شفیع اقبال
ایک قدیم کہاوت ہے ’’ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات‘‘ یعنی کسی باصلاحیت شخصیت کی خصوصیات بچپن ہی سے نمایاں ہونے لگتی ہیں۔ ایک اور کہاوت یہ بھی ہے کہ ’’کامیاب زندگی اسی کی ہوتی ہے جواپنے لئے نہیں اوروں کیلئے جیتا ہے۔‘‘ قوم، ملت ، انسانیت، تہذیب ، فنون لطیفہ ، زبان و ادب اور دیگر شعبہ حیات میں گرانقدر خدمات انجام دینے والی عظیم شخصیتوں کے نام انگلیوں پر گنائے نہیں جاسکتے۔ پچھلی صدیوں سے لے کر آج تک یہ سلسلہ جاری و ساری ہے اور ایسے ہی خدمت گزاروں اور جہد کاروں کے سلسلے کی کڑی قائدانہ صلاحیت رکھنے والے بیباک ، متحرک ، خادم و جہد کار جواں سال عارف الدین احمد تک پہنچتی ہے۔
عارف الدین احمدنے انوارلعلوم ایوننگ کالج سے بی اے تک تعلیم حاصل کی۔ طالب علمی کے زمانے ہی سے ان میں بے باکی، جرأت اور حوصلے کے آثار نمایاں ہونے لگے۔ انٹرمیڈیٹ میں وہ کلاس ریپریزنٹیٹیو (Class Representative) بنے اور پھر وہ انوارلعلوم ایوننگ کالج طلباء یونین کے نائب صدر کے عہدے پر فائز ہوئے ۔ بی اے کی تعلیم سے فراغت کے فوری بعد 25 ڈسمبر 1983 ء میں کانگریس کی طلبہ یونین تنظیم (N.S.U.I) National Student Union of India کے نائب صدر (سٹی یونٹ) مقرر ہوئے اور اپنی صلاحیتوں کو روبہ کار لاتے ہوئے (2500) طلبہ کو اس یونین کا ممبر بنایا۔ 1985 ء سے 1987 ء تک سٹی یونٹ یوتھ کانگریس کمیٹی کے نائب صدر کی حیثیت سے سرگرم خدمات انجام دیں۔ اس کے بعد 1987 ء سے 1990 ء تک جنرل سکریٹری سٹی کانگریس کمیٹی (سٹی یونٹ) کے عہدے پر فائز رہے اور اپنی سرگرم قائدانہ صلاحیتوں کو استعمال کرتے ہوئے (4500) غریب افراد کو سفید راشن کارڈ دلوائے۔ وہ فوڈ اڈوائزری کمیٹی، کارپوریشن کی سطح کیرکن بھی منتخب ہوئے جس کا بہ اعتبار عہدہ چیف راشننگ آفیسر I.A.S ہوتاہے اور بہ اعتبار عہدہ اراکین اسمبلی و اراکین پارلیمان بھی رکن ہوتے ہیں۔
’’تنظیم تحفظ اردو‘‘ کا 2 نومبر 1990 ء کو قیام عمل میں آیا اور اس تنظیم کو 2000 ء میں مسلمہ حیثیت حاصل ہوگئی ۔ اس تنظیم کو 2000 ء میں مسلمہ حیثیت حاصل ہوگئی۔ اس تنظیم کے قیام ہی سے وہ بانی و صدر ’’تنظیم تحفظ اردو‘‘ کے عہدہ سے وابستہ ہیں اور مسلسل اور بے تھکانن عوامی اور زبان و ادب کی خدمات میں سرگرم عمل ہیں۔
’’تنظیم تحفظ اردو‘‘ کے قیام اور اسکے صدر بنائے جانے کے بعد وہ اردو زبان و ادب کی بقاء ، تحفظ ، ترویج اور ترقی کی جدوجہد میں مصروف ہوگئے کیونکہ انہیں اپنی مادری زبان اردو اور شعر و ادب سے بے حد دلچسپی بھی ہے ۔ اس طرح عارف الدین احمد نے اپنی ساری توانائی کو اردو کی ہمہ جہتی ترقی کی طرف معکوس کردیا ۔ اردو مدارس اور اردو ٹیچروں کے مسائل کا تفصیلی جائزہ لیتے ہوئے دیوانہ وار جدوجہد کرتے ہوئے (208) سرکاری اردو میڈیم پرائمری مدارس کو (Up Grade) ہائی اسکول تک پہنچایا اور (27) اردو مدارس جو خانگی بلڈنگس میں کارکرد تھے، سرکاری اراضی کی نشاندہی کر کے ضلع کلکٹر راجیشور تیواری (آئی اے ایس) سے کامیاب نمائندگی کرتے ہوئے، سرکاری بلڈنگس کی تعمیر کرواکر ان میں وہ اسکولس منتقل کروائے۔ غریب اور کمزور طبقات کے 74 بچوںکو جو ناخواندہ تھے، S.S.C. اگزامس میں شریک کروایا گیا، جنہوں نے کالجس میں داخلے لے کر اعلیٰ علیم حاصل کی اوراچھی ملازمتوں پر معمور ہوئے۔
