اردو صحافت میں غیر مسلم صحافیوں کی خدمات

حامد رضا صدیقی
انیسویں صدی ، سیاسی اور تہذیبی اعتبار سے برعظیم کی تاریخ میں ایک موڑ کی حیثیت رکھتی ہے ۔ اس صدی میں وہ فیصلہ کن واقعات پیش آئے جنھوں نے اس خطے کا نقشہ ہی بدل کر رکھ دیا ۔ انگریزی استعمار کی غلامی اور پھر اس غلامی کی لعنتیں اور برکتیں ساتھ ساتھ ظہور پذیر ہوئیں ۔ نیا سیاسی و اقتصادی ڈھانچہ ، تہذیب و تمدن کے لئے نئے مظاہر ، نئی زبان ، نیا نظام تعلیم ، نئے ذرائع مواصلات ، نئی سائنسی کرامات ، اجتماعی زندگی میں مغربیت کا عمل دخل اور پھر اس سے پیدا ہونے والی کشمکش اور تصادم یہ سب اس صدی کا تحفہ ہیں ۔

خوش قسمتی سے اردو صحافت کا آغاز بھی اسی صدی کے اوائل کا واقعہ ہے ۔ چنانچہ جو تبدیلیاں روبہ عمل آرہی تھیں ان کی راہ ہموار کرنے یا ان کا راستہ روکنے میں اردو صحافت نے قابل لحاظ حصہ لیا ۔ اردو زبان اپنی فطری دلکشی اور رابطے کی زبان ہونے کی بنا پر ملک گیر حیثیت رکھتی تھی ۔ لہذا اس زبان میں صحافت کی نشو و نما قدرتی طور پر دوسری زبانوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ تیز رفتاری سے ہوئی ۔ اجرائی اخبار اور تعداد کے لحاظ سے صدی کے اواخر تک اردو صحافت نے دوسری زبانوں کی صحافت کو کہیں پیچھے چھوڑ دیا تھا ۔ اردو زبان نے جہاں اردو صحافت پر ترقی کے در وا کئے وہیں اردو صحافت اردو زبان کو مانجھنے ، چمکانے اور لکھنے پڑھنے کی زبان بنانے کا وسیلہ بنی ۔ ہندوستان میں سب سے پہلا اخبار 29 جنوری 1780ء کو جیمس آکسٹس ہکی نے کلکتہ جنرل ایڈورٹائزر یا ہکی کی بنگال گزٹ کے نام سے انگریزی زبان میں جاری کیا ۔ جو عام طور پر ہکی گزٹ کے نام سے مشہور ہے ۔ بیالیس سال بعد ہندوستان میں اردوکا پہلا اخبار جام جہاں نما جاری ہوا ۔ اس عہد میں کئی انگریزی اخبارات نکل چکے تھے مثلاً بنگال 1785 انڈین ورڈ 1791 بنگال ہرکارہ 1795 ایشیاٹک مرر ، مارننگ پوسٹ ، ٹیلی گراف اورینٹل اسٹاریہ سبھی 1799 میں نکل رہے تھے ۔ مدراس پریسیڈنسی سے مدراس کوریئر 1785 مدراس گزٹ 1795 انڈیا ہیرالڈ 1795 اسی طرح ممبئی پریسیڈنسی سے بامبے ہیرالڈ 1789 بمبئی گزٹ اور بامبے کوریئر 179 جیسے اخبارات نکلتے تھے۔

