منیر الزماں منیر ۔ امریکہ
انسان جب ادب کے بارے میں سوچتا ہے تو اس عمل کے دوران خود اپنے آپ کو بھی ادب سے جڑا ہوا محسوس کرتا ہے ۔ اس کے اندر کی دنیا احساس کو مہمیز کرتی ہے اور وہ انکشافات کے بحر ذخار سے گزرتا ہوا مسرت و انبساط حاصل کرنے کی طرف بڑھنے لگتا ہے ۔ ادب پر آشوبی دور ہمیشہ رہا ہے ۔ خاص کر اردو ادب پر ۔ آغاز سے لے کر آج تک کوئی دور ایسا نہیں ہے جس کو ہم مکمل فارغ البالی کا دورہ کہہ سکیں ۔ نامساعد حالات کے باوجود اردو ادب اور اردو شاعری نے نہ صرف اپنی شناخت کو باقی رکھا بلکہ دوسری زبانوں کو بھی گہرہائے آبدوز عطا کئے ۔ ادب جنگ کا میدان نہیں ہے لیکن قلم سے بھی جنگیں لڑی جاتی رہی ہیں ۔
تحریکیں اٹھیں تو تائید اور مخالفت میں زمین آسمان کے قلابے ملادئے گئے لیکن رجحان چپکے سے ادب میں در آئے اور کچھ اس طرح در آئے کہ غیر شعوری طورپر ادب اس کا اسیر ہوتا گیا ۔ ایک کے بعد دوسرا اور دوسرے کے بعد تیسرا رجحان آیا اور فکری اور فلسفیانہ اساس پر بھی سوچنے کے لئے نئی راہوں کی نشاندہی کرتا رہا ۔ انسانی قدریں ہر عہد میں اہم رہی ہیں اور انسان ہر عہد میں اپنے آپ کو مکاں اور لامکاں کے درمیان محسوس کرتا ہے ۔ خدائے سخن میر نے اس لئے کہا تھا ۔
صاف میدان لامکاں سا ہو تو اپنا دل کھلے
تنگ ہوں معمورہ عالم کی دیواروں کے بیچ
اس شعر کو پڑھ کر کبھی یہ احساس ہوسکتا ہے کہ میر نے تو آج کے دور کی بات کہی تھی ۔ ادب میں سارے رجحانات وقفے وقفے سے مختلف چہرے اوڑھے مختلف نقابیں ڈالے ہوئے سامنے آتے رہے ہیں ۔ اور ادیب اور فنکار ان رجحانات کی گرمی سے پگھلے بغیر نہ رہ سکے ۔
ادبی تخلیق میں شاعر یا ادیب اپنے تجربات کا انتخاب کرتا ہے پھر انہیں تجربات کو جذبے اور احساسات کی آنچ میں تپا کر الفاظ کا ایک پیکر تیار کرتا ہے ۔ اس پیکر تراشی میں زمانے اورحالات کا بھی دخل ہوتا ہے ۔ ہر علاقے کا جو مخصوص مزاج ہوتا ہے وہ بھی ادبی تخلیق پر اثر انداز ہوتا ہے اس طرح کبھی کبھی ادبی تخلیق میں یہی حس مشترک جب لفظی پیکر کی شکل میں سامنے آتی ہے اور مشترکہ عناصر ملنے لگتے ہیں تو ایک ادبی رجحان وجود میں آتا ہے ۔
اردو ادب کے پس منظر میں عربی اور فارسی کی روایت کا تسلسل موجود تھا اس لئے یہاں ابتدائی دور میں جو رجحانات نظر آتے ہیں وہ عربی اور فارسی کے توسط سے آئے ہیں مثلاً عربی میں پہلے ’’اواجیز‘‘ (یعنی مختصر نظمیں) ہوا کرتے تھے ۔ اسلام سے تقریباً ڈیڑھ سو برس قبل تک یہی رجحان رہا ۔ مہلیل یا امراؤ یقین نے نئے نئے خیالات و مضامین کے ذریعہ طویل نظمیں کہنا شروع کیں ۔ اس دور میں شاعری مدح ، ہجو، نسیب اور مراثی کا جو رجحان تھا وہ سب ایک ہی صنف میں تبدیل ہوا جسے قصیدہ کہتے ہیں۔
ان قصائد میں ’’دیار حبیب کا تدکرہ‘‘ ’’جوانی پر آنسو‘‘ ’’محبوبہ کی یاد‘‘ ’’اونٹنی کا سراپا‘‘ وغیرہ پیش کرنے کا رجحان رہا ۔ نسیب میں عموماً عشقیہ اور انداز بیان فخریہ ہوا کرتا تھا ۔ اسلام کے بعد اس رجحان کی کمر ٹوٹی لیکن بنو عباس کے زمانے سے ہی عربی قصیدہ نگاری نے اپنے ماضی کی بازیافتہ کی چنانچہ ابونورس اور متنبیٰ کے یہاں وہ سارے پہلو تلاش کئے جاسکتے ہیں جو امراو یقینؔ عبید یا طرفہؔ کے یہاں ہیں ۔
