پروفیسر محسن عثمانی
ادب کا ایک خاص مفہوم ہوتا ہے جس سے مراد اعلی درجہ کی فنکارانہ نثر اور اعلی درجہ کی شاعری ہے ، فکشن یعنی قصے اور ناول بھی اسی ذیل میں آتے ہیں ۔ ادب کا ایک دوسرا عمومی مفہوم ہے جو جنرل لٹریچر کے مفہوم میں استعمال ہوتا ہے ، جیسے حدیث کا لٹریچر ، تفسیر کا لٹریچر ، اسلامیات کا لٹریچر ، سائنس کا لٹریچر وغیرہ وغیرہ۔ اردو ادب اپنے دونوں مفہوم کے لحاظ سے عربی ادب سے متاثر ہے یعنی اردو ادب میں ادب کے عمومی مفہوم کے لحاظ سے بھی بہت کچھ مواد عربی ادب سے ماخوذ ہے اور ادب کے فنی مفہوم کے لحاظ سے بھی اردو ادب نے عربی ادب سے استفادہ کیاہے ۔ پہلے ہم ادب کے عمومی مفہوم کو لیتے ہیں تو ہمیں اندازہ ہوگا اردو زبان کا خزانۂ علمی عربی ادب کے زیر اثر علوم اسلامی سے مالا مال ہے ۔ عربی زبان کے بعد اسلامیات پر کسی زبان میں اتنی کتابیں نہیں لکھی گئیں جتنی اردو ادب میں لکھی گئی ہیں ۔ مثال کے طور پر تفسیر کا لٹریچر عربی ادبیات کے دائرے میں آتا ہے ۔ بروکلمان نے جو عربی ادب کی تاریخ لکھی ہے اس میں بھی تفسیر و حدیث کی کتابیں آئی ہیں ۔ فواد سوزسکین نے جو تاریخ التراث العربی لکھی ہے اس میں بھی تفسیری لٹریچر اسلامیات کے لٹریچر وغیرہ کا تذکرہ ہے ۔ اس سے ثابت یہ ہوا کہ اسلامی ادب کے عمومی مفہوم میں پورا اسلامیات کا لٹریچر آجاتا ہے ۔ اس اعتبار سے اردو ادبیات کے خزانہ میں اسلامیات کا وہ سارا لٹریچر تقریباً موجود ہے جو عربی ادبیات کا بیش قیمت سرمایہ ہے ۔
چونکہ ادب کے پھول زبان کے چمن میں کھلتے ہیں اسی لئے شعر و ادب سے پہلے اردو زبان پر عربی زبان کے کیا اثرات پڑے ہیں اس کی طرف بھی اشارہ کرنا ضروری ہے ۔ جو لوگ اردو زبان کی تاریخ سے واقف ہیں انہیں علم ہے کہ اردو میں عربی اور فارسی دونوں کی بہت زیادہ آمیزش رہی ہے ۔ کئی سو سال پہلے مسلمانوں کے عہد حکومت میں انتظامی کاموں کی زبان اور علمی کاموں کی زبان فارسی تھی ۔ حکومت کے عملہ کا جب عوام سے ملنا جلنا ہوتا تھا تو وہ عوام کی زبان بولتے تھے جس میں فارسی الفاظ داخل ہوجاتے تھے اور چونکہ فارسی میں عربی کے الفاظ بہت کثرت سے داخل تھے اس لئے عربی کے الفاظ خود بخود عوامی زبان میں داخل ہوتے چلے گئے ۔ علمائے دین کو بھی وعظ و تقریر کے لئے عوام کی زبان اختیار کرنی پڑتی تھی اور مذہبی گفتگو یا تقریر میں عربی زبان کے الفاظ کا استعمال بہت زیادہ ہوتا تھا اس لئے باقاعدہ ایک عوامی زبان کی بنیاد پڑتی چلی گئی ، جس کا نام بعد میں اردو ہوگیا ۔ فوج میں بھی عوام کو بھرتی کیا جاتا تھا اور فوج کا عوام سے ملنا بھی ہوتا تھا اس لئے اس نئی ترقی پذیر زبان کا نام اردو پڑگیا جس کے معنی لشکر کے ہیں ۔ یہ ملک کی سرکاری عالمانہ زبان سے الگ زبان تھی جو بتدریج ترقی کرتی چلی گئی ۔ عربی زبان کے الفاظ زیادہ تر فارسی زبان کے ذریعہ اس میں داخل ہوئے اور کچھ براہ راست بھی ، اس لئے کہ عربی مسلمانوں کی مذہبی زبان تھی اور اسلامیات کا بہت بڑا خزانہ اس زبان میں موجود تھا ۔ قرآن و حدیث کے پڑھنے اور سننے کے مبارک اثرات بھی اس زبان پر پڑے ، اس لئے عربی کے الفاظ فارسی کے ذریعہ بھی داخل ہوئے اور کچھ براہ راست بھی داخل ہوئے ۔ عربی زبان کے دینی اور ادبی قصے اس کی تلمیحات سب اردو میں داخل ہوگئی ۔ مجنون ولیلی ، موسی و عصائے موسی ، حاتم طائی، حیدر کرار ، کربلا وکوہ طور اور یوم النشور اور اس طرح کے سینکڑوں عربی الفاظ اردو زبان کا جز بن گئے ۔ یہاں تک کہ اردو عبارتوں اور نظموں میں کبھی 40 اور 50 فیصد تک عربی الفاظ پائے جاتے ہیں ۔ نمونے کے طور پر اقبال کے یہ اشعار دیکھئے :
تیرا جلال و جمال مرد خدا کی دلیل
وہ بھی جلیل و جمیل تو بھی جلیل وجمیل
تیری بنا پائدار تیرے ستون بے شمار
شام کے صحرا میں ہو جیسے ہجوم نخیل
تیرے در و بام پر وادی ایمن کا نور
تیرا منار بلند جلوہ گہِ جبرئیل
ان اشعار میں پچاس فیصد تک الفاظ عربی زبان کے ہیں
اردو شعر و ادب اور تنقید پر عربی ادب کے اثرات کا جائزہ لینے سے پہلے اب ہم یہاںکچھ اردو کے الفاظ کا تذکرہ بھی کرنا چاہتے ہیں جو اصلاً تو عربی زبان کے الفاظ ہیں لیکن وہ بھیس بدل کرکے اردو زبان و تہذیب میں گھل مل گئے ہیں ۔ کسی چیز کی قیمت کے لئے جب ہم دام کا لفظ استعمال کرتے ہیں تو ہمارے حاشیہ خیال میں بھی یہ بات نہیں آتی کہ اس لفظ کا کوئی تعلق عربی زبان سے ہے ۔ یہ لفظ دام اصل میں درہم ہے جو کبھی صرف مال اور قیمت کے مفہوم میں استعمال ہوتا ہے اور جب ہم یہ کہتے ہیں کہ ’’یہ اٹھائیس کیریٹ کا سونا ہے‘‘ تو ہمارا ذہن اتنا دقیقہ سنج اور نکتہ شناس نہیں ہوتا کہ عربی لفظ قیراط کی طرف منتقل ہو اسی طرح سونا کا سکہ اشرفی بھی عربی زبان کا لفظ ہے اور قدیم عربی کتابوں میں اس لفظ کا استعمال ملتا ہے ۔ اور جب ہم خوان نعم پر بیٹھ کر فیرنی سے کام ودہن کو لذت یاب کرتے ہیں تو ہمارا ذہن ادھر منتقل نہیں ہوتا کہ عربی میں ایک لفظ الفرانی بھی ہے جسے گندھے ہوئے آٹے میں شیر و شکر ڈال کر پکاتے ہیں اور جسے اکثر بیماروں کے سامنے پیش کیا جاتا تھا اب اس فیرنی اور کھیر کو حلبیہ کہتے ہیں ۔ دسترخوان کے دوسرے کھانے قلیا کباب اور شوربا بھی اصلاً عربی زبان کے الفاظ ہیں ۔ مفروشات میں ایک چیز قالین ہے یہ اصل میں ایک اسلامی شہر قالیقلاء کی طرف منسوب ہے اور یہیں کی ایک اور معروف شخصیت ابوعلی القالی ہے ، اسی طرح ہم اردو میں راج مستری کا لفظ استعمال کرتے ہیں ۔ عربی معاجم میں ایک لفظ ’’راز‘‘ ملتا ہے جو عمارت کے معمار کے لئے استعمال ہوتا تھا اسی طرح مستری کا لفظ بھی عربی ہے اور اس سے مراد وہ مسطر ہے جو مکان کا معمار دیوار اٹھانے اور اسے برابر کرنے کے لئے استعمال کرتا تھا ، لکڑی کا کام کرنے والے بڑھئی کے پیشہ کے لوگ خراد کرنے کا لفظ استعمال کرتے ہیں یہ بھی عربی لفظ ہے ’’خراط‘‘ قلعی کرنے کا لفظ اردو زبان میں عام ہے ۔ قلع عربی میں اس دھات کو کہتے ہیں جس سے برتنوں پر قلعی کی جاتی ہے پھر اردو میں ایک معروف لفظ تماشا ہے اصل میں یہ عربی تمشی ہے یہ دوستوں اور ساتھیوں کے ساتھ چہل قدمی کرنے اور چلنے میں لفظ لینے کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ کیمیا ، کتاب و قلم ، عنصر اور بیشمار الفاظ ہیں جو اردو میں استعمال ہوتے ہیں ۔
