اردو کو اس کا مقام دلانے مسلم قائدین کی جدوجہد ناگزیر
یلاریڈی /11 نومبر ( سیاست ڈسٹرکٹ نیوز ) ایک زمانہ تھا اردو حیدرآباد میں سرکاری زبان ہوا کرتی تھی اور اضلاع میں بھی اردو بولنے والوں کی کثرت ہے ۔ دس سال قبل تلگودیشم حکمرانی کے دوران اردو زبان کو دوسری ریاستی سرکاری زبان قرار دینے کے احکام جاری کئے گئے ۔ لیکن آج تک اس زبان کو اس کا مقام نہ مل سکا ۔ انگریزی زبان کو فوقیت دیتے ہوئے تلگو کا چلن آج بھی جاری ہے ۔ اردو ہر دفترمیں دم توڑ رہی ہے ۔ ملک کے پہلے وزیر تعلیم مولانا ابوالکلام آزاد کی پیدائش کے مناسبت سے یوم تعلیم کے ساتھ ساتھ یوم اقلیتی بہبود کا مقام دلانے کیلئے موثر اقدامات کئے جائیں ۔ تلنگانہ اضلاع کے ساتھ ساتھ سیما آندھرا کے کئی اضلاع میں بھی اردو بولنے والوں کی خاص تعداد آج بھی برقرار ہے اور اردو میڈیم سے تعلیم حاصل کرنے والوں کی تعداد بھی کثرت سے ہے ۔ لیکن سرکاری زبانوں میں اسے نمایاں مقام نہ ملنے پر انہیں مایوسی ہوتی ہے ۔ حکومت اردو کو دوسری سرکاری زبان کا درجہ دینا ہی کافی نہیں بلکہ اس پر عمل آوری کے اقدامات ضروری ہیں ۔ آر ٹی سی بسوں پر اردو زبان کے بورڈ لگانے کے احکام کے ساتھ پولیس اسٹیشن ، سرکاری دفاتروں پر مختلف مسائل کے درخواستیں اردو میں قبول کرنے کا مشورہ دیا گیا لیکن ذمہ داران کی عدم دلچسپی نے اردو زبان کو برف دان کے نذر کردیا گیا ۔ حکومت زبان کی تحفظ کیلئے احکام جاری کرتی ہے اور عہدیداروں کی غیر ذمہ داری کی وجہ سے اسے اس کا مقام دلانے کیلئے کامیابی نہیں مل رہی ہے ۔ جہاں بھی سرکاری دفتر پر دیکھا جائے تو انگریزی ضرور ہوا کرتی ہے لیکن اردو کا نام نظر نہیں آتا جس سے اقلیتوں کو سخت مایوسی ہوتی ہے ۔ تلگو زبان ریاست کی پہلی سرکاری زبان ہے لیکن اسے بھی کئی جگہ نظرانداز کرتے ہوئے انگریزی کا سہارا لیا جارہا ہے ۔ یلاریڈی ، بانسواڑہ ، بودھن ، کاماریڈی ، آرمور کے زیادہ دفاتر پر بورڈ تلگو اور انگریزی میں ہی ہیں ۔ اردو ہر جگہ غائب ہے ۔ بس اسٹیشنوں پر اردو کا نام و نشان نظر نہیں آتا اور نہ سرکاری دفتروں میں اردو میں درخواستیں قبول کی جاتی ہیں ۔ اردو جاننے والوں کو سوائے مایوسی کے کچھ نہیں ملتا ۔ بس سے سفر کرنے والوں کو دوسروں سے بس کہاں جارہی ہے معلوم کرنا پڑتا ہے ۔ کیونکہ اردو اسے نہیں ملتی ۔ یوم اقلیتی بہبود منانے کے س اتھ ساتھ ذمہ داران کو مولانا آزاد کے یوم پیدائش کے موقع پر اردو کو اس کا مقام دلانے کیلئے عملی اقدامات کرنا ضروری ہے ورنہ 11 نومبر سال میں ایک دن منانے سے اقلیتی طبقہ کو کچھ ملنے والا نہیں ہے ۔ اس دن کئے گئے اقلیتی طبقہ کیلئے اقدامات ہی کچھ کام آسکتے ہیں اور یوم آزاد کا مقصد پورا ہوگا ۔ ورنہ دوسری سرکاری زبان صرف کاغذوں پر رہے گی اور اقلیت جو اردو جانتے ہیں مایوس ہی رہیں گے ۔ مسلم قائدین اس طرف حکومت کو عملی اقدامات کرنے توجہ دلائیں اور خود مکمل جدوجہد کریں ۔ تب کہیں جاکراردو کو اس کا مقام مل سکتا ہے ورنہ یوم اقلیتی بہبود بے فیض ہے ۔ زبان کے ساتھ ہی انصاف نہیں کیا جارہا ہے تو اقلیتوں کے ساتھ کیا انصاف کیا جائے گا۔ اس گراں شکوہ کو دور کرنا بے حد ضروری ہے ۔