اردو شاعر اپنا رستہ بھول گیا

حسن کمال
شاید ہمارے درمیان اب ایسے ادیب و شاعر بھی کم ہوگئے ہیں جو معاشرے کے تئیں اپنی ذمہ داری سے واقف ہوں ۔ اردو شاعر اردو ادیب و افسانہ نگار کے مقابلے میں عوام کے زیادہ رابطے میں رہتا ہے ۔ مشاعرہ آج بھی مقبول ترین ادبی تفریح ہے ۔ لوگوں کے دلوں کو یا تو شاعر کا شعر یا کسی فلم کا مکالمہ زیادہ آسانی سے چھولیتا ہے ۔ شعر کا پلہ عام طور سے مکالمہ سے بھی زیادہ بھاری ثابت ہوتا ہے ۔ شعر سننا ، اسے موزونیت اور ناموزونیت کی پروا کئے بغیر دہرانا ، اس کا حوالہ دینا ، باذوق ہونے کی علامت سمجھا جاتا ہے ۔ لیڈر جب اپنی تقریر میں کسی شعر کا حوالہ دیتا ہے تو پھر چاہے اس نے شعر غلط سلط پڑھ کر اس کی مٹی ہی کیوں نہ پلید کردی ہو (زیادہ تر یہی ہوتا بھی ہے) تو لیڈر کی بات کو مستند سمجھ لیا جاتا ہے اور اس پر تالیاں بجائی جاتی ہیں ۔

یہ دیکھ کر افسوس ہوتا ہے کہ ہماری برادری یعنی اردو شعراء کی برادری کی سامعین کو مثبت اور سلجھے ہوئے سماجی شعور کا درس دینا بھول گئی ہے اور خود بھی سستی جذباتیت کی رو میں بہی جارہی ہے ۔ مذہبی رواداری ، عصبیت سے پرہیز ، اخلاقی اقدار کی پاسداری اور دوسرے طرف دکھاوے کی دینداری ، ظاہر داری اور مذہب کو صرف رسم کا ڈھیر سمجھنے کی روش کی مخالفت اردو شاعری کے وہ اوصاف تھے ، جو غیر اردو دانوں میں بھی اردو اور اس کی شاعری کی مقبولیت اور پسندیدگی کی سب سے بڑی وجہ بنے تھے ۔ اردووالے بھی ان ہی اوصاف کی بنا پر فخریہ لہجے میں کہتے تھے کہ اردو جیسی کوئی زبان نہیں اور اسی لئے سارے جہاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے ۔ یہ سچ بھی ہے ایسی کشادہ دلی اور ایسی وسیع النظری اردو کے سوا شاید ہی کوئی اور ہندوستانی زبان دے سکے کہ جس میں جہاں محمد مصطفیؐ اور علی مرتضیؓ ہیں ، وہیں رام  ،کرشن ،گوتم اور نانک بھی موجود ہیں ۔ جس میں جہاں یوسف اور زلیخا کی داستان عشق ہے  ، وہیں رادھا اور کنہیا کی پریم کہانی بھی ہے ، جس میں اگر مریم کو پاکیزگی کی علامت مانا گیا ہے تو سیتا کو عصمت مآبی کا پیکر قرار دیا گیا ہے ۔ کیا کوئی اور زبان کوئی ایسی مثال پیش کرسکتی ہے کہ اس میں بانی مذہب کا ذکر اس طرح شروع کیا گیا ہو ، جس طرح محسن کاکوروی کا رسول خداؐ کی شان میں کہا ہوا مقبول اور خوبصورت قصیدہ در مدحت المرسلین شروع ہوا ہے یعنی :
سمتِ کاشی سے چلا جانبِ متھرا بادل
برق کے کاندھے پہ لاتی ہے صبا گنگاجل