جام جہاں نما اردو کا اولین مطبوعہ اخبار ہے جو 27 مارچ 1822ء کو کلکتہ سے جاری کیا گیا تھا اس کے ایڈیٹر منشی سدا سکھ لال مرزا پوری اور مالک ہری ہردت تھے ۔ یہ ولیم ہوپکٹس پیئرس کے مشین سے چھپتا تھا ۔ ایک ہفتہ وار اخبار تھا جو شروع میں گیارہ اور آٹھ انچ تقطیع میں چھ صفحات پر مشتمل تھا اخبار کے ہر صفحے پر دو کالم اور ہر کالم میں عام طور پر 22 سطریں ہوا کرتی تھیں یہ اخبار فارسی ٹائپ میں چھپتا تھا ۔
انیسویں صدی کے نصف حصے یا پہلی جنگ آزادی 1857 سے قبل تک ہندوستان کے مختلف شہروں سے متعدد اخبار جاری ہوچکے تھے ۔ اس دوران خیر خواہ ہند مرزاپور سے جاری ہوا جو اترپردیش کا پہلا اخبار ہے اسے ایک پادری نے 1837 میں جاری کیا تھا ۔ یہ ایک مذہبی اخبار تھا اس کا مقصد عیسائیت کی تبلیغ تھا ۔
جدید علوم کے فروغ میں قدیم دلی کالج کی بیش بہا خدمات رہی ہیں اسے قدیم و جدید کی حیثیت حاصل ہے ۔ ہندوستان کے نشاۃ ثانیہ میں اس کالج کا اہم رول رہا ہے جہاں نادر روزگار شخصیات موجود تھیں ۔ 1845 میں اس کالج سے بارہ صفحات پر مشتمل ہفتہ وار قرآن السعدین جاری ہوا اس سے پہلے ایڈیٹر پنڈت دھرم نارائن بھاسکر تھے جو غیر معمولی استعداد رکھتے تھے اور شائستہ ذوق صحافت کے مالک تھے ۔ 23 مارچ 1845 کو قدیم دلی کالج سے ہی فوائد الناظرین منظر عام پر آیا اس کے ایڈیٹر ماسٹر رام چندر تھے جو متنوع کمالات اور علمی لیاقت کی وجہ سے انیسویں صدی کی ممتاز شخصیت تصور کئے جاتے تھے ۔ انھوں نے درس و تدریس اور تصنیف و تالیف کے ذریعے بیش بہا خدمات انجام دیں ۔ 1847 میں ماسٹر رام چندر ہی نے خیر خواہ ہند کے نام سے ایک اور اخبار جاری کیا تھا اس کے دو ہی شمارے شائع ہوئے تھے کہ انھیں پتہ چلا کہ اس نام کا ایک اخبار مرزا پور سے شائع ہورہا ہے ۔ لہذا انھوں نے اس کا نام بدل کر محب ہند کردیا اور بعد میں اسی نام سے نکلتا رہا اس میں متفرق و متنوع موضوعات کا احاطہ کیا جاتا تھا ۔

1847 ء میں لکھنؤ کا پہلا اخبار لکھنؤ اخبار کے نام سے جاری ہوا ۔ اس کے ایڈیٹر لال جی تھے ۔ اس کے علاوہ اسی سال میرٹھ سے جام جمشید بابو شیو چندر ناتھ کی ادارت میں جاری ہوا ۔ اسی طرح بنارس سے بھی اخبار سدھاکر پنڈت رتن ایشور تیواری کی ادارت میں جاری ہوا اور اس کا رسم الخط دیوناگری تھا لیکن زبان اردو کی استعمال کی جاتی تھی ۔ اسی سال دلی سے فوائد الشائقین پربھو دیال کی ادارت میں شائع ہوا جو گورنمنٹ گزٹ کا اردو ترجمہ  ہوتا تھا اس کے علاوہ منصفی کے امتحان میں شامل ہونے والے طلبہ کے لئے مفید مضامین بھی شامل کئے جاتے تھے  ۔ اسی سال بنارس سے دو ماہنامہ رسالوں کا ذکر ملتا ہے یعنی رسالہ مرات العلوم جس کے ایڈیٹر ہربنس لال اور مالک بابو بھیروں پرشاد تھے اور دوسرا باغ و بہار جس کے ایڈیٹر بابو کیدار ناتھ گھوش اور کالی پرشاد تھے۔

