اردو مرثیے میں تہذیبی حسیت

پروفیسر سیدہ جعفر
ادب میں تخلیق کا عمل پیچیدہ اور تہہ در تہہ محرکات اور ایسے گونا گوں عوامل کا نتیجہ ہوتا ہے جن کے انسلاکات کا تجزیہ آسان نہیں ۔ ان کی نشاندہی تہذیبی اور سماجی تناظر کے حوالے سے بھی کی جاسکتی ہے اور اس انداز نظر کی معنویت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ فنکار تاریخ کے ایک خاص عصری منظر نامے سے اپنے فن کا اسلوب ،نظریاتی وابستگی اور ادبی مسلک کی راہیں متعین کرتا ہے اور تاریخ کے ایک خاص لمحے میں تخلیق منصئہ شہود پر آتی ہے ۔ اردو مرثیہ نگاروں کے ذہن اور ان کی سائیکی میں ہندوستان کی خوشبو رچی بسی ہوئی تھی ۔ گرد و پیش کی فضاء ،روایات ،قومی مزاج ،تاریخ و ثقافت کے تسلسل اور تہذیبی حسیت نے مرثیے کو جس کا رشتہ ابدی صداقتوں سے ہے مقامیت کے رنگ و آہنگ سے آراستہ کردیا ہے ۔ ہر

ادب کو تہذیبی نقش گری اور مقامی رجحانات سے توانائی ملتی ہے ۔ اردو شاعری کے تہذیبی مزاج ،اس کی جمالیاتی قدروں کی تہہ داری اور فنی رچاؤ کی تفہیم کا سلسلہ ثقافتی روابط اور عمرانی رشتوں سے جا ملتا ہے ۔ جدید ادب میں تہذیبی مطالعے کے تعمق اور ادب کے تشکیلی عناصر کی معنویت اور تفہیم و تحسین کی اہمیت منکثف ہوچکی ہے ۔ دکن ،دہلی اور لکھنؤ کی تہذیب بنیادی طور پر ایک ثقافتی و حدت کی نمائندگی کرتے ہوئے بھی مقامی رجحانات سے پیدا ہونے والے اختلافات کی بناء پرمخصوص عمرانی خد و خال کی ترجمان تھی ۔ اردو مراثی کو ان تینوں ادبی مرکزوں میں پھلنے پھولنے اور فنی حسن کو نکھارنے کا موقع ملا تھا ۔ اس حزنیہ ادبی پیکر کے حلقہ اثر کی توسیع کے تصور نے بھی اسے تہذیبی مظاہر اور مقامیت کے مانوس عناصر سے ہم آہنگ کردیا تھا ۔

ہر ادب پارے کی تفہیم و تحسین اس کے متقضی ہے کہ قاری اس کے سماجی منظر نامے ،اس دور کے علائم ،رسم و رواج کی صورتوں ،ادبی تھیوری (Literary Theory)اور Epistemiکے بلیغ اشاروں کی ایمائیت سے آگہی رکھتا ہو ۔رثائی ادب کی قدر شناسی کیلئے تاریخ اسلام ،احادیث ،روایات اور خاندان رسالت کی عالمگیر عظمت و فضیلت کا علم بھی ضروری ہے ۔ قرآنی اشارے ،آیات و سیر سے استنباط اور واقعات کی کڑیاں جوڑنے کا سلیقہ اور ان کی تعمیری صورتوں کی وسعت و گہرائی سے آشنائی کے ساتھ ساتھ ہندوستان کی گنگا جمنی مخلوط تہذیب اور سماجی رشتوں ،فکری ،جذباتی اور فنی اظہار کی سطح پر نمودار ہوکر ادبی اور عصری و تاریخی معنویت متعین کرنے والے عناصر اور اپنے عہد کے فکری رجحانات کی نمائندگی کرنے والے عوامل کا ایک واضح خاکہ قاری کے ذہن میں ہو ۔ جب حاتم نے چہار دہ معصومین کے بارے میں کہا تھا کہ

خدا کے نور کا متھ کر سمندر
یہی چودہ رتن کاڑے ہیں باہر
تو یہ بیان سمندر متھن کے دیو مالائی تصور سے شاعر کے ذہنی اور فکری ربط کی غمازی کرتا ہے ایک اور مرثیے میں ارجن کا ذکر سن کر ہمارا ذہن قدیم ہندوستان کی مذہبی فضاء میں پہنچ جاتا ہے –

شانے پہ تھی شقی کے وہ دو ٹانک کی کماں
ارجن بھی جس سے سہم کے گوشے میں ہونہاں

اردو مرثیوں میں جنوں ،پریوں اور حوروں کا ذکر اکثر آیا ہے ۔ دیو نے بھی مرثیے کے علامتی اظہار میں جگہ پائی ہے ۔ قاسم ابن حسن سے ارزق شامی جنگ کیلئے آگے بڑھتا ہے ۔

