اردو تمہیں حسرت سے کھڑی دیکھ رہی ہے

احمد ضیاء
اردو زبان کی شیرینی ، راست احساسات تک پہنچنے کی خصوصیت اور ان احساسات کو الفاظ کے پیراہن میں عوام الناس تک پہنچانے کی اہلیت نے اسے ابتداء ہی سے عوامی زبان کا مقام دلایا اوریہ زبان دن بدن ترقی کے زینہ طے کرتی گئی ۔ جب تک اس زبان کو درباری سرپرستی حاصل رہی اس زبان کے وارے نیارے ہوتے گئے لیکن جیسے جیسے حکومتوں نے اس زبان سے نظریں چرائیں ویسے ویسے اس زبان کو برے دن دیکھنے پڑے ۔ ملک کی آزادی کے بعد اردو دوستی کا دامن تنگ ہوتا گیا اور حکومتوں کے تیور دیکھ کر خود اردو والے اس زبان سے دور ہوتے گئے ۔ محبان اردو نے جن میں سماجی جہد کار ، صحافی ، سیاستداں ، دانشور و دیگر ہمدردان اردو زبان شامل تھے ۔ اس زبان کی بقاء کے لئے کافی جد وجہد کی اور اس زبان کو روزگار سے جوڑنے اور حکومتوں کی سرپرستی حاصل کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا اور کچھ حد تک کامیاب بھی رہے ۔ مختلف ریاستوں میں اردو اکیڈیمیاں تشکیل دی گئیں ۔ فروغ اردو زبان کے ادارہ جات قائم کئے گئے ۔ اردو تنظیموں کو مالی امداد ملنی شروع ہوئی ۔ اردو ذریعہ تعلیم کے مدارس کا قیام عمل میں آیا ، اردو زبان سے فارغ اساتذہ کے تقررات کو ممکن بنایا گیا اور ایک حد تک اردو زبان کو روزگار سے جوڑنے کی کامیاب کوشش کی گئی ۔ آج کئی جامعات میں اردو شعبہ جات کا وجود اور ان شعبہ جات میں اردو پروفیسروں کا موجود رہنا ، ڈگری کالجس ، جونیئر کالجس کو اردو ذریعہ تعلیم سے جوڑنا اورلکچررس کو روزگار کا موقع فراہم کرنا ، پرائمری ، اپر پرائمری اور ہائی اسکول سطح پر اردو اسکولوں کو قائم کرتے ہوئے اردو جائیدادوں کو منظور کروانا اور اردو اساتذہ کو روزگار کے مواقع فراہم کرنا ایسے کارنامے ہیں جن کی وجہ سے سیکڑوں اردو والوں کو روزگار سے جوڑا گیا لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ جو لوگ ان ذرائع سے اردو کے نام پر روزگار حاصل کئے ہوئے ہیں انھیں اس زبان کی ترقی و ترویج سے کوئی دلچسپی نہیں اور وہ تمام اپنی ذاتی صلاحیت اور قابلیت کو ہی حصول روزگار کا ذریعہ سمجھے ہوئے ہیں ۔ان اردو والوں کو اس بات کا قطعی احساس نہیں کہ ان کی موجودہ جائیداد کی منظوری اور بقاء کے لئے ہمارے اسلاف نے کتنی قربانیاں دیں ، کیسی جد وجہد کی ، حکومتوں کو منوانے کے لئے کتنی توانائیاں صرف کیں اور کامیابی حاصل کرتے ہوئے اردو اساتذہ ، لکچررس اور پروفیسر کی جائیدادوں پر تقررات کو ممکن بنایا ۔ آج جو بھی لوگ اردو زبان کی بنیاد پر روزگار سے جڑے ہوئے ہیں وہ ایک مرتبہ اپنے دامن میں جھانک کر دیکھیں کہ جس زبان کے بل بوتے ہیں وہ معیاری زندگی بسر کررہے ہیں اس زبان کو انھوںنے کیا دیا ۔ آج سارے ملک میں جو بھی اردو کی ترقی و ترویج کے کام ہورہے ہیں ان میں زیادہ تر ایسے لوگ ہاتھ بٹارہے ہیں جو راست اردو زبان کے ذریعہ حاصل ہونے والے روزگار سے جڑے ہوئے نہیں ہیں ۔ خواہ ادبی کام ہوں ، مشاعروں کا انعقاد ہو ، اردو صحافت کے ذریعہ اردو زبان کی ترقی کے کام ہوں ، اردو والوں کے فلاحی کام ہوں یا اردو معاشرہ و تہذیب کی بقا کا معاملہ ہو تمام کی تمام سرگرمیاں ایسے لوگ انجام دے رہے ہیں