1849 میں مدراس سے ایک قابل قدر اخبار آفتاب عالم تاب جاری ہوا تھا جس کی خبروں کا حوالہ مشہور ریاضی داں  ماسٹر رام چندر کے اخبار فوائد الناظرین میں کثرت سے پایا جاتا ہے اور اسی سال آگرہ سے اخبار النواح جس کا پورا نام نزہت الارواح و اخبار النواح تھا اس کے ایڈیٹر  اور مالک مشہور حکیم جواہر لال تھے اور اسی درمین 1849 کے اواخر میں آگرہ سے ایک ادبی گلدستہ  معیار الشعرا کے نام سے بنسی دھر کی ادارت میں جاری ہوا جس کو کافی مقبولیت حاصل ہوئی تھی ۔
1850 ء میں کوہ نور لاہور سے جاری ہوا اس کے ایڈیٹر منشی ہرسکھ رائے تھے جو جان جمشید میرٹھ کی ادارت کرچکے تھے یہ اردو زبان اور فارسی رسم الخط میں پنجاب سے جاری ہونے والا پہلا اخبار ہے اسی سال بنارس سے زائرین ہند جاری ہوا ۔ اخبار مرات العلوم بند ہوجانے کے بعد ہربنس لال نے اپنا ذاتی مطبع قائم کیا اور وہیں سے اپنی ادارت میں اسے جاری کیا ۔ 1852 آفتاب ہند جاری ہوا اسے بابو کاشی ناتھ متر بنارس سے نکالتے تھے جو آٹھ صفحات پر مشتمل تھا ۔ یہ اخبار کاشی پریس سے چھپتا تھا معاصر اخبار میں بہتر طرز تحریر کا حامل اور ذی اثر اخبار تھا ۔ 1854 میں کئی اور اخبارات جاری ہوئے بنارس گوبند رگھوناتھ کی ادارت میں بنارس گزٹ اندور سے پنڈت دھرم نارائن بھاسکر اور مہاراجہ ہولکر نیز این سی ہملٹن کی سرپرستی میں مالوہ اخبار منظر عام پر آیا ۔ 1855 رگھوبیر پرشاد عیاش نے سحر سامری ، بینی پرشاد نے اعجاز لکھنؤ ، لکھنؤ سے جاری کئے ۔ ان اخبارات میں لکھنؤ کی طرز فکر تہذیب و تمدن اور اس عہد کی ہو بہو عکاسی ملتی ہے ۔ ساتھ ہی سیاسی ، معاشی بدحالی و بے انتظامی کا تجزیہ بھی ملتا ہے ۔

غیر مسلم صحافیوں میں منشی نول کشور کا نام زرین حروف سے لکھا جائے گا ۔ اردو عربی کتابوں کی طباعت میں گراں خدمات انجام دینے والے منشی نول کشور نے 1858 میں لکھنؤ سے اودھ اخبار شروع کیا ۔ یہ اخبار پہلے ہفتہ وار تھا پھر سہ روزہ ہوا اور 1877 میں روزنامہ ہوگیا ۔ اپنے وقت کا یہ اردو کا بہت بڑا اخبار تھا  ۔ایک زمانے میں یہ اخبار چالیس سے اڑتالیس صفحات پر مشتمل ہوتا تھا ۔ انگریزی اخباروں کو چھوڑ کر یہ پہلا ایسا اخبار تھا جس کے رپورٹر مختلف صوبوں میں تعینات تھے اور کہا جاتا ہے کہ ہندوستان کی مختلف راجدھانیوں میں حکومت کے نمائندے رہتے تھے یا پھر منشی نول کشور کے اردو کے بہترین ادیب ، شاعر  ، مضمون نگار مثلاً عبدالحلیم شرر ، پنڈت رتن ناتھ سرشار ، یاد یگانہ ، چنگیزی ، شوکت تھانوی وغیرہ اس اخبار سے وابستہ تھے ۔
تاریخ صحافت میں ہم کبھی ڈاکٹر مکند لال ، منشی ایودھیا پرساد اور گنیش لال کے نام کو بھلا نہیں سکتے ، ڈاکٹر مکند لال نے 1859 میں تاریخ بغاوت ہند کے نام سے ایک ماہنامہ آگرہ سے اور منشی لال ایودھیا پرساد نے 1860 میں ایک ہفت روزہ خیر خلق خدا اجمیر سے جاری کیا اور 1861 میں رائے گنیش لال نے میرٹھ سے اخبار جلوہ طور نکالا جس کے ایڈیٹر سید ظہور الدین تھے یہ اردو کے مشہور شاعر شیخ محمد ابراہیم ذوق کے شاگرد بھی تھے ۔
1879 کے بعد جب اردو صحافت نے یہ کوشش کی کہ ہندوستانیوں میں آزادی کا شعور بیدار ہو تو مسلمانوں کے ساتھ ساتھ ہندو صحافی بھی آزادی وطن کی تحریک میں پیش پیش رہے اور اگر مدینہ ضلع بجنور سے ، زمیندار لکھنؤ سے آزادی کی تحریک میں نمایاں کردار ادا کرتے رہے تو دوسری طرف دہلی سے لالہ دیش بندھو گپتا کاتیج اور لکھنؤ ہی سے پنڈت بیج  ناتھ کا سحر سامری وغیرہ بھی کسی سے پیچھے نہیں رہے ۔ لالہ لاجپت رائے کا وندے ماترم ، لالہ دیناناتھ کا ہندوستان اور دیپک بھی اپنے سیاسی مضامین و موضوعات سے مقبولیت حاصل کرتے رہے اور انگریز ان سے ضمانت طلب کرکے انھیں بند بھی کرتے رہے ۔