جیبِ قبا کو مثل کفن پھاڑتا ہوا
نکلا پرے سے دیوسا چنگھاڑتا ہوا
فنکار کی تہذیبی گرفت اور ماحول کی چھاپ اس کی تخلیق میں اپنی جھلک دکھاتی رہتی ہے ۔ مرثیہ نگاروں کا موضوع ماضی بعید سے متعلق تھا ۔ اسے پُر اثر اور دلگداز بناکے پیش کرنا ان کا مقصد تھا ۔ہر دور کے مرثیہ نگاروں نے ان واقعات کو اپنے دور کی تہذیبی صورتوں اور سماجی مظاہر کی تعبیروں سے اپنے حال میں جذب کرلیا ہے ۔ یہ رثائی ادب میں اس طرح ضم ہوگئے ہیں کہ صدیوں کا بُعد جیسے معدوم ہوگیا ہے ۔اور ان کا اثر اس طرح سرایت کر گیا ہے کہ یہ خزینہ ادب پارے اور سانحات اس دور کی تاریخ اور تہذیب کاجزوبن کر ہمارے سامنے آتے ہیں ۔

دلی کے مرثیہ نگاروں میں مسکین غمگینؔ ،سوداؔ ،میر ؔ،قائم ؔاور سوزؔوغیرہ کے رثائیہ کلام میں نہ آمد کی شان و شوکت ہے نہ رجز کا طنطنہ ،خیز بیان اور نہ تلوار کی وہ ہوش ربا تعریفیں ہیں جو شعراء لکھنو کے کلام میں نظر آتی ہیں ۔ ان مرثیوں میں ایک طرح کی بیکسی اور بے چارگی کی فضاء ہے جو اس دور میںدلی کی سیاست اور اجتماعی زندگی کا مقدر بن گئی تھی اسے اجڑی ہوئی دلی کے تناظر میں سمجھا جاسکتا ہے ۔ شعرائے دہلی میں اس زمانے کی مروجہ رسومات کا بیان محفوظ رہ گیا ہے ۔ سودا نے ساچق ،مٹکیاں اور دلہن کے گھر میٹھائی لے جانے کا اپنے مرثیوں میں ذکر کیا ہے ۔

کسی ساچق کا یہ دیکھا ہے آئیں
کٹم ،کا سرکٹا کر مٹکیاں کیں
نباتیں کھانچیاں نیزوں پہ دھر لیں
چلے دلہن کے گھر یوں لے مٹھائی

رسومات کا تذکرہ مقامی رنگ (local Colour) کی پذیرائی کا غماز ہے ۔ بد شگونی ،مبارک یا منحوس ہونے کے تصور کے علاوہ دوسرے تہذیبی مظاہرے بھی جو ہندو سمسکار کا اثاثہ ہیں مستعار لئے گئے ہیں ۔ ہر زبان میں اخذ و قبول اور لین دین کا یہ سلسلہ تہذیبی سطح پر جاری رہتا ہے اور ادب تہذیبی رکھ رکھاؤ ،معاشرتی کو ائف کی اثر آفرینی اور عام آدمی کے جذباتی رویئے سے اثر قبول کرتا ہے ۔ اردو مرثیوں میں خواتین کے اکثر مکالموں اور انکی گفتگو میں اس انداز نظر کی جھلک دیکھی جاسکتی ہے ۔

عین الکمال سے تجھے بچے خدا بچائے
لے لیں بلائیں پنجہ مرحاں نے دور سے
سر اپنے نہ کھولوکہ مجھے آتاہے وسواس

لکھنو پہنچ کر مرثیے میں رسومات اور تہذیبی مظاہر کی تصویر کشی نے زیادہ جگہ بنائی ۔ نفاست پسندی نے اپنا حسن دکھایا اور تہدیبی افکار کی سطح بلند ہوئی ۔ سرزمین عرب میں وقوع پذیر ہونے والے ایک سانحے کو نظم کرتے ہوئے شاعر کا ذہن ماضی میں پہنچ کر جب اس واقعے کو لفظوں میں ڈھالنے کی کوشش کرتا ہے گرد و پیش کی فضاء یہاں کے تہذیبی محرکات ،طرز معاشرت ،انداز فکر اور پورا معاشرتی ماحول اس کے تخیل کو اپنے طلسم میں اسیر کرلیتا ہے اور اپنے رنگ میں ڈبو دیتا ہے اس لئے اردو مرثیے کا نقاد عزائی کلام میں ہندوستانی عناصر کی پذیرائی ان کے عمل دخل اور کار فرمائی کو یکسر نظر انداز نہیں کرسکتا ۔ یہاں اعتذار کی ضرورت نہیں کیونکہ ہندوستانی عناصر مرثیے کے ادبی حسن ،اثر آفرینی اور شعری کشش کے ضامن ہیں اور قاری کو اپنے کرداروں سے جذباتی طور پر قریب کردیتے ہیں اور ان کا انجذاب اور ان سے موانست زمانی اور مکانی بُعد کو مٹادیتی ہے یہ اشعار ملاحظہ ہوں ۔