راکھیاں لے کے سلونوں کی برہمن نکلے
تار بارش کا تو ٹوٹے کوئی ساعت کوئی پل

اردو کو رواداری اور کشادہ دلی کی یہ وراثت فارسی سے ملی تھی ۔ محض دوسروں کو مرعوب کرنے کے لئے دین داری کا ڈھونگ رچانے والے ، وہ عالم بے عمل ، جن کا ظاہر و باطن یکساں نہ ہو ، جن کے قول و فعل میں تضاد ہو اور خلق خدا میں تفرقہ ڈالنے کے لئے مذہب کا غلط استعمال  کرنے والے ہمیشہ فارسی اور اردو شاعروں کے نشانے پر رہے ۔ شیخ ، برہمن ، واعظ اور ناصح کے القاب ایسے ہی عناصر کے لئے بطور علامت استعمال  کئے گئے ۔ رند ، مشرب اور مست ، رسوم کی قید سے آزاد نمائشی عبادت گزاری سے دور اور ظاہر و باطن میں یکساں انسانوں کی علامتیں قرار پائے ۔ مئے و ساغر ، سبو ، جام و مینا اور سرشاری و بے خودی اللہ کی عبادت کے ساتھ ہی اللہ کے بندوں سے محبت کی علامتوں کے طور پر استعمال ہوتے رہے ۔ شاعری سننے والے بھی ان علامتوں کو سمجھتے رہے اور لطف اندوز ہوتے رہے ۔ حافظ شیرازی فارسی غزل کے بہت عظیم شاعر تھے ۔ انہیں فارسی ادب کے نہہ سپہر (نوآسمانوں) میں سے ایک سمجھا جاتا ہے ۔ ان کا شعر ملاحظہ فرمائیں :
من خرقہ اگر دارم دررہن شراب اولی
ایں دفتر بے معنی غرق مئے ناب اولی
(اگر میرے پاس خرقہ (لباس درویشی) ہوتا تو میں اسے گروی رکھ کر شراب لے آتا ،کیوں کہ اس بے معنی دفتر کو (پاک کرنے کے لئے) پہلے خالص شراب میں غرق کرنے کی ضرورت ہوتی ہے) ۔ حافظ شیرازی اب سے سات سو سال پہلے کے ایران میں پیدا ہوئے تھے ۔ ایران کے حکمران مسلمان تھے ۔ اب سے سات سو سال پہلے کا ایرانی معاشرہ بہت دین آشنا تھا ۔ اس کے باوجود حافظ شیرازی کا شعر سن کر کسی دارالعلوم کی طرف سے ان کے خلاف کفر کا فتوی نہیں جاری ہوا ۔ لوگ سمجھتے تھے کہ خرقہ دکھاوے کی دین داری کی علامت ہے اور خالص شراب اللہ سے عشق حقیقی کی علامت ہے ۔ اس کے برعکس ان کے دیوان سے فال نکالی جاتی رہی ۔ فلم مغل اعظم کا وہ سین یاد کیجئے ، جس میں انارکلی اپنی بہن کے ساتھ  بیٹھی دیوان حافظ سے فال نکال رہی ہے ۔ فال قرآن سے نکالی جاتی ہے لیکن دیوان حافظ سے فال نکالنا اب سے نصف صدی پہلے تک رائج تھا ۔ فارسی کے تمام بڑے شاعروں نے لوگوں کو اپنی دینداری سے مرعوب کرنے والوں اور بندوں سے محبت کرکے اللہ سے محبت کا ثبوت دینے والوں کے لئے ان ہی علامتوں کا استعمال کیا ہے ۔ حضرت امیر خسرو کا شعر ملاحظہ ہو ۔ پارسائی کا ڈھونگ رچانے والوں کے بارے میں فرماتے ہیں:

زاہد نہ تاب داد ، جمال پری رخاں