جو اس زبان کو روزگار کا ذریعہ نہیں بنائے ہوئے ہیں ۔ آج کا سب سے بڑا المیہ اور اردو زبان کی بدنصیبی یہ ہے کہ اس زبان نے جن لوگوں کو پرتعیش زندگی فراہم کی وہ اس زبان سے آنکھیں چرائے ہوئے ہیں اور اس زبان کی خدمت تو درکنار خود اپنے بچوں کو اس زبان سے تعلیم دلانے میں تضحیک محسوس کرتے ہیں اور بہ بانگ دہل یہ اعلان کرنے میں فخر محسوس کرتے ہیں کہ ہمارے بچے کانونٹ میں فلاں بڑے کارپوریٹ ادارہ میں انگریزی میڈیم سے تعلیم حاصل کررہے ہیں ۔ اس قبیلہ سے تعلق رکھنے والوں سے پوچھئے کہ انھوں نے کبھی کسی غیر اردوداں کو اردو دانی اور جو غریب اردو والوں کے بچے ہیں انھیں تعلیمی مدد فراہم کی ۔ ادارہ سیاست نے مرحوم جناب عابد علی خان کے زمانہ ہی سے غیر اردوداں طبقہ میں اردو کے فروغ کے لئے بہترین خدمات کا سلسلہ شروع کیا جس کے تسلسل میں نواب زاہد علی خان اور عامر علی خان نے بھی اس زبان کو عوامی زبان بنانے ، اس کو زیادہ سے زیادہ فائدہ بخش بنانے ،اس زبان کے ذریعہ مزید روزگار کے مواقع فراہم کرنے کی کامیاب کوشش کی ۔ نہ صرف عوامی سطح پر بلکہ حکومتی سطح پر بھی ایسے کام انجام دیئے کہ مورخ ان شخصیات کی اردو دوستی کو سنہرے حرفوں میں لکھنے پر مجبور ہوجائے گا ۔ کاش اردو اساتذہ ، لکچرر ، پروفیسر اردو زبان کی خدمت کا جذبہ لئے ہوئے آگے بڑھتے ، اپنی کمائی کا کچھ حصہ اس زبان کی ترقی کے لئے صرف کرتے ،اپنے فاضل وقت سے اس زبان کی ترویج کے لئے کچھ وقت نکالتے اور جس زبان نے انھیں معاشی آسودگی فراہم کی ۔

انھیں سماجی موقف عطا کیا ، اس کی ترقی میں حصہ دار بن جاتے ۔ لیکن دیکھا یہ جارہا ہے کہ یہ تمام لوگ جب تک ان کا کوئی ذاتی مفاد نہ ہو ادبی تقریبوں ، مشاعروں اور اردو زبان کے فروغ کے جلسوں میں شرکت کرنا بھی کسر شان سمجھتے ہیں ۔ جب یہ لوگ شرکت ہی نہیں کرتے تب ان سے کسی قسم کی مالی مدد کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا ۔ ہونا یہ چاہئے تھا کہ یہ تمام لوگ مشترکہ طور پر اپنی تنخواہوں سے کچھ رقم علحدہ کرتے ہوئے ’’فروغ اردو زبان فنڈ‘‘ قائم کرتے اور اس زبان کے فروغ کے لئے مختلف پروگرام منعقد کرتے ہوئے اس زبان کی ترقی و ترویج کی فکر کرتے ۔ دیہاتوں میں اور مختلف شہروں میں جہاں اردو ذریعہ تعلیم کی سہولت نہیں وہاں پر وہ خود اردو زبان کی تعلیم دیتے اور اس زبان کو عوامی سطح پر پہنچاتے ۔ یہ لوگ اردو زبان کے زوال کی باتیں تو بہت کرتے ہیں لیکن عملی طور پر اس زبان کو زوال پذیر ہونے سے بچانے کے لئے جب دامے درمے ، سخنے آگے آنے کی بات چھڑتی ہے تب سب سے پہلے ان محفلوں سے نکل پڑتے ہیں ۔ غالباً موجودہ دور کے ان اردو زبان سے معاشی فائدہ اٹھانے والوں کے بارے میں ہی کبھی شاعر نے کہا تھا کہ
اے اہل زبان بڑھ کے کلیجہ سے لگالو
اردو تمہیں حسرت سے کھڑی دیکھ رہی ہے