قاری ایم ایس خان
حیدرآباد کی حالت اردو کے اعتبار سے بسا غنیمت ہے اہل اردو پورے ملک میں مختلف مشکلات سے دوچار ہیں اور ہر ایک مشکل ان کے راستے کی رکاوٹ ہے ۔ زندہ قوموں کیلئے خطرے کی چیز راستے کی رکاوٹ نہیں ہوتی خطرہ کی بات ایک زندہ انسان کیلئے یہ ہے کہ وہ مقصد اور منزل کو بھول جائے اور مادیت اور آرام پسندی ہی کو مقصد بنالے اہل ہمت کبھی ہمت نہیں ہارتے ان کا عزم راسخ ہر مشکل کو آسان بناتا ہے اہل یقین کا فیصلہ اور اصحاب عمل کا حوصلہ تاریخ کے دھارے کو بدل دیتا ہے ۔
وہ باشعور اہل زبان جن کے ہاتھ زمانے کی نبض پر ہیں ان کے نزدیک موجودہ زمانے میں اردو کا سب سے اہم مسئلہ یہ ہے کہ نئی نسل کی زبان اور تہذیب کی حفاظت کس طرح کی جائے یہ کام جان کی حفاظت سے بھی زیادہ ضروری ہے۔ یہ کافی نہیں کہ ہم صرف فسادات کے مسئلے پر غور کریں یا صرف نئی نسل کے معاشی مسئلے کے حل کی تدبیر کریں اور ان کے لئے ملازمتوں میں کامیابی یا تجارت میں فروغ پر مطمئن ہوجائیں ۔ انسان وہ ہے جو اپنی تمام مذہبی ، تہذیبی اور لسانی خصوصیات کے ساھت جینے کا عزم کرتا ہے جس قوم کی اپنی زبان نہیں ہوتی اس کا رشتہ درخشاں ماضی سے کٹ جاتا ہے اس لئے بچوں کو اردو کی تعلیم کو غذا اور دوا سے بھی زیادہ اہمیت دینے کی ضرورت ہے ۔ اہل اردو کا شیرازہ اور گلدستہ اردو زبان کے دھاگے سے بندھا ہوا ہے ۔ اس دھاگے کو نکال دینے کے بعد شیرازہ منتشر ہوجائے گا ۔ اردو کے جسم سے جان نکل جائیگی ۔ جہاں اسکولوں میں اردو نہیں ہے وہاں والدین بچوں کو اردو سکھانے کا انتظام کریں ۔ بہت سے والدین اپنے بچوں کو صرف اس عذر کی بنا پر اردو نہیں پڑھاتے کہ اس کی جگہ اسکول کے نصاب میں نہیں یہ زبان سے بے وفائی کے ہم معنی ہے اور جس شخص کی وفاداری اپنی زبان سے نہ ہو اس کی وفاداری کسی چیز سے نہیں ہوسکتی ۔ اسکولوں میں اردو پڑھائی جائے یا نہ پڑھائی جائے یہ والدین کی ذمہ داری ہے کہ وہ بچوں کو اردو سکھائیں ، گھروں میں اردو اخبارات ، رسالے منگائیں اور کتابیں خریدیں اور اپنے سرمائے کا ایک حصہ ان چیزوں پر خرچ کریں کہ اس کے بغیر اردو سے ان کی وفاداری مشکوک ہے جو لوگ اردو جانتے ہیں لیکن نہ اردو کا اخبار خریدتے ہیں اور نہ کوئی اردو کا رسالہ منگاتے ہیں اور ایک سال میں بھی اردو کی کوئی ایک کتاب نہیں خریدتے ہیں ان کا نام اردو کے قاتلین کی فہرست میں ہونا چاہئے بلکہ انھیں خود اپنے آپ کو چوراستے پر کھڑے ہو کر ببانگ دہل اردو کا قاتل کہنا چاہئے ان کے اعتراف جرم سے دوسروں کو فائدہ ہوگا ۔
دل بدل جائیں گے تعلیم بدل جانے سے
اور اقبال نے عصری تعلیم کے پروردہ نوجوانوں کو ’’کم نگاہ و بے یقین و ناامید‘‘ اور ’’تاریک جاں روشن دماغ‘‘ قراردیا تھا ۔ ایک سیکولر ملک میں بچوں کی زبان اور تہذیب کی حفاظت کی ذمہ داری کا کام والدین کو ہی اٹھانا ہے ۔ زبان کی ترقی اور حفاظت و چلن کی ذمہ داری صرف حکومت کی نہیں بلکہ اہل زبان کی بھی ہے۔ زبان کے بغیر زندگی موت کی مانند ہے اور اہل ضمیر اہل شعور اور اہل غیرت کے نزدیک زندگی نما موت نما زندگی سے ہزار درجہ بہتر ہوتی ہے وسائل کی کمی کا بہانہ ، نقصان کا اندیشہ ، وقت کی کمی کا شکوہ ، مختلف قسم کی ذمہ داریوں کا عذر مریض قومو اور ضعیف دلوں کی بیماری ہے جو لوگ اچھی تنخواہ اور آمدنی کے باوجود اردو اخبار اور اردو کتاب نہیں خریدتے ہیں اور ضروریات زندگی کے تمام لوازمات ان کے گھر میں موجود ہوتے ہیں وہ زبان کے معاملے میں شعور ، حمیت اور غیرت سے محروم ہیں ۔ اہل اردو اس وقت ایک فیصلہ کن موڑ پر کھڑے ہوئے ہیں ۔ ایک راستہ لسانی اور تہذیبی ارتداد کی طرف جاتا ہے دوسرا راستہ عزت و سربلندی کی طرف ۔ اہل اردو کو یہ ثابت کرنا ہے کہ وہ ایک زندہ قوم ہیں اور تمام موانع اور مشکلات کے باوجود اردو کی حفاظت و ترقی کیلئے قربانی دینے کے لئے تیار ہیں ۔