اردو زبان میں عربی زبان کے الفاظ بھرے ہوئے ہیں ۔ الفاظ کی بڑی تعداد عربی سے مستعار ہے اور صرف الفاظ نہیں بلکہ مکمل عربی تعبیرات اردو ادب میں اور کتابوں میں در آئی ہیں مثال کے طور پر المعنی فی بطن اشاعر ، استغفر اللہ ، انشاء اللہ ، الحمد للہ ، سبحانہ ، الاامرفوق الادب کالنقش فی الحجر ، کالعدم ۔ شعرا کے نام اور تخلص زیادہ تر عربی زبان کے ہوتے ہیں جیسا سودا ، میر ، غالب ، اقبال ، فیض ، مجاز ، پیشوں کے نام بھی عربی سے لئے گئے ہیں ۔ جیسے تاجر ، طبیب ،حکیم ، قاضی ، امام ، استاذ۔ عدلیہ کی اصطلاحیں بھی سب عربی زبان سے آئی ہیں جیسے مدعی ، مدعی علیہ ، قانون ، عدالت ، شہادت ، وکیل ، ارتکاب جرم وغیرہ ۔ اب ہم یہاں خالص شعر و ادب اور فن کا تذکرہ کریں گے جس پر عربی زبان کی چھاپ بہت گہری ہے ۔ اردو شعر و اثر میں بلاغت کی تمام اصطلاحیں ، صنائع اور بدائع ، سب کے سب عربی ادب سے ماخوذ ہیں ۔ اردو کے عروض بھی وہی ہیں جو عربی شاعری کے عروض ہیں ، خود شعر کا لفظ عربی زبان کا لفظ ہے اور یہ لفظ شعور سے مشتق ہے ۔ شعور کا تعلق قلب سے ہے یعنی واردات قلبی کا ام شعور ہے قرآن میں ہے ’’الا انہم ہم المفسدون و لکن لایشعرون‘‘ ۔ وہ موزوں اور مقفہ کلام جو عکس جذبات ہونے کے ساتھ ساتھ حسن زبان و بیان کا مجموعہ ہوتا ہے شعر کہلاتا ہے ۔ اردو شاعری کے فنی محاسن وہی ہیں جو عربی شاعری کے فنی محاسن ہیں ۔ شعر کو صداقت سے قریب ہونا چاہئے ۔ صرف خوش بیانی کافی نہیں ،چنانچہ عربی کا ایک شعر جس کا مفہوم یہ ہے سچا اور درست شعر وہ ہے کہ جب اسے کوئی شخص سنے تو یہ کہہ کر اٹھے کہ یہ سچی بات ہے ۔ عربی کے شعر کی ترجمانی اقبال نے کی ہے:
ہزار خوف ہو لیکن زباں ہو دل کی رفیق
یہی رہا ہے ازل سے قلندروں کا طریق
اور غزل گو شاعر کلیم عاجز نے اپنی ایک غزل کا مطلع اس طرح کہا ہے :
زمانہ سنگ سہی آئینہ کی خو رکھیو
جو دل میں رکھیو وہی سب کے رو برو رکھیو
مقدمہ شعر و شاعری مثال کے طور پر حالی کے تنقیدی نظریات کا مجموعہ ہے ، حالی نے اپنے تنقیدی نظریات میں ابن خلدون سے بھی استفادہ کیا ہے ، عربی تنقید نگاروں کا اس پر خاصہ اختلاف ہے کہ شاعری اور انشاء پردازی میں عمدلی کا انحصار الفاظ پر ہے یا معانی پر ، حالی نے اس موضوع پر جو گفتگو کی ہے اس سے یہ بات مترشح ہوتی ہے کہ ان کے نزدیک الفاظ کے انتخاب کی اہمیت زیادہ ہے ، وہ مقدمہ ابن خلدون کے آخری حصہ سے ایک اقتباس نقل کرتے ہیں ۔ ’’الفاظ کو ایسا سمجھو جیسے پیالہ کو ، اور معانی کو ایسا سمجھو جیسے پانی ، پانی کو چاہو سونے کے پیالہ میں بھرلو اور چاہو چاندی کے پیالہ میں ، اور چاہو کانچ یا بلور یا سیپ کے پیالہ میں چاہو مٹی کے پیالہ میں ، پانی کی ذات میں کچھ فرق نہیں آتا ، مگر سونے یا چاندی کے پیالہ میں اس کی وقعت بڑھ جاتی ہے اور مٹی کے پیالہ میں کم ہوجاتی ہے اسی طرح معانی کی قدر ایک فصیح اور ماہر کے بیان میں زیادہ ہوجاتی ہے اور غیر فصیح کے بیان میں گھٹ جاتی ہے‘‘ ۔