لاہور سے جاری ہونے والے پنڈت قلندر رام کا اخبار اخبار عام 1871 کے بعد انیسویں صدی کے آخری حصے میں ایک بڑا اخبار پیسہ اخبار جاری ہوا ۔ اسے منشی محبوب عالم نے 1887 میں پنجاب گوجرانوالہ شہر اور بعد میں لاہور سے ایک ہفتہ وار اخبار کے طور پر شروع کیا تھا جو بہت مقبول ہوا ۔ محبوب عالم اور منشی نول کشور کو اردو اخبارات میں وہی مقام حاصل ہے جو انگلینڈ میں جان والٹر اور بارمس ورتھ کو حاصل تھا ۔ 1887 میں لکھنؤ سے ایک بڑا اخبار اودھ پنچ منظر عام پر آیا اور اس اخبار نے اردو زبان و ادب کے فروغ میں کافی اہم کردار ادا کیا ہے اس کے لکھنے والوں میں پنڈت تربھون ناتھ ہجر ، منشی جوالا پرشاد برق ، اکبر الہ آبادی قابل ذکر صحافی ہیں ۔

انیسویں صدی میں اردو صحافت کے آسمان پر غیر مسلم صحافی چھائے رہے ۔ آگرہ کے صدر الاخبار کے ، کیدار ناتھ فوائد الشائقین کے پربھوردیال بنارس اخبار کے بابو رگھوناتھ ٹھاٹھے مفید ہند کے منشی ایودھیا پرساد مالوا اخبار کے دھرم نرائن کوہ نور کے منشی ہرسکھ رائے اور لالہ جگت نرائن زائرین ہند کے ہرونش لال نور الابصار آگرہ 1852 کے منشی سدا سکھ لال ، ہفتہ وار آفتاب ہند کے بابو گوند رگھوناتھ سنگھ ، گوالیار جگت کے پنڈت اوماچرن ہفتہ وار چشم فیض کے منشی دیوان چند فتح الاخبار کے کرپاشنکر پندرہ روزہ چشمہ خورشید کے منشی دیوان آگرہ کے ہفتہ خلائق کے منشی شیونرائن کے اسمائے گرامی اردو صحافت کے سنہرے باب کا خوبصورت عنوان ہیں ۔
بیسویں صدی کے آتے آتے بہت کچھ بدل چکا تھا ، سیاسی بیداری اور آزادی کی تحریک تیز ہوچکی تھی ، دنیا بھر کے حالات میں تیزی سے تبدیلیاں رونما ہورہی تھیں ۔ اردو اخبارات بھی تمام آزمائشوں سے گذر چکے تھے ۔ مذہبی ، سیاسی ، ادبی ، ثقافتی ، طنز و مزاحیہ ہر طرح کے اخبار نکل چکے تھے اور اسی درمیان غیر مسلم صحافیوں کی خدمات انگریزی سیاست کا شکار ہوگئی ۔ تقسیم بنگال کے ہی وقت سے ہندو مسلم تفریق کا بیج بودیا گیا اور اخبارات میں اتحاد کے بجائے اختلاف کا سبق پڑھایا جانے لگا ۔ مہاشے خوش حال چند خورسند کا ملاپ اور پرتاپ جیسے اخبار جو اتحاد و اتفاق کے علمبردار تھے آپس میں لڑتے تھے ۔ اس کا اثر بہرحال ہندو مسلم اتحاد پر پڑا اس میں کوئی شک نہیں کہ تیج جتنا ہندوؤں میں مقبول تھا اتنا ہی مسلمانوں میں بھی ہردلعزیز تھا ۔ گوپی ناتھ امن ، میلارام اور دھرم پال گپتا وفا کا کلام خصوصیت کے ساتھ شائع ہوا کرتا تھا ۔ مگر ہندو مسلم اتحاد کے درمیان دھیرے دھیرے فاصلے بڑھتے گئے اور آخر میں دونوں کے درمیان اختلاف ہو ہی گیا ۔