ابتدائی اردو شاعری میں منظوم داستانوں کا رجحان غالب رہا ’’کدم راؤ پدم راؤ‘‘ ’’سیف الملوک بدیع الجمال‘‘ ’’چندو بدن مہیار‘‘ ’’پھول بن‘‘ ’’چندا اور نورک کی کہانی‘‘ اور ’’طوطی نامہ‘‘ یہ منظوم داستانیں سترھویں صدی تک رجحان کی شکل میں موجود رہیں ۔ اسی دور میں رجحان کی دو ذیلی شاخیں تھیں ایک تو موضوعاتی اور دوسری ہیئتی ۔ موضوعی رجحان یہ تھا کہ داستانیں پیش کی جائیں ۔ اسلوبی رجحان میں مقامی اور بول چال کے الفاظ کا زیادہ سے زیادہ اثر رہا ۔ یہ فارسیت سے اس لئے قریب کہا جاتا ہے کہ سرکاری زبان فارسی تھی لیکن شاعری میں فارسیت کے بجائے ہندیت کے اثرات نمایاں ہیں اور اس کا جولحاظ رکھا جاتا ہے کہ جو داستانیں پیش کی جائیں ان میں مقامی رسوم و رواج ، تیور اور اساطیر کا زیادہ سے زیادہ دخل ہو ۔
اس رجحان کے پہلے دو پہلو میں وہ مذہبی رجحان بھی ملتا ہے جس کا نقطہ آغاز ’’نوسرہار‘‘ والے اشرف بیابانی تھے اور جس کی صدائے بازگشت برہان الدین جانم ، غواصی ، وجہی وغیرہ سے گزرتی ہوئی مرزا اور ہاشم علی برہان پوری تک پہنچتی ہے ۔ تیسرا رجحان غزل گوئی کا ہے جس میں فارسی کا اتباع اس اعتبار سے نہیں ہے کہ اس میں محبوب کا نام بھی مل جاتا ہے جیسے ولی کے ہاں گوبند لال اور سلوسہانی اعتبار سے برج بھاشا کھڑی بولی اور مراٹھی کے اثرات نمایاں ہیں ۔ شمالی ہند میں یہ رجحان ابتدائی دور میں رہا ۔ یعنی مذہبی رجحان کی نمائندگی فضلی ، میاں میکش ، میر گھاسی اور پھر میر و سودا کے مرثیوں میں دیکھا جاسکتا ہے ۔ لیکن مثنویوں میں داستانی رنگ محیر العقول پہلو ’’سحر البیان‘‘ کا رنگ اختیار کرلیا گیا ۔ البتہ غزل میں ایہام گوئی اس حد تک بڑھی کہ
ساقی کدھر ہے کشتی مئے
اب کے کھیوے میں پار ہیں ہم بھی
جیسے اشعار سن کر درد کو کہنا پڑا
اے درد اپنے دور میں ابہام رہ گیا
لیکن اٹھارویں صدی کے وسط سے ایسے شعراء وجود میں آئے جن کی اپنی انفرادیت تھی ۔ظاہر ہے کہ جب کوئی رجحان بنتا ہے تو اس میں ایک سے زیادہ افراد کی شمولیت لازمی ہوجاتی ہے ۔ میر ، سودا ، میر درد ، میر سوز ایسے شعراء میں سے تھے جو کسی رجحان کی پیرو نہ بنے بلکہ جنھوں نے خود اپنی شاعرانہ صلاحیت سے انفرادیت حاصل کی ۔ یہ درست نہیں معلوم ہوتا کہ دبستان دہلی میں کسی مخصوص رجحان کی نشاندہی کی جائے اس لئے کہ وہ رجحان نہیں ہے ، وہ روایت ہے لیکن بعد میں رجحان کی شکل میں بعض پہلو نظر آنے لگتے ہیں مثلاً میر نے کہا تھا
ساعد سیمی دونوں اس کے ہاتھ میں لاکر چھوڑدیئے
بھولے اس کے قول و قسم پر ہائے خیال خام کیا
اس طرح انھوں نے محبوب کے ہونٹوں کو گلاب کی پنکھڑی اور اس کی آنکھوں کی نیم خوابی کو کلیوں کے کھلنے سے استعارہ کیا اور محبوب کی روایت سازی کی لیکن لکھنؤ میں آکر یہ رجحان بن گیا ۔ اس رجحان کے سراپا میں صرف ’’محرم آب رواں‘‘ کی یاد میں شامل نہیں تھی اور حباب کے برابر حباب کے آنے کا صرف تذکرہ ہی نہیں تھا بلکہ رنگیا ، چولی چوٹی ، مسی ،سرمہ ، رنگیا کی چڑیا تک امانت لکھنوی کے یہاں نظر آنے لگی اور یہ سراپا نگاری بحیثیت مجموعی خانگی شاعری کا نمونہ بن گئی ۔ چنانچہ لکھنؤ میں یہ رجحانات زیادہ ابھر کر سامنے آئے ۔ لکھنؤ کے اپنے مخصوص معاشرے کی بنا پر یہاں استعاروں کے انتخاب میں باغ وگلشن ، قفس و صیاد ، باغبان ، تنکے ، برق و آشیانہ ، نشیمن ،گل وبلبل کے تلازمے برتنے کا رجحان بہت تیزی سے آگے بڑھا ۔ دہلی میں تصوف کے زیر اثر ، قطرہ اور دریا اور شیخ پر بھپتی کا رجحان تھا ۔ لکھنؤ باغوں کا شہر تھا اس لئے یہاں ایسے تلازمے برتنے کے اسلوبیاتی رجحان کو فروغ حاصل ہوا ۔