بلاشبہ اس وقت بچوں کیلئے عصری تعلیم بے حد ضروری ہے ۔ بچوں کو اسکولوں میں پڑھانا بھی ضروری ہے ان کو اقتصادی اعتبار سے مضبوط اور مستحکم بنانا بھی نہ صرف دنیاوی اعتبار سے بلکہ لسانی و تہذیبی اعتبار سے بھی ۔ اگر اہل اردو زبان اور تہذیب کے اعتبار سے اہل اردو نہ رہے تو پھر ان کوششوں کا کیا حاصل اور ان کا کیا فائدہ ؟ اس لئے نئی نسل کی لسانی اور تہذیبی و مذہبی حفاظت بالکل بنیادی کام ہے اور اس سے غفلت جرم ہے جسے تاریخ معاف نہیں کرے گی ۔ نصاب تعلیم کے اندر اور بعض اسکول کے ماحول میں کچھ زہر بھی ہوسکتا ہے لیکن اسکا تریاق مہیا کرنا بھی والدین کی ذمہ داری ہے ۔ ہمارے آبا و اجداد نے اردو زبان اور تہذیب و مذہبی لٹریچر اور روایات کو ایمان داری کے ساتھ ہم تک پہنچایا تھا اب ہماری باری ہے کہ زبان اور ان روایات وغیرہ کو نئی نسل تک پہنچائیں ۔ اردو زبان و ادب کا ذوق پیدا کرنے کے لئے گھر کے اندر تھوڑی دیر کیلئے اجتماعی مطالعے کی عادت بہت مفید ہے ۔ سارا مسئلہ فکرمندی اور جذب دروں اور سوز فزوں کا ہے ۔ یہ اگر موجود نہیں تو باتیں ہزار ہیں یہ اگر موجود ہے تو اردو کی تعلیم و تربیت کے چراغ کو بہت زیادہ تیل بتی کے بغیر بھی فروزاں رکھا جاسکتا ہے ۔ اگر جذب دروں اور سوز فزوں نہیں ہے تو پھر ہزاروں حیلے اور بہانے ہیں جس خاندان میں اردو کا چلن رہا ہو اس میں اگر اولاد اردو کی نوشت و خواند سے محروم ہو تو اس کی حیثیت بے جڑ کے پودے کی ہوتی ہے۔ اطلاعاً عرض ہیکہ جاپانی زبان میں ہر سال تو نوے کروڑ کتابیں شائع ہوتی ہیں اور فروخت ہوتی ہیں ۔ اوسطاً ہر شخص سال میں دس کتابیں پڑھتا ہے ۔ ہمارے یہاں طلبہ اور اساتذہ کتابوں کے گلزار کی سیر کرنے کے بجائے آرائش و زیبائش کے بازار کی سیر کرتے ہیں ۔ ادب اور علم کے فروغ کیلئے ضروری ہے کہ ادبی اور علمی کتابیں پڑھی جائیں ، اخبارات کا مطالعہ بھی تسلسل کے ساتھ کیا جائے کیونکہ اخبارات میں معلومات کا خزانہ ہوا کرتا ہے ۔
کس قدر باعث رنج و ملال یہ صورت حال ہے کہ اردو زبان کا مصنف کوہ کنی کے بعد ایک کتاب لکھتا ہے ناشر اپنے رائس المال میں سے کتاب چھاپنے پر 50 ہزار روپے لگادیتا ہے ۔ پھر 50 روپئے میں بھی اسے کوئی نہیں خریدتا ہے اگر مصنف یا ناشر کی جانب سے کتاب تحفے میں مل جاتی ہے تو اسے طاق پر رکھ دیتا ہے اور جلد ہی اسے نقش و نگار طاق نسیاں بنادیتا ہے خریدار نے ہوں تو لفظوں کا لالہ فروش بازار کیسے لگے گا ، قدردانی کی نگاہ نہ ہو تو جملوں کی بہشت بدوش بہار کیسے سجے گی ۔
اگر ہمیں اردو کو بچانا ، اس کے چلن کو پھر سے عام کرنے اور ترقی دینا ہو تو اور اردو زبان و تہذیب کی حفاظت کرنی ہے تو اس بارے میں اپنی حمیت اور غیرت کا ثبوت دینا ہوگا ۔ ہمیں حکومت کی بیساکھی کا سہارا میسر آئے یا نہ آئے ہمیں خود اپنے اوپر اعتماد کرنا ہوگا اور اردو کی تعلیم و تحریر کو اپنی میزان قدر میں سب سے اونچی جگہ دینی ہوگی افسوس کہ اردو والوں میں مادری زبان کیلئے غیرت اور حمیت کی رمق باقی نہیں رہی ۔ اردو دینی مدارس و جامعات کی وجہ سے اترپردیش میں زندہ ہے اب اپنے تشخص کی حفاظت کیلئے اور اردو زبان کو زندہ رکھنے کیلئے جس میں اسلامی علوم کا بہت بڑا ذخیرہ ہے اپنی آئندہ نسلوں کیلئے اردو کی تعلیم کا معقول انتظام کرنا ہوگا ۔
روح کہتے ہیں جان کہتے ہیں فخر ہندوستان کہتے ہیں
جو مٹانے سے نہ مٹے اسے اردو زبان کہتے ہیں
(ماخوذ کتاب اردو کی کہانی ، اردو کی زبانی ، مصنف پروفیسر محسن عثمانی ندوی)