کنجے گرفت و یادِ خدارا بہانہ ساخت
(زاہد کو جب پری جمالوں کے چہرے دیکھنے کی تاب نہیں رہی تو گوشہ نشین ہوگیا اور یاد خدا کو بہانہ بنایا) ورنہ اس سے  پہلے خوب تاک جھانک کیا کرتا تھا)
یہی رواداری ، کشادہ نظری اور زندہ دلی ایسی ہی علامتوں کے ساتھ اردو میں منتقل ہوئی اور اسے ہاتھوں ہاتھ لیا گیا ۔ میر تقی میر نے جب کہا ۔
میر کے دین و مذہب کو کیا پوچھتے ہو ان نے تو
قشقہ کھینچا ، دیر میں بیٹھا ، کب کا ترک اسلام کیا
تو ان پر نہ تو کفر کا فتوی صادر ہوا ، نہ انہیں مرتد اور ملحد قرار دیا گیا اور نہ ان کا سوشیل بائیکاٹ کیا گیا ۔ لوگ شعر سن کر ان کی وارفتگی پر مسکراتے ہوئے آگے بڑھ گئے ۔ میر اس کے بعد بھی خدائے سخن کہے جاتے رہے اور آج بھی کہے جاتے ہیں ۔ کیا آج کے شاعروں یا سامعین سے ایسی رواداری کی توقع کی جاسکتی ہے ، جو اردو کی تہذیبی روایت سے انجان اور ناآشنا ہیں ۔ توبہ کریں ۔ کسی مشاعرہ میں شرکت کریں ، معلوم ہوگا کہ ہندو شاعر ، داد بٹورنے کے لئے مسلمان شاعروں سے بھی زیادہ مسلمان بننے کی کوشش میں مصروف ہیں۔ میر کے ہم عصر مرزا رفیع سودا نے فرمایا
کعبہ اگرچہ ٹوٹا تو کیا جائے غم ہے شیخ
کچھ قصرِ دل نہیں کہ بنایا نہ جائیگا
تو کسی نے یہ کہہ کر ان کا گریباں نہیں تھاما کہ تم نے کعبہ ٹوٹنے کی بات سوچنے کی ہمت کیسے کی ۔ سب جانتے تھے کہ دل بھی کعبہ کی طرح اللہ کا گھر ہے اور اگر ایک بار ٹوٹ جائے تو پھر نہیں جڑتا ۔
مرزا غالب کے بارے میں ان کے سارے ہم عصر جانتے تھے کہ وہ رند بلانوش تو نہیں تھے ، لیکن اولڈ ٹام نامی سرخ پرتگالی شراب (وائن) کے رسیا تھے ۔ ہم عصر ان سے چڑتے بھی تھے  ،جلتے بھی تھے لیکن جب وہ حضرت علیؓ کی شان میں یہ قصیدہ پڑھتے تھے:
دہر جز جلوۂ یکتائی معشوق نہیں
ہم کہاں ہوتے اگر حسن نہ ہوتا خود بیں
ہرزہ ہے نغمہ زیر و بم ہستی وعدم
لغو ہے آئینہ ، فرق جنون و تمکیں
تو غالب کے ہم عصر اسے انتہائی عقیدت سے سنتے بھی تھے اور اس کی اعلی شعری صفات کی داد بھی دیتے تھے لیکن وہی  غالب جب ذوق رندانہ سے سرشار ہو کر کہتے تھے ۔
زاہد نہ تم پیو نہ کسی کو پلاسکو
کیا بات ہے تمہاری شرابّ طیور کی
تو انہیں دوڑایا نہیں جاتا تھا ۔ حریف ہم عصروں نے بھی شعر سن کر شاید مسکرا کر بس اتنا ہی کہا ہو ’’غالب تم سے خدا سمجھے‘‘ شعر آج بھی دیوان غالب میں موجود ہے ۔ حکیم مومن خان مومن تو نام اور تخلص دونوں سے مومن تھے ، لیکن جب کہتے تھے :

اللہ ری گمرہی بت و بت خانہ چھوڑ کر
مومن چلا ہے کعبہ کو اک پارسا کے ساتھ