1997 ء میں (3,988) ، ٹیچرز SGBT جن میں B.Ed لڑکیوںکی تعداد زیادہ تھی اور جنکی عمریں حد ملازمت سے دو تا چھ ماہ تجاوز کر گئیں تھیں، جنہیں منتخب کرلیا گیا تھالیکن پوسٹنگ نہیں دی گئی تھی۔ اس مرحلے پر تمام امیدوار پریشان اور ناامید ہوگئے تھے۔ ایسے نازک مرحلے پر عارف الدین احمد نے اپنی ’’تنظیم تحفظ اردو‘‘ کے توسط سے ہائی کورٹ میں مقدمہ دائر کیا اوران پریشان اور ناامید امیدواروں کے حق میں فیصلہ حاصل کرلیا اور اس فیصلہ کی بنیاد پر انہیں ملازمتیں حاصل ہوگئیں۔ اس نوجوان جہدکار کی یہ بے لوث خدمات یقیناً کسی عظیم کارنامے سے کم نہیں ہیں۔ اسی طرح عارف الدین احمد نے سرکاری دفاتر، آر ٹی سی بسوں اور سرکاری عہدیداروںکی Name Plates پر اردو تحریر کیلئے بھرپور نمائندگی کی، بالآخر ان پر عمل آوری کی گئی۔
ہر سال وہ ماہِ جولائی میں حیدرآباد میں اردو کنونشن کا انعقاد عمل میں لاتے ہیں، جس میں خصوصاً تلنگانہ اضلاع کے سرکاری وامدادی مدارس و کالجس کے ٹیچرز ولکچررز کو مدعو کیا جاتا ہے جو ’’آن ڈیوٹی‘‘ شریک ہوتے ہیں، جس کیلئے ریاستی حکومت کی جانب سے حکمنامہ کی اجرائی کیلئے ’’تنظیم تحفظ اردو‘‘ کی جانب سے نمائندگی کی جاتی ہے ۔ اس طرح اردو مدارس کے طلباء ، ٹیچرز اور لکچررز کی بے لوث خدمات کے ساتھ ساتھ نئی نسل کو اپنے اسلاف اور مسلم مجاہدین آزادی کے کارناموں سے واقف کروانے ہر سال مولانا ابوالکلام آزاد کے یوم پیدائش پر سمینار کا انعقاد کر کے مدارس اور کالجوں میں طلباء کیلئے تحریری و تقریری مقابلوں کا اہتمام بھی کیا جاتا ہے اور اساتذہ اور طلباء کو ’’تنظیم تحفظ اردو‘‘ کی جانب سے سرٹیفکٹ بھی جاری کئے جاتے ہیں۔
صرف یہی نہیں بلکہ شہر حیدرآباد میں اردو زبان اور شعر و ادب کے تحفظ ، ترقی و ترویج کے سلسلے میں عموماً مہینے میں ایک بار مختلف عنوانات پر سمینار ، جلسے اور مشاعروں کاانعقاد عمل میں لایا جاتا ہے۔ جس میں عارف الدین احمد اپنے شخصی تعلقات اور مراسم کے حوالے سے حیدرآباد اور اضلاع کی ممتاز شخصیتوں ، اعلیٰ عہدیداروں اور قائدین کو مدعو کرتے ہیں اور ایسی تمام نمائندہ شخصیتیں جن میں ہرپریت سنگھ آئی اے ایس، احسن رضا آئی پی ایس، شاہ جہاں باشاہ ، ایم ایل اے، عابد رسول خاں جنرل سکریٹری پردیش کانگریس کمیٹی ، خلیق الرحمن، ایس کے افضل الدین سینئر کانگریس قائدین ، شریمتی پشپا لیلا سابق ریاستی وزیر ، جی نارائن راؤ ، آئی اے ایس ریٹائرڈ و مجاہد آزادی اور محکمہ تعلیمی کے اعلیٰ عہدیدار شامل ہیں، بلا تکلف ان کے سمیناروں اور جلسوں میں شرکت کرتے ہیںاورانہیں کامیاب بناتے ہیں۔ عارف الدین احمد کی ان سرگرمیوں کو عوام تک پہنچانے میں حیدرآبادکی صحافت کا انہیں مکمل تعاون حاصل ہے۔
اس جواں سال جہد کار، اردو کے مجاہد عارف الدین احمد کی بلا کسی مالی تعاون یا سرپرستی کے بے لوث اردو زبان اور شعر و ادب کی خدمات کو ملحوظ رکھتے ہوئے’’قمر الدین صابری اردو فاؤنڈیشن‘‘ (ریڈ ہلز) اور ’’بزم کہکشاں‘‘ محبوب نگر کے اشتراک سے 2002 ء میں ’’جلسہ اعتراف خدمات‘‘ کا انعقاد عمل میں لایا گیا۔ 14 نومبر 2010 ء کو ’’ادارہ ادب صادق‘‘ کی جانب سے ’’مولانا آزاد ریسرچ انسٹی ٹیوٹ‘‘ باغ عامہ میں تہنیت پیش کی گئی اور 12 جنوری 2013 ء کو ’’انجمن محبان اردو‘‘ آندھرپردیش کی جانب سے للیتا کلاتھورینم ، اوپن تھیٹر ، نامپلی میں ’’عابد علی خان یادگار محب اردو ایوارڈ‘‘ جواں سال مجاہد اردو عارف الدین احمد کو عطا کیا گیا۔
عارف الدین احمد ایک ایسا پرستار اردو ہے جس کا دل جذبہ ایثار و قربانی سے معمور ہے اور جسے نہ تو کسی صلے کی تمنا ہے نہ نام و نمود کی خواہش ۔ وہ اپنی ذاتی اور گھریلو مصروفیات اور آرام و آسائش کو پس پشت ڈالتے ہوئے اپنی دھن میں مگن اپنے اسی عظیم مقصد کی تکمیل میں دیوانہ وار مصروف نظر آتا ہے، جس کی مثال اس دورِ انانیت اور مفاد پرستی میں ملنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