1947 میں ملک تقسیم ہوا اور اس تقسیم کے بعد عام طور سے یہ تصور ہونے لگا تھا کہ غیر مسلم صحافیوں کی اردو صحافت سے دلچسپی ختم ہوجائے گی لیکن ایسا نہیں ہوا جمنا داس اختر ، پنڈت ہری چند اختر ، تلوک چند محروم پھر بیسویں صدی کی چھٹی دہائی سے موہن چراغی ، چندربھان خیال ، نند کشور وکرم ، جی ڈی ٹنڈن اور کلدیپ نیر ایسے صحافی ہیں جو انگریزی ، اردو ، ہندی کے مستند اور بین الاقوامی شہرت کے مالک صحافی ہیں جو اردو والوں کے لئے باعث فخر ہیں۔
اردو صحافت میں گراں قدر خدمات انجام دینے میں منشی نوبت رائے کے خدنگ نظر دیا نرائن نگم کے زمانہ کو فراموش کرنا اردو صحافت کے ساتھ جبر کرنا ہوگا ۔ زمانہ وہ رسالہ ہے جس نے پریم چند سے محبت کرنے کا سبق دیا اور اردو صحافت کے وقار کو بلند و بالا کیا ۔ تقسیم کے بعد چند مقبول رسالے جو غیر مسلم صحافیوں کے زیر نگرانی تھے میں مست قلندر ، چترا اور بیسویں صدی کے نام قابل ذکر ہیں ۔ بیسویں صدی کے ایڈیٹر رام رکھا مل خوشتر گرامی تھے جن کا کالم تیر و نشتر فرقہ پرستوں کو مجروح کرنے میں اپنا جواب نہیں رکھتا تھا ۔ دھیرے دھیرے اردو کا چلن کم ہوتا گیا اور اسی اعتبار سے اردو صحافت کے میدان میں بھی غیر مسلموں کی تعداد متاثر ہوئی ۔ پھر بھی ڈاکٹر راج بہادر گوڑ ، سری نواس لاہوٹی ، کشمیری لال ذاکر ، امن راج سکسینہ ، اودیش رانی باوا نے اردو صحافت سے اپنا رشتہ برقرار رکھا ۔

آزادی سے قبل سب سے اہم اردو اخبار قومی آواز ہے جو پنڈت جواہر لال نہرو کی سرپرستی اور حیات اللہ انصاری کی ادارت میں 1945 میں لکھنؤ سے  جاری ہوا اس اخبار نے اردو میں جدید صحافت کی بنیاد ڈالی اور بہت سے معیارات قائم کئے ۔ اس اخبار کی خصوصیت یہ بھی رہی ہے کہ اس میں صحافتی اصولوں کے ساتھ ساتھ کتابت ، طباعت ، سرخی اور تزئین کے ضابطے مقرر کئے گئے ۔ چنانچہ بعد کے اخبارات نے تقریباً اسی طرز کو اپنایا اور اسی معیار پر چلنے کی کوشش کی جسے قومی آواز نے قائم کیا تھا۔
الغرض محولہ بالا غیر مسلم صحافی اور رسائل کے جائزے سے یہ بات کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ اردو صحافت کے آغاز و ارتقا اور فروغ میں غیر مسلم صحافیوں کا بہت بڑا حصہ ہے ۔