تو نہ کوئی ان کی ’’گمرہی‘‘ پر لعنت ملامت کرتا تھا نہ ان کو کسی ’’پارسا‘‘ کے ساتھ کعبہ جانے سے روکتا تھا ۔ اس گمرہی کے باوجود انہیں مومن ہی مانا گیا ۔
اکبر الہ آبادی کے بارے میں ایک دنیا جانتی تھی کہ وہ بہت پابند شرع ، مشرقیت کے دلدادہ ، مغربیت سے بیزار تھے اور نہایت تعلیم یافتہ ہونے کے علاوہ انتہائی خداپرست انسان تھے ۔ خدا پرستی کا یہ عالم تھا کہ :
رقیبوں نے رپٹ لکھوائی ہے جا جا کے تھانے میں
کہ اکبرؔ نام لیتا ہے خدا کا اس زمانے میں
اس کے باوجود یہ کہنے سے بھی نہیں چوکتے تھے :
خلافِ شرع کبھی شیخ تھوکتا بھی نہیں
مگر اندھیرے اجالے میں چوکتا بھی نہیں
اکبر الہ آبادی بھی جانتے تھے کہ یہ شیخ کون تھا اور ان کو سننے اور پڑھنے والے بھی سمجھتے تھے کہ شیخ کا استعارہ کس قسم کے لوگوں کے لئے استعمال کیا گیا ہے ۔ لطف تو یہ ہے کہ شیخ صاحبان بھی ایک دوسرے کو اسی پھبتی سے چھیڑتے تھے ۔ اکبر الہ آبادی ایسی میٹھی چٹکیاں لینے سے بھی نہیں چوکتے تھے :
مولوی صاحب نہ چھوڑیں گے ، خدا گو بخش دے
گھیر ہی لیں گے پولس والے سزا ہو یا نہ ہو
مولوی صاحب آج بھی کسی کو نہیں چھوڑتے لیکن اب ’’رعب قبا و ہیبت دستار‘‘ کا وہ عالم ہے کہ کوئی آج کا شاعر ایسی میٹھی چٹکی لینے سے ڈرنے لگا ہے ۔
ابھی تک جن شعراء کا ذکر ہوا ، آج کے مولوی اور امام انہیں بہ آسانی صراط مستقیم سے بھٹکے ہوئے اور گم کردہ راہ قرار دے سکتے ہیں لیکن شاعر مشرق اور شاعر اسلام علامہ اقبال کا کیا کریں گے ، جن کے اشعار کے بغیر ان کی تقریریں بیوہ کی مانگ کی طرح سونی لگتی ہیں ۔ یہ سچ ہے کہ ’’جواب شکوہ‘‘ لکھنے پر ان کے خلاف بھی فتوی جاری ہوا تھا لیکن اقبال تو ایسے مولویوں اور اماموں کے لئے خودہی ایک فتوی صادر کرچکے تھے  ،جو ان کے خلاف فتوے کے مقابلے میں زیادہ مقبول ہوا تھا اور آج بھی مقبول ہے ۔ ان کا فتوی تھا :
قوم کیا چیز ہے ، قوموں کی امامت کیا ہے
اس کو کیا جانیں یہ بیچارے دو رکعت کے امام
اسلام سے عشق ، مسلمانوں کی بہتری کی خواہش اور مسلم کاز کی پاسداری اقبال کی زندگی اور شاعری کا ماحصل تھی ۔ اسی لئے وہ جانتے تھے کہ نیم ملا خطرہ ایمان ہوتا ہے اور اپنی کم علمی اور لاعلمی کو چھپانے کے لئے اوراپنی دھاک بٹھانے کے لئے منافرت پھیلاتا ہے اور تفرقے پیدا کرتا ہے ۔ وہ ایسے ملاؤں سے متنفر اور بیزار تھے ۔ اس بیزاری کا اظہار انہوں نے جس انداز میں کیا ہے ، وہ ان کی انسان دوستی اور ایمان دوستی کا گرجتا ہوا اعلان ہے ۔ اپنی شاہکار نظم ’’ملا اور بہشت‘‘ میں فرماتے ہیں :

