن کی حیثیت عالمی ہونے کی وجہ سے دوسری زبانوں کے ادب میں بھی مستند سمجھے جاتے ہیں ۔
ایلیٹ کے خیال میں کلاسکیت ، اکملیت کا دوسرا نام ہے ’’تہذیب کامل ، زبان اور ادب کامل اور تخلیق کار کا ذہن بھی کامل‘‘ ۔ یہ اس کے خیالات کا نچوڑ ہے لیکن اس کے باوجود کلاسکیت اور عظمت کو ہم معنی نہیں سمجھتا ۔ کوئی تخلیق کار کلاسیکل نہ ہونے کے باوجود عظیم ہوسکتا ہے اور یہ ضروری نہیں ہے کہ وہ کلاسیکل عظیم بھی ہو ۔ ایلیٹ نے اس پر بھی روشنی ڈالی ہے کہ عظیم شاعر صرف ایک صنف کے امکانات نہیں ختم کرتا البتہ اگر عظیم شاعر کلاسیکل بھی ہے تو اپنے عہد کی زبان کے امکانات مکمل کرتا ہے وہ اتنی جامع اور مکمل ہوجاتی ہے کہ اس کے آگے کوئی امکان نہیں رہ جاتا ۔
اس طرح یہ واضح ہوجاتا ہے کہ کلاسکیت بہرحال ایک ایسا معیار اور پیمانہ ہے جسے بنیاد بنا کر ہر عہد کی تخلیق کو پرکھنا ہوگا ۔
رومانوی تحریک کے سلسلے میں ایف اے لوگاس اپنی کتاب Decline and fall of the Roman Empire میں لکھتا ہے کہ :
’’رومانیت کی گیارہ ہزار تین سو چھیانوے تعریفیں ہیں ، کسی نے اس کو تحیر کی نشاۃ الثانیہ کہا ہے اور کسی کے نظر میں یہ تخلیقی شعور کا غیر معمولی ارتقاء ہے‘‘ ۔
(A History of English Literature by Legouis page no. 997)
رومانیت کا نقطہ آغاز فرانس کا انقلاب ہے (1789) روسو کا وہ مشہور زمانہ نقرہ ’’انسان آزاد پیدا ہوا ہے لیکن ہر جگہ پابہ زنجیر ہے‘‘ ۔ روسو تقلید اور تخلیق کے خلاف ہے وہ آزادی کا تصور بغاوت کے ساتھ وابستہ کرتاہے ۔
عام طور پر انگریزی میں ورڈزورتھ ، شیلی ، کالراج ، کیٹس اور بائرن ، رومانی شاعری کے علمبردار سمجھے جاتے ہیں حالانکہ ان میں کہیں بھی نقطہ اشتراک نہیں ہے ۔ ان کے موضوعات الگ ہیں اور ان کا رویہ الگ ہے ۔ لیکن اتنا سب میں مشترک ہے کہ یہ سب روایات ، قوانین اور ضوابط کے زنجیروں کے توڑنا چاہتے تھے ۔ دراصل رومانی تحریک اپنے عہد کی ادبی روایت کے خلاف بغاوت تھی ۔
اس سلسلے میں یہ بھی عرض کرنا ہے کہ رومانیت کے اجزا مکمل طور پر کبھی ختم نہیں ہوسکتے ۔ ایک دنیا تعمیر کرنے کی آرزو (چاہے یہ آرزو اپنی کوئی بنیاد نہیں رکھتی ہو) ہمیشہ سے تھی اور ہمیشہ رہے گی ۔ اسی لئے نیاز فتح پوری اور احتشام حسین نے رومانیت کو جذباتی آرزو مندی کہا ہے ۔