سرکو لگاکے چھاتی سے زینب نے یہ کہا
تو اپنی مانگ کو کھ سے ٹھنڈی رہے سدا
کی عرض مجھ سی لاکھ کنیزیں ہوں تو فدا
بانوئے نامور کو سہاگن رکھے خدا
مہندی تمہارا لال ملے ہاتھ پاؤں میں
لاؤں دلہن کو بیاہ کے تاروں کی چھاؤں میں

ہندوستانی ماحول ،ہندوستانی خواتین کے جذبات و احساسات اور ان کے انداز گفتگو نے اردو مرثیوں میں مناظر کو متحرک اور جاندار ہی نہیںپُر درد اور دلگداز بھی بنادیا ہے ۔ روز عاشور امام حسین اہل حرم سے رخصت کیلئے آتے ہیں ۔

خیمے میں جاکے شہہ نے جو دیکھا حرم کا حال +چہرے توفق ہیں اور کھلے ہیں سروں کے بال( زینب کی یہ دعا ہے کہ اے رب ذو الجلال +بچ جائے اس فساد سے خیر النساء کا لال )

بانوئے نیک نام کی کھیتی ہری رہے
صندل سے مانگ بچوں سے گودی بھری رہے

صندل سے مانگ بھرنا ہندوستانی خواتین کا طریقہ ہے ۔ زرعی ملک ہندوستان میں کھیتی ہری رہنے کی جو اہمیت ہے اس کی وضاحت کی ضرورت نہیں ۔ ہندوستانی طرز فکر کے بجائے اگر عرب خواتین کے تصورات کی ترجمانی کی جاتی تو مرثیے کی فضاء ہندوستانی قاری کے جذبات کو کیا اسی طرح مہمیز کرتی ؟۔ علی اکبر کی شہادت کے بعد یہ بیان ملاحظہ ہو ۔

دولہا بنے ہیں خون کی مہندی لگائے ہیں
سہرا تمہیں دکھانے کو مقتل سے آئے ہیں
ندی لہو کی چاند سی چھاتی سے بہہ گئی
بہنوں کی نیگ لینے کی حسرت ہی رہ گئی

نیگ لینے کی رسم ہندوستان میں رائج ہے ۔ دوسرے ملکوں کی خواتین اس رسم سے ناواقف ہوتی ہیں۔ مرثیہ نگار کو حزنیہ لے تیز کرنے اپنی تصویر کو پُر اثر بنانے اور جذبات کی دنیا میں تلاطم پیدا کرنے کیلئے ان ہندوستانی رسومات کا تذکرہ کارگر ثابت ہوا ہے ۔ حضرت قاسم کی شادی کے رسومات کا ذکر اکثر مرثیوں میں کیا گیا ہے ۔ لگن ،کنگنا،بدھی ،سہرا ،منڈپ چھانا ،مہندی ،برات ،شربت ،ہلدی اور دوسری طرف رنڈسالہ اور سفید چادر وغیرہ ۔ یہ اشعار ملاحظہ ہوں ۔

بہنیںکدھر ہیں ڈالنے آنچل بنے پر آئیں
اب دیر کیا ہے حجرے سے باہر نبی کو لائیں
دل پر سہے فراق کی شمشیر تیز کو
ماں سے کہو دلہن کے نکالے جہیز کو
چادر سفید اڑھا کے دلہن کو بحال زار
گودی میں لائیں زینب غمگین و سوگوار

اشرافیہ اور اعلی طبقے کے اتصال سے تہذیبی زندگی کا جو ہیولا تیار ہوا تھا اس کی مرثیہ نگاروں نے بڑی دیدہ وری کے ساتھ عکاسی کی ہے اردو مرثیوں میں شادی بیاہ ،پیدائش اور موت کے موقع پر رسومات نشست و برخاست ،طور طریق،طرز گفتگو ،لباس ،زیورات ،حفظ مراتب کا لحاظ ،عروسی و بیوگی کی رسومات ہندوستانی معاشرت کی پر اثر عکاسی کرتے ہیں آج ہم ان رسومات کے پابند نہیں ہیں کیونکہ تہذیبی زندگی کے تیور اور ہمارا طرز بود و باش اور ذہن بدل چکا ہے ۔ غاروں میں رہنے والے انسان سے لیکر خلائی دور کے آدمی تک انداز فکر کی تبدیلی ،زندگی کو نئے تیوروں سے آشنا کرتی رہی ہے مختصر یہ کہ ہر دور میں ادب تہذیبی حسیت کا امین رہا ہے ۔ تہذیبی رشتوں کی معنویت اور ان کے بدلتے ہوئے انداز اور عمرانی جہات کی اثر آفرینی سے انکار ممکن نہیں ۔ مختلف سماجی رجحانات کی تہہ میں پائے جانے والے تصوارت اور عمرانی روابط کا تجزیہ ہمیں ادب کی اصل روح تک پہنچا سکتا ہے ۔