میں بھی حاضر تھا وہاں ضبطِ سخن کر نہ سکا
حق سے جب حضرت ملاّ کو ملا حکمِ بہشت
عرض کی میں نے الہی مری تقصیر معاف
خوش نہ آئیں گے اسے حور و شراب و لب کشت
ہے بدآموزیِ اقوام و ملل کام اس کا
اور جنت میں نہ مسجد نہ کلیسا نہ کنشت
خیال رہے کہ اقبال ہر عالم دین کے خلاف نہیں تھے ۔ وہ بس ان کے خلاف تھے جو عالم نہیں تھے ۔ صرف عالموں کا بھیس دھارن کئے ہوئے تھے ۔ جو تنگ نظر تھے ۔ دنیا کے حالات سے لاعلم اور بے خبر تھے ۔ جنہیں نہیں معلوم تھا کہ دنیا میں کہاں کیا ہورہا ہے ۔ جن کا مطالعہ محدود ، سوچ یکسر غیر منطقی اور غیر سائنسی تھی ، جو مسلمانوں کو یہ بتانے کی استطاعت نہیں رکھتے تھے کہ ان کے لئے فی الاخرۃ حسنتہ کے ساتھ ساتھ فی الدنیا حسنتہ بھی انتہائی ضروری ہے ۔ اقبال اس شاعر ہونے کا وہ فرض ادا کررہے تھے جو ’’شاعری جزویست از پیغمبری‘‘ کا رمز جانتا تھا ۔
اردو شاعری کے اس شاندار کردار اور اس بے نظیر روایت کی موجودگی میں جب ہم حال پر نظر ڈالتے ہیں تو سوائے اس کے کچھ کہتے نہیں بن پڑتا کہ اردو شاعر اپنا رستہ بھول گیا ہے ۔ وہ سننے یا پڑھنے والوں کو نقصان دہ جذباتیت ، لاحاصل سوچ اور خود فریبی کے دلدل سے نکلنے کا مشورہ دینے کے بجائے ، انہیں اسی دلدل میں دھنسے رہنے کی تلقین کرتا نظر آرہا ہے ۔
اس کا اطلاق مشاعروں کے ’’مقبول‘‘ شاعروں پر زیادہ ہوتا ہے ۔ مانا کہ ان کی شاعری کو ادب عالیہ کا درجہ نہیں دیا جاتا ، لیکن یہ بھی سچ ہے کہ اردو والوں اور غیر اردوداں مگر اردو پسند حلقوں تک ان ہی کی پہنچ سب سے زیادہ ہے ۔ اردو میں آج کیسی شاعری ہورہی ہے ۔ عوام الناس میں یہ اطلاع ان ہی کے ذریعہ پہنچتی ہے ۔ یہ شعرا سامعین کی ذہنی تربیت میں بہت اہم رول ادا کرتے ہیں ۔ اب سے تیس چالیس سال پہلے تک اردو شاعر شعوری اور غیر شعوری طور پر سامع کی ذہنی تربیت کربھی رہا تھا اور اس کے اسی رول نے اسے اور اردو شاعری کو اعتبار بخشا تھا ۔
یہ روایت اب ماضی کی داستان بن چکی ہے ۔ آج تو عالم ہی کچھ اور ہے ۔ آپ اگر اردو شاعری کے شوقین ہیں اور مشاعروں میں بطور سامع شرکت کرنا چاہتے ہیں ، تو ضرور شرکت کیجئے ۔ لیکن اگر آپ صلح پسند ، امن پرور ہیں اور مثبت سوچ بھی رکھتے ہیں تو ہمارا مشورہ مان کر اپنے ساتھ بلڈ پریشر کو قابو میں رکھنے والی گولیاں ضرور رکھ لیجئے گا ۔ آج کی اردو شاعری سن کر آپ کا فشار خون کسی بھی لمحہ بلند ہوسکتا ہے ۔